مطلب کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ذیشان ملک

دنیا میں کہیں بھی انسانی بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو ایک وقت تک وہ بس رو یا ہنس کر اپنے احساسات و جذبات و ضروریات کا اظہار کرتا ہے۔۔ پھر وہ اپنے اردگرد بولی جانے والی زبان پر اپنا ذہن مرتکز کرتا ہے اور اپنے ماں باپ کے منہ سے نکلے الفاظ حفظ کرنے لگتا ہے۔۔

اب بچے کا ذہن وہی الفاظ یا زبان پر عبور حاصل کرنے لگتا ہے جو اس کے آس پاس بولی جاتی ہے۔۔اب وہ زبان کوئی بھی ہو کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں تقریباً ساڑھے چھ ہزار کے آس پاس زبانیں بولی جاتی ہیں۔۔اور اپنے پاکستان کی بات کریں تو تقریباً 73 یا 76 زبانیں بولی جاتی ہیں۔

اب بچہ جس زبان کے ماحول میں پرورش پاتا ہے تو وہ اس کی مادری زبان کہلاتی ہے۔اب اس زبان کے علاؤہ کوئی اور زبان میں بات کی جائے تو سر سے گزر جاتی ہے۔یا وہ زبان بولنے والے پر رحم اور  یا ہنسی آتی ہے کہ کیا بول رہا ہے اور وہ دوسرا بھی یہی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ کہاں پھنس گیا۔

اب اپنی مادری علاقائی زبان کے علاوہ اگر قومی زبان پر بھی عبور ہو تو کیا ہی بات ہے۔
میں تو اس کو موسٹ انٹیلی جنٹ مانتا ہوں جو اپنی علاقائی۔قومی زبان کے ساتھ ساتھ کسی غیر ملکی زبان پر دسترس رکھتا ہو۔اب ہماری اردو پیاری زبان جو کہ لشکری زبان کے طور پر بھی معروف ہےوجہ اس کی وسعت اور گہرائی میں کسی دوسری زبان کے الفاظ اپنے اندر سمو لینا ہے۔اور ایسے معلوم ہو کہ یہ اردو لغت کے ہی الفاظ ہیں۔
اردو زبان میں زیادہ تر فارسی،سنسکرت،عربی،ترکی،کردی،پرتگیزی،انگلش،دکنی،کھڑی بولی کے الفاظ شامل ہیں۔۔پاکستان میں اردو زبان پر پشتو، پنجابی،سرائیکی، بلوچی، سندھی زبانوں کا اثر پایا جاتا ہے۔

اب ایسا بھی ہوتا ہے جو لفظ آپ کے ہاں کسی اور پیرائے میں معنی لیے جاتے ہیں وہی الفاظ کسی دوسری زبان میں ایک بالکل اُلٹ یا دوسرے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

بہت سال  پہلے میں ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں جدہ شہر میں مقیم تھا۔اور پراجیکٹ سعودی آرامکو کمپنی کے ٹیلی کمیونیکیشنز سروسز کے سلسلے میں تھا۔میرے دائرہ کار میں سعودی آرامکو کی تنصیبات پر موجود ٹیلی کمیونیکیشن کے نظام کو صحیح طور پر چالو حالت اور ہر قسم کے ٹیکنیکل  مسائل  سے بچا کر رکھنا تھا ۔میں پاکستان سے نیا نیا آیا ہوا تھا۔عربی زبان پر عبور نہیں تھا لیکن لکھی  ہوئی عربی پڑھ لیتا  تھا،کچھ الفاظ سمجھ میں آ جاتے اکثر الفاظ بغیر معنی کے پڑھ لیتا۔۔
کام کے سلسلے میں ہمیں روز ٹکٹ ایشو ہوتے تھے جو کہ سعودی آرامکو کی مختلف جگہوں پر موجود تنصیبات پر کسی وجہ سے ان کو ٹیلی کام کی سہولیات فراہم کرنی ہوتی تھیں۔ان ٹکٹ کو آپ یہ سمجھ لیجیے جیسے آج کل گھر گھر میں انٹرنیٹ کا کنکشن چاہیے۔
تو ایک دن اسی کام کے سلسلے میں جدہ آئیل ریفائنری میں ایک جگہ  جانا ہوا ،کام اور مسئلے کو حل کیا مگر وہ بندہ ایک نیا ٹیلیفون سیٹ چاہتا تھا مگر میں نے جو ٹکٹ پر درج تھا کہ   فلاں  مسئلہ ہے وہ حل کر دیا ہے نیا ٹیلیفون سیٹ کی ڈیمانڈ نہیں تھی تو وہ بولا ایک منٹ رُکو، پھر میرا نام بھی پوچھا۔ میرے متعلقہ باس کو کال ملائی اور  سپیکر کُھلا رکھا۔ وہی روایتی طور پر حال چال دریافت کرنے کے بعد بولا کہ
مہندس اجھزا موجود ھنا۔۔
مجھے تو باقی سب بھول گیا کہ بس مہندس اجھزا یاد رہ گیا۔میں سمجھا کہ یہ مکھن لگا رہا ہے۔۔ کیونکہ میں اجھزا کو جہاز سمجھ رہا تھا کہ یہ مجھے خوش کرنے کے لیے مجھے جہاز کا انجنیئر بول رہا ہے مگر ادھر  کسی جہاز کا کیا کام۔اور تو اور میرا باس بھی بجائے اس کو یہ بولے کہ بھائی وہ تو ٹیلی  کام ٹیکنیشن ہے جہاز کہاں سے آ گیا۔۔وہ بھی اس کی باتوں میں آگیا ہے۔۔خیر
طے یہی ہوا کہ وہ ایک نئی ٹکٹ اوپن کروائے گا تو نیا ٹیلیفون سیٹ ایشو ہو جائے گا۔۔
تو وہ پھر مجھے سے مخاطب ہوکر بولا۔
شکراً یا مہندس اجھزا۔۔
اب میں اپنے آپ کو بہت اہم سمجھنے لگا کہ یہ مجھے بہت بڑا انجینئر سمجھ رہا ہے اور وہ بھی جہاز کا۔۔
دل تو اب یہی چاہے کہ ابھی اس کا ٹیلیفون سیٹ تبدیل کر دوں کتنا سادہ لوح آدمی ہے۔۔خیر کچھ دن اسی نشے اور اہمیت میں گزارے کہ کوئی تو ہے جو جہاز کا انجینئر سمجھ رہا ہے۔۔
مگر ایک دوست سے جو عربی زبان پر دسترس رکھتا تھا اس کو پوری بات بتائی اور اپنی اہمیت کا بتایا تو وہ ہنسنے لگا اور تم کیا سمجھ رہے ہو وہ اپنی جگہ ٹھیک ہے جو تمہیں مہندس اجھزا بول دیا ہے اور مسئلہ تمہارا جو اپنے آپ کو جہاز کا انجینئر سمجھ بیٹھے ہو۔
بھائی کوئی بھی الیکٹرانک آلہ ہو اس کو اجھزا بول سمجھا جاتا ہے۔۔
ہیں ایسے بھی ہوتا ہے۔ یار مگر وہ مہندس جہاز جہاز بول رہا تھا۔
تو کیا ہوا کیونکہ پاکستان میں جہاز ہوائی طیارے کو سمجھا جاتا ہے مگر یہ لفظ اجھزا ہے جو سننے میں ہمیں جہاز لگتا ہے۔ باقی کچھ اور نہیں۔۔
تو ایسے ہمیں معنی معلوم ہوئے۔

اس کے ساتھ ایک لفظ جو ہمارے ہاں دعائیہ کلمات میں شامل ہے جب کسی کو دعا دینی ہو یا اس کے بڑوں کا اچھے سے یاد کرنا ہو تو استعمال میں لایا جاتا ہے وہ ایسے کہ آپ بہت ہی نیک سیرت آدمی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو نیک اور نیکیاں بنانے کی توفیق دے اور آپ کے بڑے بھی ایسے ہی نیک  کام کرتے تھے۔۔ ہمارے ہاں میں نیک ایک دعائیہ الفاظ میں شامل ہے۔مگر قصہ سن لیجیے۔
ایک پاکستانی نیا نیا کسی سعودی کے پاس گھر ڈرائیور کی نوکری پر آیا۔ اس کا کفیل   اور اُس کے بچے اچھی طبیعت کے تھے ۔
اپنے نئے ڈرائیور کا خاص خیال رکھتے۔
ڈرائیور بہت خوش کہ اچھے کفیل کے ساتھ کام کر رہا ہوں ایک دن کفیل کا بچہ اس کے کھانے کے لیے کچھ لایا۔تو ڈرائیور خوشی سے جتنی اس کو عربی آتی تھی اسے دعائیں دینے لگ گیا۔۔
انت نیک بچہ۔ بابا نیک۔ تو سعودی بچے کا رنگ بدلنے لگا اور چپ کر کے جا کر اپنے باپ کو بتایا وہ ہم سب کو نیک بول رہا ہے۔۔
پھر جو ہنگامہ برپا ہوا۔۔ پھر ایک ایسے آدمی کو لایا گیا جو پاکستانی ڈرائیور کا ترجمان بنا کہ اس نے نیک کیوں کر بولا۔۔
آدمی معاملہ فہم تھا۔وہ سمجھ گیا اس نے جذبات میں آ کر دعائیں دی  ہیں مگر وہ لفظ یہاں گالی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔۔
بس بھولپن میں ایسے بولا۔۔تومعاملہ حل ہوا۔

اب ایک مزاحیہ واقعہ بھی سُن لیجیے۔
بہت پہلے جب رابطے بس خطوط سے ہی ممکن تھے ایک بھائی سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں آ بسا۔ خوب محنت کی ،مہینے دو تین کے بعد خط و ڈرافٹ بھیجا اور ساتھ خط میں بھیجی گئی رقم کا اور اپنی  اپنی  خیریت سے آگاہ کیا۔لکھا تمام کمائی ہوئی رقم ارسال کر دی ہے باقی بچے  ہوئے پیسوں سے اپنے کھانے پینے اور ایک ثوب(عربی لوگوں کا پہناوا) خریدی ہے۔
گھر والوں نے خط و ڈرافٹ وصول کیا۔تو جواب میں لکھ بھیجا کہ،خیریت سے آگاہی ہو گئی ہے۔ڈرافٹ بینک میں جمع کروا دیا ہے باقی ایک بات ہے بیگانے ملک میں دشمنی اچھی بات نہیں آپ توپ واپس کر کے وہ پیسے بھی بھیج دو۔ امن و امان سے رہو۔
اب کچھ الفاظ ایسے ہیں جو ہمارے ہاں کسی اور پیرائے میں معنی سمجھے جاتے ہیں۔۔مگر یہاں سعودی عرب میں کسی اور پیرائے میں۔جو تقریباً ہم پلّہ یا آس پاس میں ایک جیسےالفاظ جو سننے میں ایک جیسے محسوس ہوں،ذیل میں  لکھ رہا ہوں۔۔۔
دم۔۔ کسی سے دم یا پھونک مروانا اور یہاں خون کا معنی لیا جاتا ہے۔
حمار۔عربی میں گدھے کو بولا جاتا ہے۔اس پر نقط آ جائے تو خمار یعنی نشے میں۔۔
سیانہ۔عربی میں دیکھ بھال ہمارے ہاں سیانا کسی سمجھ دار کے لیے۔۔
اجھزہ۔عربی میں کسی الیکٹرانک آلہ کو اور ہمارے ہاں جہاز سے مطابقت۔
نیک۔ یہاں ایک گالی کے مترادف اور ہمارے ہاں اچھائی رکھنے والا
لمباہ۔بلب کو بولا جاتا ہے اور ہمارے ہاں لمبا کسی بڑی چیز کو
عارف۔ کسی کام کا معلوم ہونا۔ ہمارے ہاں کسی آدمی کا نام
بندر۔یہاں بمعنی آدمی کا نام ہمارے ہاں بندر(جانور  کا نام)
میاہ۔ سو۔۔ ہمارے ہاں میاں ایک تعارف
لبن۔لسی کو بولا جاتا ہے اور ہمارے ہاں پنجابی میں کسی چیز کو ڈھونڈنا
نقل۔یہاں کسی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا۔ ہمارے ہاں دھوکہ دینا وغیرہ۔
معلش۔ معذرت۔ہمارے ہاں مالش سمجھ سکتے ہیں۔۔
ثوب۔ کپڑا۔۔ہمارے ہاں توپ کے معنی میں
جواز۔پاسپورٹ کے لیے مطلب لیا جاتا ہے ہمارے ہاں وجہ
دفتر۔ کاپی پر لکھنا۔ ہمارے ہاں آفس۔
حلاق۔ نائی۔ہمارے ہاں ہلاک(مرنے،مارنے کے معنی میں )
خصم۔ رعائتی قیمت۔ہمارے ہاں پنجابی میں شوہر کو بولا جاتا ہے
کھانے کے لیے اکل کا لفظ۔۔ ہمارے ہاں عقل ذہانت وغیرہ کے معنی میں

اگر آپ مزید ایسے الفاظ جانتے ہیں تو کمنٹ میں لکھ سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply