• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بیداری ملت – ساتویں قسط/مولف: علامہ نائینی/ مترجم : اعجاز نقوی

بیداری ملت – ساتویں قسط/مولف: علامہ نائینی/ مترجم : اعجاز نقوی

وہ سارے واقعات جو پچھلےصفحات میں ذکر کئے گئے ہیں وہ اس رکن اعظم یعنی مساوات کی اہمیت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اور اب مذہب شیعہ امامیہ کے عصرِ حاضر (1) کے علماء و فقہاء اپنی شرعی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے، مساوات وحریت پر مبنی انبیاء و اولیاء الہی کی اسی سیرت کی پیروی کرتے ہوئے عام مسلمانوں کے چھینے ہوئے حقوق کی بازیابی اور ملت کی آزادی و حریت کے حصول کے لئے پوری طرح کمربستہ ہوچکے ہیں۔

چونکہ شریعت مقدسہ کا دستور ہے کہ “مَا لَایُدرَکْ کُلُّهُ لَایُترَکْ کُلُّهُ” (2)۔ اس اصول پر عمل کرتے ہوئے مذہبِ جعفری کے مفتیانِ اعظم اس کوشش میں ہیں کہ شہنشاہیت اور آمرانہ نظام حکومت کو آئین کا پابند بنا کر اس کو آئینی جمہوری نظام میں تبدیل کرسکیں۔ (3) کیونکہ جمہوری نظام ہی کافی حد تک فساد کا خاتمہ کرکے کفار (سامراجی ممالک) کے تسلط کو کم کرسکتا ہے۔ یہی راستہ اسلام کی عزت و سربلندی کا راستہ ہے۔
چونکہ اسلام کے غیور فرزندوں کو بیدار کرنا، آمروں کی غلامی سے آزادی کے حصول کی ترغیب دلانا اور تمام حکومتی مسائل میں فرزندان اسلام (یعنی عام لوگوں) کی شرکت اور برابری کی اہمیت بتلانا، وہ بنیادی سبب ہے جس کے ذریعے آمرانہ نظام حکومت کو بدلا جاسکتا ہے۔
اسی لئے مذہبی آمروں (درباری علماء) کا مفاد پرست گروہ اس بیداری کے خلاف ہے۔ چنانچہ اس گروہ نے سیاسی آمریت کی بقاء کے لئے اپنے پرانے وطیرے پر عمل کرتے ہوئے دین و مذہب کا نام استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ حالانکہ قرآنی فرمان یہ تھا کہ:
لاتلبسوا الحق بالباطل و تکتمو الحق و انتم تعلمون (4)
ترجمہ :
اور حق کو باطل کے ساتھ خلط نہ کرو اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاؤ۔(ترجمہ از شیخ محسن علی نجفی)
لیکن اس آیت کے ابتدائی مخاطبین کی طرح اس گروہ نے بھی حکمِ خدا کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ملت کی سعادت اور امت کےلئے سرمایۂ حیات بننے والے دونوں اصولوں، یعنی مساوات و حریت، کے خلاف لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے اور ملت کو حقیقت سے بے خبر رکھنے کےلئے ان دونوں اصولی قدروں کو غلط رنگ میں پیش کیا۔
حرّیت و آزادی خدا کی دی ہوئی وہ نعمت عظمی ہے جس کا خاتمہ مسلم تاریخ میں بنو عاص (5) نے کیا تھا۔ حالانکہ آزادی و حریت کا حصول انبیاء کے بنیادی مقاصد میں شامل رہا ہے۔
مذہبی آمروں کے اس گروہ نے پہلے تو اس عظیم نعمتِ الہی کو ایک خیالی چیز قرار دیا۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس بات کی تبلیغ شروع کر دی کہ آزادی کے نتیجے میں فاسق و فاجر لوگوں کو اعلانیہ فسق و فجور کی، ملحدین کو اپنی کفریات کی اشاعت کی اور بدعت گزاروں کو بدعت سازی کی کھلی چھوٹ مل جائے گی۔ (6)
یہاں تک کہ (بعض ممالک میں) خواتین کی بے پردگی رائج ہوجانے کو بھی آزادی کا ہی نتیجہ قرار دیا۔ حالانکہ ان باتوں کا آمریت کے خلاف چلنے والی آئینی جمہوریت کی تحریک سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ جن ممالک میں یہ چیزیں رائج ہوئیں وہاں مسیحیت رائج تھی۔ اور مسیحی مذہب میں ان چیزوں کی ممانعت نہیں تھی۔ اسی وجہ سے روس جیسے ملک، جہاں (زار کا) آمرانہ نظام حکومت ہے، میں بھی اسی طرح یہ سب آزادیاں حاصل ہیں جیسے فرانس اور انگلینڈ جیسے جمہوری ملکوں میں۔
رہ گئی بات قانونی و حقوقی مساوات کی تو مساوات کے بارے میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ ملت کی سعادت کا ذریعہ ہے اور پیغمبر اسلام (ص) نے مساوات کے قیام کے لئے جو کوششیں کیں اور حضرت امیر (ع) نے مساوات کے لئے جو مشکلات برداشت کیں وہ بھی آپ جان چکے ہیں۔
مساوات کی مخالفت کے لئے مذہبی آمروں کے اس طبقے نے یہ تبلیغ شروع کردی کہ اس صورت میں وراثت، شادی بیاہ اور قصاص وغیرہ میں ذمی کافر مسلمانوں کے برابر ہوجائیں گے، بالغ و نابالغ برابر سمجھے جائیں گے اور دیوانے، عقل مندوں کے برابر درجہ پائیں گے۔ مریض و صحت مند، مجبور و خود مختار سب کو ایک لاٹھی سے ہانکا جائے گا!!
حالانکہ ان سب میں فرق شرعی تکالیف کے لحاظ سے ہے۔ اور مذکورہ بالا چیزوں کا سیاست میں مساوات یا آئینی جمہوریت کی تحریک سے فرق زمین و آسمان کا فرق ہے۔ (7)
خلاصہ کلام، چونکہ حریت و مساوات ہی ملت کی زندگی کے ضامن اور اس کی سربلندی کا سبب ہیں۔ یہ اصول ملت کے شہری حقوق کے تحفظ کے ضامن اور آمریت کو لگام ڈالنے کا موجب ہیں۔ لہٰذا مذہبی آمروں نے خدا کی ان دو عظیم نعمتوں کی بگڑی ہوئی تصویر عوام کے سامنے پیش کی تاکہ ملت کو ان سے متنفر کیا جاسکے۔
وہ نہیں جانتے کہ روشنی کو پھیلنے سے روکنا ناممکن اور دریا کے راستے میں ریت کی دیوار کھڑی کرنا بے وقوفانہ عمل ہے۔ (8)
اگرچہ ملتِ ایران نے اس وقت اپنی آنکھیں اور کان بند کر رکھے ہیں۔ وہ علماء دین کی نااہلی کی وجہ سے دین کے تقاضوں سے بے خبر، اپنے حقوق سے لاعلم، نیز حریت و مساوات کی اہمیت سے نابلد ہیں اور مفت خور عمامہ پوشوں کی خوشگذرانی کا سامان فراہم کرنے کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔ وہ اپنے حقیقی رتبے سے بھی لا علم ہیں اور اسی وجہ سے آئینی جمہوری تحریک سے مذکورہ امور کے غیر متعلق ہونے سے بھی بے خبر ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ اتنی بات ضرور جانتے ہیں کہ ملک کے دانا و غیور اہلِ عقل و دانش، جن میں علماءِ دین بھی ہیں اور مخیر تجار بھی، بہرحال ان سب کی کوششیں اس خاطر نہیں کہ اپنی عزت و ناموس کو بے پردہ بازار بھیجنا چاہتے ہیں۔ اور نہ وہ یہود و نصاریٰ سے کوئی وابستگی قائم کرنا پسند کرتے ہیں۔ نہ ہی ان کے ذہنوں میں بالغ و نابالغ کی برابری یا فسق و فجور کو عام کرنے کی خواہش ہے۔
ملت کم از کم اس بات سے ضرور باخبر ہے کہ مذہب کے پیشوا (مراجع کرام) اسلام کی سربلندی و خودمختاری کی بقاء کی خاطر ہی اس قدر سخت گیری کرتے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں ملتِ اسلامیہ کو اغیار سے وابستہ کرنے کی ہر کوشش امامِ زمان (عج) سے جنگ کے مترادف ہے۔ (9)
مذہبی آمروں کا یہ طبقہ، شریعت کے احکام کو مٹانے والے اور ظلم وجبر کو فروغ دینے والے سیاسی آمروں اور مطلق العنان حاکموں کو خوب پہچانتے اور جانتے ہیں کہ آمروں کا اس طرزِ چنگیزی کو فروغ دینے سے اس کے سوا کوئی اور مقصد نہیں کہ عوام الناس کو اپنی غلامی میں برقرار رکھتے ہوئے اپنی من مانی کرسکیں۔ اور کوئی ان سے جواب طلبی نہ کرسکے۔
اور یہ مذہبی آمر اپنے طبقے کو بھی خوب جانتے ہیں جو اس عہد کے ظالموں کے پرستار ہیں۔ دین کے راہزن اور مسلمانوں کے کمزور طبقے کو گمراہ کرنے والے علماء سوء کی وہ صفات جو احتجاج طبرسی کی روایت میں بیان ہوئی ہیں، اس روایت سے بھی باخبر ہیں۔ وہی روایت جس کے آخری الفاظ یوں ہیں۔ “ایسے علماء کا نقصان یزید کے لشکر سے زیادہ ہے”۔ (10)
مذہبی آمروں کا یہ طبقہ خوب سمجھتا ہے کہ سیاسی آمروں کی ہمکاری سے ان کا نتائج کیا ہیں؟
وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ انہوں نے خود کو سورہ آل عمران کی اس آیت کریمہ کا مصداق بنا لیا ہے۔ جس میں خدا نے اہل کتاب کو فرمایا کہ
ترجمہ: اور (یاد کرنے کی بات ہے کہ) جب اللہ نے اہل کتاب سے یہ عہد لیا تھا کہ تمہیں یہ کتاب لوگوں میں بیان کرنا ہو گی اور اسے پوشیدہ نہیں رکھنا ہو گا، لیکن انہوں نے یہ عہد پس پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر اسے بیچ ڈالا، پس ان کا یہ بیچنا کتنا برا معاملہ ہے۔ (ترجمہ از شیخ محسن علی نجفی) (11)
وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کا انجام ہمیشہ کی بدنامی اور دنیا وآخرت کی ناکامی نیز عذاب الہی سے دچار ہونے کے سوا کچھ نہیں۔
لیکن اس سب کے باوجود!
بہرحال بہتر ہے کہ اس طبقے کی فضیحتیں گنوانے کی بجائے عنانِ قلم کو ان کے مغالطوں کی طرف موڑا جائے۔
اب ہم اس باب کو ختم کرکے اگلے ابواب کی فہرست پیش کرتے ہیں۔ (12)
* دوسرا باب: اس باب میں بیان ہوگا کہ اسلام اور دیگر ادیان بلکہ قدیم و جدید حکماء، عقلا و دانشورانِ عالم کی نظر میں حکومت کی حقیقت اتنی ہے کہ اس کو جمہوری یا شورائی ہونا چاہئے۔ اور آمرانہ نظام حکومت طاغوتی حکمرانوں کی بدعت ہے۔
* تیسرا باب: زمانۂ غیبت کبریٰ (13) میں جبکہ ملت کی رسائی حقیقی الہیٰ حکمران، یعنی امامِ معصوم، تک نہیں اور نہ ہی ان کے نائبین عام کو وہ مقام حاصل ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرسکیں۔ اندریں حالات کیا آمرانہ نظام – جو ظالمانہ بھی ہے اور غاصبانہ بھی- کو آئین کا پابند بنا کر اس کو جمہوری نظام میں تبدیل کرنا واجب ہےیا نہیں؟ یا یہ کہ مقام ولایت کے غصب ہوجانے سے شرعی ذمہ داری ساقط ہوجاتی ہے؟
* چوتھا باب: اس باب میں یہ بیان کیا جائے گا کہ اگر آمریت کو آئین کا پابند بنانا لازم ہے تو کیا یہی آئینی جمہوریت (مشروطیت) جو حریت و مساوات پر قائم ہے، یہی واحد راہ حل ہے؟
* پانچواں باب: اس میں کچھ مغالطوں کو بیان کرکے ان کا رد کیا جائے گا۔
* چھٹا باب: اس میں ملت کے منتخب افراد کی حکومت میں دخالت کی صحت اوراس کی شرائط کو بیان کیا جائے گا۔
* ساتواں باب: اس باب میں آمریت کے ہتھکنڈوں اور ان کی چارہ سازی کے طریقے بیان ہونگے۔
جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

حواشی و حوالے:
1:عرض مترجم؛
علامہ نائینی نے یہاں بریکٹ میں لکھا ہے کہ”عصر حاضر میں ملت اسلامیہ کا زوال اپنی انتہا کو پہنچ کر اب خاتمے کے قریب ہے۔ اس لئے یہ عصر مسلمانوں کے لئے سعادت و کامیابی کا زمانہ ہے”۔
2: عرض مترجم؛
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی مقصد کو مکمل طور پر حاصل کرنا ممکن نہ ہو تو اس کی جتنی مقدار حاصل ہوسکے اتنی بھی غنیمت ہے۔ اردو میں محاورہ ہے کہ “اگر گندم نہ مل سکےتو بھوسی غنیمت ہے”۔
3: عرض مترجم؛
علامہ نائینی نے جس زمانہ میں یہ کتاب لکھی تھی اس وقت ایران میں تحریک مشروطہ عروج پر تھی۔ اس تحریک کا مقصد آمرانہ شاہی نظام کو آئین کا پابند بنانا تھا۔ اس تحریک میں نجف اشرف کے مرجع اعلیٰ ملا محمد کاظم خراسانی، المعروف آخوند خراسانی (متوفیٰ 1911ء) اور ایران میں مقیم مجتہدین (خاص طور پر سید عبدالله بہبہانی اور سید محمد طباطبائی) کا بھرپور کردار تھا۔ یہاں اسی طرف اشارہ ہے۔
4: سورہ بقرہ آیت 42۔
5: عرض مترجم؛
یہاں بنو امیہ کی 90 سالہ حکومت کی طرف اشارہ ہے۔ بنو عاص سے مراد مروان بن حکم اور اس کی اولاد ہے، جن کی اسلامی دنیا پر حکمرانی رہی۔
6: عرض مترجم؛
یہاں شیخ فضل اللہ نوری اور ان کے ساتھیوں کی تحریروں اور پروپیگنڈہ کی طرف اشارہ ہے۔
7: عرض مترجم؛ علامہ نائینی نے یہاں ایک ضرب المثل بیان کی ہے۔
“از فلک اطلس ابعد است۔”
بطلیموسی فلکیات میں فلک اطلس، ساتویں آسمان یا عرش کو کہا جاتا ہے۔
اس محاورے کا لفظی ترجمہ ” ساتویں آسمان سے بھی پرے” بنتا ہے۔ لیکن میں نے ترجمے میں اس کی جگہ اردو محاورہ لکھ دیا ہے۔
8: عرض مترجم؛
یہاں بھی علامہ نائینی نے دو فارسی محاورے استعمال کئے ہیں۔
“آفتاب را گل اندود کردن محال”۔
اس کا لفظی ترجمہ یوں بنتا ہے کہ ” سورج کو مٹی سے چھپانا ناممکن ہے” مفہوم اس کا یہ ہے کہ سورج کی روشنی کو روکا نہیں جاسکتا۔ اور روشنی ہر جگہ پہنچ جاتی ہے۔
دوسرا محاورہ ہے”دھنه دریائے نیل را بہ بیل مسدود ساختن”
یعنی دریائے نیل پر بند باندھنے کے لئے ایک بیلچہ لے کر نکل کھڑا ہونا بے وقوفی کی بات ہے۔ کیونکہ یہ ایک اکیلے آدمی کے بس کی بات نہیں۔
9: عرض مترجم:
اس جملے میں تمباکو سے متعلق فتوے کی طرف اشارہ ہے۔ جب ایرانی شہنشاہ ناصرالدین شاہ نے ایران میں تمباکو کا ٹھیکہ ایک برطانوی کمپنی کو دیا، تو تاجروں کی طرف سے اس معاہدے کی شدید مخالفت ہوئی۔ اور ایک بھرپور مزاحمتی تحریک شروع ہوئی۔ بالآخر شیعہ مجتہد آیت الله علامہ سید محمد حسن شیرازی (متوفیٰ 1894ء) نے یہ فتوی دیا کہ “آج سے تمباکو کا استعمال امام زمانہ(عج) سے جنگ کے مترادف ہے”۔ اس فتوے کے بعد ایرانی عوام نے تمباکو کو اپنے لئے حرام قرار دیا۔ اس فتوے کا اثر اتنا شدید تھا کہ شاہ کو برطانوی کمپنی کے ساتھ کیا گیا معاہدہ ختم کرنا پڑا۔
10: احتجاج طبرسی، جلد 2، ص 264
http://shiaonlinelibrary.com/%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%AA%D8%A8/1338_%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%AD%D8%AA%D8%AC%D8%A7%D8%AC-%D8%A7%D9%84%D8%B4%D9%8A%D8%AE-%D8%A7%D9%84%D8%B7%D8%A8%D8%B1%D8%B3%D9%8A-%D8%AC-%D9%A2/%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%81%D8%AD%D8%A9_262
عرض مترجم؛
آئینی جمہوریت کی تحریک کے دوران مذہبی علماء کا ایک طبقہ ہرقسم کی جمہوری اقدار کا مخالف تھا۔ جن میں شیخ فضل الله نوری پیش پیش تھے۔ شیخ نوری اور ان کے ساتھیوں نے جمہوری تحریک کی مخالفت میں کافی لٹریچر شائع کیا۔ میں نے شیخ کا وہ رسالہ بھی دیکھا ہے جس میں شیخ نوری نے حریت ومساوات کے خلاف قلم فرسائی کی ہے۔ علامہ نائینی کی یہ کتاب”بیداری ملت” اسی طبقے کا جواب ہے۔ اور علامہ نے حریت و مساوات کے خلاف پیش کردہ جو مغالطے یہاں نقل کرکے ان کا جواب دیا ہے ان میں زیادہ تر شیخ نوری کے اسی رسالے “تذکرة الغافل و ارشاد الجاهل” میں مذکور ہیں۔
شیخ نوری دربار سے وابستہ تھے۔ وہ ابتدا میں آئینی جمہوری تحریک کے حامی تھے، کیوں کہ اس وقت کے بادشاہ مظفر الدین شاہ بھی ان اصلاحات کو درست سمجھ رہے تھے۔ لہٰذا اسمبلی کی پاس کردہ قراردادوں پر علماء کی نظارت کا قانون پاس کروانے میں بھی شیخ فضل اللہ نے کردار ادا کیا تھا۔ لیکن جب اس کی وفات کے بعد نیا جوان بادشاہ، محمد علی شاہ قاجار، تخت نشین ہوا جو اپنے اختیارات کی کمی اور جمہوریت کو پسند نہیں کرتا تھا، تو رفتہ رفتہ شیخ مکمل طور پر جمہوریت کے مخالف بن گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے جمہوریت، اسمبلی اور آئین کو بدعت اور حریت و مساوات کو خلاف اسلام قرار دیا۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ جس کا الگ سے مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
11:سورہ آل عمران آیت 187۔
12:عرض مترجم؛ علامہ نائینی کی اصل کتاب کی ترتیب اس طرح ہے کہ پہلے ایک مقدمہ ہے اس مقدمے کے آخر میں اگلےابواب کی فہرست دی گئی ہے۔
مقدمے کے بعد پانچ باب ہیں۔ جبکہ خاتمے کا باب الگ سے قائم کیا گیا ہے۔ لیکن ہم نے ترجمے میں مجموعی طور پر سات باب بنا دیئے ہیں۔ مقدمے کو پہلا باب اور خاتمے کو آخری باب قرار دیا ہے۔
13: عرض مترجم؛ شیعہ امامیہ کا عقیدہ ہے کہ بارہویں امام یعنی امام مہدی (عج) جن کو امام زمانہ اور امام عصر بھی لکھا جاتا ہے، عام لوگوں کی آنکھوں سے غائب ہیں۔
ان کی غیبت کے دو دور ہیں۔ پہلا دور غیبت صغریٰ کہلاتا ہے۔ اس دور میں یکے بعد دیگرے
امام کے چار مخصوص نائب تھے۔ جن کے ذریعے ان کا عام شیعوں سے رابطہ تھا۔ یہ دور تقریبا 69 سال جاری رہا۔ اس کے بعد کا دور غیبت کبریٰ کا دور کہلاتا ہے۔ اس دور میں امام کا کوئی مخصوص نائب نہیں۔ لیکن فقہاء و مجتہدین کو ان کے نائبِ عام سمجھا جاتا ہے۔ البتہ ان کی وہ حیثیت نہیں جو نائبینِ خاص کی تھی۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply