غالب کا خط عمران خان کے نام۔۔۔۔۔عامر راہداری

میاں! کہاں پھر رہے ہو؟ اِدھر آؤ ! تڑکے تڑکے ہرکارے نے خبر سُنائی کہ وہ لال حویلی والے سِگار نوش شیخ میاں کو اُدھر سیالکوٹ میں چند ناکارہ و آوارہ لونڈوں نے مدھیل دیا ہے؟ کیا یہ خبر سچ ہے؟ اگر سچ ہے تو خدا جھوٹ نہ بلوائے دِلی خوشی ہوئی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہم بھی وہاں موجود ہوتے، ذرا اپنے ہاتھ بھی گرم ہو لیتے۔ پر خدا کے کاموں میں کب کس کی چلتی ہے، یہ لذت بھی نصیب والوں کو ملنی تھی سو مل گئ۔ اور ہاں سنو میاں لگی لپٹی نہیں رکھوں گا سب سے پہلے تو منہ پہ کہے دیتا ہوں كہ تم سے یہ ریاست نہیں سنبھلنے والی اور سچ کہہ رہا ہوں میاں یہی لچھن رہے تو بچی کھچی نیّا بھی ڈبو بیٹھو گے۔ اس سے پہلے کہ “ننگا نہائے گا کیا نچوڑے گا کیا” والی بات ہونے کو آئے، میری مانو تو ریاست کسی اور کے حوالے کرو اور بقایا زندگی اللہ اللہ کرو۔۔۔
خدا لگتی کہوں تو مجھے گمان ہو چلا تھا کہ اب کی بار کپتان آوے گا تو ہِند سے لے کر سندھ تک انصاف کا بول بالا ہوجاوے گا، مسکین و غربا کی دل جوئی اور اناج و ترکاری وغیرہ کے نرخوں میں کچھ کمی واقع ہوجاوے گی، لیکن خدا کا قہر یہاں تو نرخ کم ہونے کی بجائے آسمان کو چھونے لگے ہیں۔ روپے پیسے کی کمر کیا دولخت ہوئی، غریب و غربا کی ہڈیاں بھی تڑخنا شروع ہوگئیں۔ سستا تو اب میاں خون ہی رہ گیا ہے باقی روزمرہ کی ضروری اشیاء تو غالب کی پہنچ سے دور ہوگئی ہیں۔ گھی، آٹا نِرا گھاٹا، پھل ترکاری جیب پر بھاری۔ سوائے ہَوا اور اُپلوں کے کوئی شے ایسی نہیں جس پر محصول نہ لگا ہو، قہر ٹوٹا ہوا ہے صاحب۔ کیا کیا گوش گزار کروں۔ اور میری جان کے چین باقی سب تو ٹھیک تھا پر یہ بیٹھے بٹھائے مئے کے نرخ کیوں بڑھا دئیے۔؟ کچھ خدا کا خوف کرو بھئی یہ گناہ عظیم بھی تمہاری ناک کے عین تلے ہوگا تو خاک منصفی ہے۔ حالات دیکھ کر چھاتی پر سانپ سے لوٹ جاتے ہیں۔ غریب بے چارے کے پاس تو لے دے کے خودسوزی کی صورت بچتی ہے۔ مجھ سے تو ان حالات میں تاب نہ لائی جاوے ہے۔ کچھ کرسکتے ہو تو کرو میاں۔ تمہارے ناتواں کندھوں پہ جو ریاست اور منصفی کا بار ہے اس پر پورا اترو۔ پہلے اُچّکے اور بیمان والیِى ریاست کو تو تم نے نکال باہر کیا تھا۔ اب تمہاری اپنی عزت پر آنچ آرہی ہے، اوپر خدا کو کیا منہ دکھاو گے۔؟ لوگ منہ میں زبان رکھتے ہیں ہزار طرح کی باتیں ہورہی ہیں۔ لاحول ولا قوہ لوگ تو یہ کانا پھوسی بھی کررہے کہ گزشتہ والیئ ریاست کو تخت سے محروم بھی آپ نے جانتے بوجھتے ایک سازش کے تحت کیا تھا۔ واللہ عالم بالصواب
اور سنو میاں! عزت و حمیت کوئی تخت و تاراج تھوڑی ہے جو ایک بار چلی گئی تو دوبارہ آجاوے گی۔ کچھ خیال کرو۔ منصفی پُل صراط کی مانند ہوتی ہے کہیں لڑھک نہ جائیو۔ اللہ اللہ خدا میری زبان کو لگام ڈالے۔ کیا بَک رہا ہوں۔ صاحب گناہ گار جان کے درگزر کردینا۔ رہے نام اللہ کا۔

توجہ کا طالب
غالب

Advertisements
julia rana solicitors london

٣٠ جمادی الاولی ٢٠١٩

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply