پپو کی شدنی۔۔۔۔توقیر یونس بُھملہ

پپو کی صبح ذرا دیر سے آنکھ کھلی تو حسبِ معمول ناشتہ کیے بغیر بھاگم بھاگ تیار ہوکر گھر سے نکل کر بس سٹاپ پر کھڑا ہوکر مطلوبہ بس کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔اتنے میں بس اسٹینڈ پر اخبار کے اسٹال پر سرسری نظر دوڑائی تو اخبار کی شہہ سرخی دیکھ کر چونک گیا جو کچھ یوں تھی “طیفا بالآخر پکڑا گیا ” ۔۔۔۔اتنا وقت نہیں تھا، پوری خبر پڑھ لیتا ذہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ طیفا ہے ہی اسی لائق عوام کا جینا حرام کیا ہوا تھا۔ اچھا ہوا پکڑا گیا، خس کم جہاں پاک۔۔۔۔ جلدی جلدی موبائل فون پر فیسبک اوپن کی وہاں بھی ایسی ہی خبریں گردش کر رہی تھیں، ابھی وقت کی کمی کے باعث لنک کھول کر پوری خبر تو نہ پڑھ سکا بس خبر کے نیچے ایک آدھ کمنٹس پڑھ کر اپنے تئیں اندازہ ہوگیا کیا ماجرا ہے۔ فوراً فیس بک پر طیفے کے چاہنے والوں کو جلانے کیلئے اسٹیٹس اپڈیٹ کر دیا، “طیفا اپنے انجام کو پہنچ گیا”۔۔۔دھڑا دھڑ کمنٹس آنے لگے، پپو کے پاس جواب دینے کا ٹائم نہیں تھا ،نہ ہی کمنٹس پڑھنے کا، اتنے میں اسکی بس آگئی اور وہ تولیہ بنانے والی فیکٹری جہاں وہ چوکیدار تھا وہاں کا کرایہ دیکر بس میں سوار ہوگیا ۔

ایک دفعہ پھر موبائل نکالا، پوسٹ کے کمنٹس پڑھے، پوسٹ میں طیفے کے چاہنے والے اور اسکے مخالف حریف فیقا کے چاہنے والے  آپس میں گتھم گتھا بلکہ کمنٹوں کمنٹ تھے، کوئی کہہ رہا تھا اسکو پہلے دن سے ہی اٹھا لینا چاہیے تھا، بس ایجنسیوں کی سپورٹ سے بچا رہا، کوئی کہہ رہا تھا ابھی خبر تو نہیں پڑھی لیکن ایسا کرکے حکومت نے اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی ہے، ایک کہہ رہا تھا یار خبر کا لنک سینڈ کرو، ایک صاحب نے حد کردی اچھا ہوگیا کافر اور کتا پکڑا گیا۔۔ حامی اور مخالفین ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے چکر میں جھوٹ سچ مکس کرکے تقریباً لڑنے مرنے تک اتر آئے تھے, کچھ نے ایسی خبر شئیر  کرنے پر واہ واہ کا تڑکا لگا رکھا تھا۔

طیفے  کا ایک حامی کہہ رہا تھا پچھلے سال فیقا چوری کے سارے ڈنگر سرحد پار بیچ آیا تھا اور سرحد پار کے دشمن بیوپاری بھی اسکے گھر آتے جاتے رہتے ہیں اس پر کبھی کسی کو تکلیف نہ ہوئی، طیفے  نے وہ ڈنگر واپس لانے اور بیوپاریوں کو برا بھلا کہا تو سب کو مرچیں لگ گئیں، فیقا کے حامیوں نے کہا طیفا آئے روز کافرستان جاتا رہتا تھا وہ بھی کافر ہی ہے، پپو نے بھی کمنٹ کردیا تم سب جاہل کم عقل اور غلام ہو تم لوگ منافقت بھی کرتے ہو ۔۔جانتے ہو کہ طیفے  کا نام منشیات بیچنے والوں میں آیا تھا لیکن پھر بھی مسجد کا افتتاح اسکے ہاتھوں کروایا، اور فیقے نے تو تم جیسے اندھے بہروں کی جہالت دور کرنے کیلئے اسکول بھی بنایا تھا، ایک نے لکھا کاش فیقا اس اسکول میں خود بھی پڑھ لیتا، ایک نے لکھا طیفا بچپن میں آوارہ مزاج تھا، طیفا کے چاہنے والے کو آگ لگ گئی۔۔ بھئ تم کون ہوتے ہو اسکا بچپن کھوجنے والے، بات طیفا اور فیقا سے ہوتی ہوئی گھروں اور چوباروں تک آگئی ۔۔۔۔پپو کو مداخلت کرنا پڑی کہ  پوسٹ کے حساب سے کمنٹس کرو ان باتوں کا یہاں کیا کام، بس ایسا لگ رہا تھا کہ ہر بندہ اپنا سچ منوانے اور اپنی تشریح لاگو کرنے میں مصروف اور کس حد تک کامیاب ہے، اتنے میں پپو نے اپنے آپ کو دانشور سمجھتے ہوئے باقیوں کو جاہل اور کمتر، عقل کے اندھے اور پتا نہیں کیا کیا کہہ دیا، کچھ نے ایک دوسرے کو ان فرینڈ کردیا کچھ نے بلاک کردیا، کچھ نے پپو کو انباکس میں گالیاں دیں ، مجبوراً پپو کو پوسٹ کلوز کرنا پڑی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اتنے میں اسکا اسٹاپ آگیا پپو نے اترتے اترتے فیسبک کی باقی خبروں کو سکرول کیا طیفا والی خبر پھر سامنے آگئی اس نے خبر پڑھنے کیلئے لنک اوپن کیا تو خبر پڑھ کر دنگ رہ گیا، خبر کچھ یوں تھی طیفا شام کو پبلک پارک میں چہل قدمی کررہا تھا کہ  اس کے مداحوں نے سیلفی بنانے کی خاطر گھیر لیا اور اسکو پکڑ کر خوب سیلفیاں بنائیں ۔ پپو نے فوراً پوسٹ ڈیلیٹ کی۔ لیٹ پہنچنے پر جھوٹ کا سہارا لیا لیکن بڑے صاحب کی جھڑکیاں اور کاہل و  سست ہونے کے طعنے پھر بھی سننے پڑے ۔سوشل میڈیا ارسطو کامنہ  لٹک گیا اور لٹکے ہوئے منہ کے ساتھ بڑبڑاتے ہوئے آتے جاتے فیکٹری کے افسران کو سلام کرنے لگا۔

Facebook Comments

توقیر بھملہ
"جب خلقت کے پاس آؤ تو زبان کی نگہداشت کرو"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply