شکریہ جناح۔۔منور حیات سرگانہ

آج 25 دسمبر قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش کا مبارک دن ہے۔وہی قائداعظم جنہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والے مسلمان رہنماؤں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ،” آپ کی آنے والی ساری نسلوں کی زندگی ہندوستان سے وفاداری ثابت کرنے میں گزر جائے گی ,لیکن وہ پھر بھی ہمیشہ غدار گردانے جائیں گے”۔

گزشتہ جمعہ کے روز بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر مظفر نگر میں لکشمی چوک کے آس پاس کے علاقوں میں،جہاں کاروباری اور قدرے خوشحال مسلمان گھرانے آباد ہیں ،مقامی پولیس کے بیسیوں اہلکار،آر ایس ایس کے سینکڑوں غنڈوں کی ہمراہی میں مسلمان آبادی کے محلے کے اندر گھس گئے۔ایک ایک گھر کا دروازہ توڑا گیا۔پہلے ان گھروں میں کھڑی ہوئی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو  ڈنڈوں،ہتھوڑوں اور اینٹوں سے توڑ پھوڑ دیا گیا،اس کے بعد گھروں میں موجود مردوں کو کھینچ کر باہر نکالا گیا،اور ان پر ڈنڈے برسائے گئے۔اس کے بعد ان میں سے اکثر کو گھسیٹ  کر لاتیں اور مکے مارتے ہو ئےباہر سڑک پر لا کر پولیس کی گاڑیوں میں ٹھونس دیا گیا۔اس بہیمانہ تشدد میں بوڑھے اور جوان کی کوئی تخصیص نہیں  کی گئی،جو بھی نظر آیا،ان کو  بربریت کا نشانہ بنتا گیا۔
اس کے بعد ان کے گھروں میں موجود زیورات ،نقدی اور ہاتھ میں اٹھائے جانے کے قابل سامان کو لوٹ لیا گیا،اور باقی سب اشیا کو بری طرح سے توڑ دیا گیا۔پوری طرح سے تسلی کر لی گئی کہ کوئی چیز سلامت نہ رہے۔

 

اس دوران گھروں میں موجود خواتین دہائیاں دیتی رہ گئیں،لیکن ان کو سختی سے خاموش رہنے کے لئے کہا گیا،اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا،کہ یہ جگہ ہماری ہے،تمہیں اس جگہ کو چھوڑنا ہی پڑے گا۔یہ کارروائی رات گئے تک جاری رہی،اس کے بعد مسلمانوں کی دوکانوں کی باری آئی جن پر پہلے سے ہی نشان لگا دیے گئے تھے۔پہلے ان کے تالے توڑے گئے،اور سامان لوٹا گیا،اس کے بعد ان پر سرکاری تالے ڈال کر ان کو سیل کر دیا گیا۔

اوپر بیان کیے گئے  واقعہ کی  تفصیل بی بی سی ہندی پر بھی نشر کی جا چکی ہے۔جبکہ کچھ دیگر ویڈیوز میں بھی پولیس اور سی آر پی ایف کے جوانوں کو گلیوں سے گزرتے ہوئے گھروں کے اندر کھڑی گاڑیوں پر پتھر اور اینٹیں پھینکتے اور لاٹھیوں سے ان کے شیشے توڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ان مسلمانوں کا قصور یہ تھا کہ نماز جمعہ کے بعد ہندوستان کے دیگر شہروں کی طرح انہوں نے بھی دیگر سیکولر اور جمہوریت پسند لوگوں کے ساتھ مل کر شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون( CAA) کے خلاف پر امن مظاہرہ کیا تھا۔

دراصل آج سے چھ سال قبل جب سے گجرات کے قصاب نریندرا مودی کی قیادت میں بی جے پی کے چولے میں ملبوس درحقیقت ہندو انتہاپسند تنظیم آر ایس ایس کی سرکار آئی ہے۔تب سے ہندوستان کو حقیقت میں ‘ہندو استھان’ بنانے کا عمل زور و شور سے شروع ہوا۔مرکز میں قدم جمانے کے بعد ریاستوں پر قبضہ جمانے کا سلسلہ شروع ہوا۔اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ہندوستانی ریاست اتر پردیش پر ایک مذہبی جنونی یوگی آدتیا ناتھ کو وزیراعلیٰ کے طور پر مسلط کر دیا گیا۔اس کے بعد ہی درحقیقت مسلمانوں پر اتر پردیش میں عرصہ حیات تنگ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

آر ایس ایس کے غنڈوں کے مسلح جتھے بنائے گئے،جن کو پولیس کا باقاعدہ تعاون حاصل ہے،ان کو ‘گئو رکشک’ کا نام دیا گیا۔یہ پولیس کے ساتھ مل کر سڑکوں پر ناکے لگاتے ہیں۔اور اگر کوئی  مسلمان گائے لے جاتا ہوا پکڑا جائے،تو اس کے مال مویشی لوٹ کر اسے وہیں  پر پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔یا ادھ موا کر کے پولیس کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی جاتی ہے،اور ‘لوجہاد’ کے بہانے مسلمان نوجوانوں کو چن چن کر مارا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ زبردستی مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے،اور مسلمان بچیوں کی جبراً ہندوؤں سے شادیاں کروانے کے بھی کئی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔
اور سب سے افسوسناک بات یہ ہے،کہ چاہے کسی مسلمان بزرگ کی داڑھی کھینچ کر اس سے’جےشری رام’ کے نعرے لگوائے جائیں،چاہے کسی مسلمان نوجوان کو مجمعے کی طرف سے قتل کیا جائے،اور اس کی لاش کو جلا دیا جائے،اور چاہے کسی مسلمان کو زبردستی پیشاب پلایا جائے یا سور کا گوشت کھلایا جائے۔اس سب کی باقاعدہ ویڈیو بنائی جاتی ہے،اور بڑے فخر سے نعرے لگاتے ہوئے اسے انٹر نیٹ پر نشر اور شیئر کیا جاتا ہے،اور اس پر کسی طرح کے افسوس یا پچھتاوے کا اظہار نہیں کیا جاتا۔

اور دوسری افسوسناک بات یہ ہے،کہ یہ سب کچھ ریاست کی سرپرستی میں کیا جا رہا ہے۔جس کا ثبوت یہ ہے،کہ اوّل تو پولیس ایسے واقعات میں غنڈوں کے ساتھ براہ راست ایسی وحشیانہ کارروائیوں میں حصہ لیتی ہے،جیسا کہ مظفر نگر میں دیکھا گیا،دوسرا ان معاملات میں مسلمانوں کی کسی شکایت پر کبھی مجرموں کے خلاف کارروائی نہیں  کرتی،بلکہ کئی واقعات میں تو الٹا شکایت لے آنے والے مسلمانوں کو ہی حوالات میں بند کر دیا جاتا ہے،جس کی وجہ سے اب کسی مسلمان میں یہ جرات باقی نہیں رہی کہ وہ اس ظلم وستم کے خلاف کسی سے بات بھی کر سکے۔

شومئی قسمت   کوئی معاملہ بین الاقوامی میڈیا کی شہہ سرخیوں میں آ جائے اور پولیس کو کارروائی کرنا بھی پڑ جائے،تو کیس اتنا کمزور بنایا جاتا ہے،اور گواہوں کو اس قدر ہراساں کیا جاتا ہے،کہ عدالتیں مجرموں کو سزا دینے میں ناکام رہتی ہیں۔جیسا کہ راجھستان میں جنونی ہندو مجمعے کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے پہلو خان کے معاملے میں ہوا،جس کے سب ملزمان عدم ثبوت اور گواہوں کے منحرف ہونے کی وجہ سے سزا سے صاف بچ گئے۔

اور تیسری سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسے قاتل جیسے ہی عدالتوں سے رہا ہوتے ہیں،حکمران جماعت بی جے پی کے رہنما پھولوں کی مالائیں لے کر ان کے استقبال کو پہنچ جاتے ہیں۔گو پاکستان میں بھی اقلیتوں کے حالات اتنے مثالی نہیں،لیکن یہاں پر کم ازکم حکومت اور اکثریتی معاشرے کی طرف سے اقلیتوں پر تشدد کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔مسلمان اور اقلیتی برادری سے تعلق ہونا کس قدر جان لیوا اور باعث اذیت ہو سکتا ہے ،یہ کوئی ہندوستانی مسلمانوں سے جا کر پوچھ سکتا ہے۔اور اب تو ہندوستان اور پاکستان کے لبرل اور قیام پاکستان کے مخالف حلقے بھی قائداعظم کی دوراندیشی اور سچائی کے قائل ہو گئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح کے لئے ڈھیروں دعائیں،کہ جن کے طفیل ہم ایسی متعصب اکثریت کے جبر سے آزاد اور اپنی مرضی کے مالک و مختار ہیں۔
مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

منور حیات
ملتان میں رہائش ہے،مختلف سماجی اور دیگر موضوعات پر بلاگ لکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply