بیٹی اور بہنوں کو حق دو۔۔۔عمران علی

انسان کو دنیاوی، معاشرتی علم کی روء سے، “معاشرتی جانور” کہا جاتا ہے، “Man is a Social Animal”۔۔مگر پھر بھی انسان سے توقعات انسانی اقدار کے حساب سے ہی وابستہ ہوتی ہیں۔ انسان کی جبلت ہے کہ یہ اپنے ارد گرد بسنے والے دیگر لوگوں سے تعلقات کی استواری کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور واقعتاً معاشرہ نام ہی لوگوں کی باہم ربط اور ہم آہنگی سے یکجا رہنے کا ہے، لیکن زندگی کا اصل حسن تو انسانی رشتوں کے ساتھ ہے، ماں، باپ، بہن، بھائی، چچا، خالہ،بیوی، بچے، ماموں، ممانی، پھپھو، تایا، دادی، دادا، یہ محض رشتوں کے نام نہیں ہیں۔ یہ تو جذبات، احساسات، دردمندی اور سب سے بڑھ کر محبتوں کے نصاب ہیں۔

انہی رشتوں کی چاشنی کی وجہ سے تو زندگی میں حُسن اور تابندگی ہوتی ہے، لیکن کچھ رشتے تو ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی موجودگی آپ کے لیے جسم میں خون کی گردش، سانسوں کی روانی اور احساس زندگی ہوتا ہے، اور یہ والدین کے بعد بہن بھائی کا رشتہ ہوتا ہے، کیا ہی خوبصورت رشتہ ہے جس میں ہمدردی و محبت کے ساتھ ساتھ خاص قسم کی رازداری بھی موجود رہتی ہے۔

پوری دنیا کے سامنے آپ برے ہوسکتے ہیں لیکن بہن کے لیے آپ ہمیشہ معصوم ہی رہتے ہیں، بہن کے بعد یہ گدی بیٹی سنبھال لیتی ہے، بہن بھائیوں کے رشتے کا جب احاطہ کریں تو یقین جانیں کہ انصاف کے ترازو میں بہن کی اپنے بھائی کے لیے محبت کا  پلڑا ہمیشہ   بھاری ہی رہتا ہے، بہنیں سراپا قربانی ہی نظر آتی ہیں، میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں اور میری چار بہنیں ہیں، میرے والدین اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اسی لیے ان لوگوں نے ہم پانچوں بہن بھائیوں کو بالکل برابری کے حقوق دیے اور محبت کے معاملے میں تو مجھ بہنوں کو کئی درجے فضیلت ہی حاصل رہی جو کہ میرے لیے زندگی بھر کا اعزاز ہے، بہنیں اور بیٹیاں ہم سے پیار اور عزت کے علاوہ مانگتی ہی کیا ہیں، لیکن جب بات جائیداد میں بہنوں کو انکا شرعی حصہ دینے کی آجائے تو افسوس اور صد افسوس ہماری اندر کی حیوانیت باہر آجاتی ہے،انسان کیوں بھول جاتا ہے کہ موت تو اٹل ہے، کتنا کھا لے گا اور حصہ بھی بہن جیسے محب اور بے ضرر رشتے کا  جو کہ پہلے ہی تیرے حصے کا نصف ہے ۔

چند  روز قبل ایک نیوز چینل پر سگے بھائیوں کی طرف سے  درندگی کی بدترین زندہ مثال  دیکھنے میں آئی،حافظ آباد کی نائلہ کو سگے بھائیوں نے 20 سال تک کمرے میں اس لیے بند رکها تاکہ وہ جائیداد کا حصہ نہ مانگ سکے۔حافظ آباد کا ایسا محلہ جہاں تنگ گلیاں آس پاس گهروں کا ہجوم ،کتنے لوگوں نے اس کی چیخوں سسکیوں کو سنا ہوگا کتنے سرکاری افسران آئے اور گئے ہونگے 20 سال تک جانوروں سے بدترین قید کاٹنے والی نائلہ کی حالت پر جانور بهی پناہ مانگتے ہونگے۔

بتایا جاتا ہے نائلہ کو کهانا شاپر میں باندھ کر پهینکا جاتا  تھا ،وہ کهاتی ہے نہیں کهاتی، وہ کیسے اٹهتی ہے کیسے سوتی ہے، یہ اس کمرے میں پڑی گندگی کے انبار اور بدبو سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔۔پورے محلے میں 20 سال تک کوئی ایسا انسان نہیں تها جو اس ظلم کا پردہ فاش کرتا ،نائلہ کو بازیاب کراتے وقت اسکے بڑهے ہوئے ناخن اور جسم میں پڑے ہوئے کیڑوں نے ہماری انسانیت پر کتنے سوال چهوڑے یہ آپ خود ویڈیو دیکھ کر ہی اندازہ لگائیں,اس ملک میں قانون اندها اور ظالم کو آزادی حاصل ہے۔

پتہ نہیں کتنی نائلہ آج بهی جاگیرداروں سرداروں وڈیروں ظالم افسران یا ہماری اپنی لالچ کی بھینٹ  چڑھ کر تہہ خانوں میں جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہی ہونگی ،جب سگا بهائی چند ٹکے کی جائیداد کیلئے بہن کو جانوروں  کی طرح رکھے ۔۔۔

میرا مطالبہ ہے دنیا کے ہر اس ظالم بھائی اور باپ سے جس نے دولت کے  لالچ میں بہن، بیٹی کو  اس کے جائز حق سے محروم کر رکھا ہے، کہ “بیٹی اور بہن کو اس کا حصہ دو” اگر یہ حصہ دیے بغیر چلے گئے تو نہ یہ جہاں تمہارا ہے نہ وہ جہاں تمہارا ہے،اکثر قانون سازی کرنے والوں میں سے بڑی تعداد ایسے لوگوں کی رہی ہے کہ جنہوں نے خود اپنی بہنوں بیٹیوں کا حصہ مارا ہوا ہے، خواتین کے حقوق کی پاسبانی کے  لیے  کام تو کر رہے ہیں،مگر خود بھی اسی قبیح فعل میں ملوث ہیں –

Advertisements
julia rana solicitors

میری اپنی، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں سے گزارش ہے کہ آپ اپنی گود جو کہ ہر بچے کی پہلی درسگاہ ہے اس سے اپنے بیٹوں کو یہ درس دیں کہ بہنوں کا حق دینا واجب ہے اور اس حق کی ادائیگی سے روگردانی کرنے والا نہ انسان ہے اور نہ ہی وہ مسلمان ہے۔

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply