افغانستان بارے ممکنہ آپشنز۔۔عمار علوی

بین الاقوامی تعلقات کے مضمون میں ہنری کسنجر کا ایک کوٹ بہت مشہور ہے ، “امریکہ کا کوئی دوست یا دشمن مستقل نہیں ہے، سوائے اس کے مفادات کے ” ۔
ملکوں کے تعلقات مفادات سے جڑے ہوتے ہیں  اور ان ہی کا تحفظ مقدم ہونا چاہیے  ۔

افغانستان کے حالیہ تناظر میں پاکستانی قوم نے اپنے جذباتی پن کا خوب مظاہرہ کیا ،کہ اسٹوڈنٹس کی جیت ہماری ISI کا کمال ہے  وغیرہ،ایسے محب وطن ، پاکستان پر بین الاقوامی پابندیاں لگوا کر ہی خوش ہوں گے  ( جیسا کہ مغربی میڈیا پہلے ہی پاکستان پر ملبہ ڈال رہا ہے )۔

تو گزارش یہ ہے کہ فدوی کے مطابق پہلے نمبر پہ تو یہ محض اسٹوڈنٹس کا کام نہیں ہے ، نہ تو اسٹوڈنٹس کے پاس اسلحہ ختم ہوا، نہ ہی راشن ۔تو یہ کام دو سپر پاورز نے انجام تک پہنچوایا ہے ۔ روس نے سامنے نہ آتے  ہوئے اپنا پرانا حساب برابر کیا ہے ،اور چین نے پیش بندی کے طور پہ امریکہ  کو خوب پھنسا کے نچوڑا ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ امریکہ  کو بھی کوئی  فا ئدہ ہوا ؟
جی ! بالکل ہوا ۔ امریکی زیرو سم گیم نہیں کھیلتے ۔
اس خطے میں پہلے جن لوگوں سے بات کرنے کے لیے  اسے پاکستان کا سہارا لینا پڑتا تھا ، اب ڈ ائریکٹ ڈائلنگ پہ بات چیت ممکن ہے ۔
اور اسی حوالے سے ہمارے لوگوں میں ایک بے چینی اور پریشانی بھی پائی  جاتی ہے کہ امریکہ ، اسٹوڈنٹس کے کچھ دھڑے پاکستان ( بشمول ایران اور چین) کے خلاف استعمال کر سکتا ہے ۔بے شک امریکہ کو شکست ہوئی  ہے مگر بیس سال ایک علاقے میں رہ کے اسے اب بہت سے مقامی ایجنٹس دستیاب ہیں ۔
بطور پاکستانی ہمارا کیا موقف بہتر رہے گا ؟

ہمارے پاس تین آپشنز ہیں ۔
1- اسٹوڈنٹس کی کھلی مخالفت
2- اسٹوڈنٹس کی کھلی حمایت
3- وقت کا انتظار ۔ (تب تک اسٹوڈنٹس کی خاموش حمایت )

1- اگر ہم اسٹوڈنٹس کی کھلی مذمت کرتے ہیں تو یہ ہمارے  لیے  نقصان دہ ہے ۔ ہم نےتو افغانستان کے ہمسایہ کے طور پہ رہنا ہے ۔ امریکہ کی طرح سامان اٹھا کے بھاگ نہیں جانا ۔ہمیں جذباتی پن سے زیادہ تدبیر کی ضرورت ہے ۔پہلے ہی مشرقی سرحد پہ ایک دشمن بیٹھا ہے ۔ کس طرح ممکن ہے کہ ہم مغربی سرحد پر بھی ایک دشمن بنا کے سکون میں رہ لیں ۔
پھر مشرف کے دور میں بگٹی کے قتل کے بعد جو مسائل  بنے اور افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں سے پاکستان میں شورش کو ہوا دی  گئی ، کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔یوں ہمارے ملک کے ناراض لوگ بھی افغانستان سے آپریٹ کرتے رہے ہیں ۔اشرف غنی سیٹ اپ تھا تو لروبر کی ہوا پیدا کی  گئی  اور بارڈرز پر ہلکی پھلکی پھلجڑیاں چلتی رہتی تھیں ۔
اس حوالے سے اشرف غنی سیٹ اپ تو پاکستان کے  لیے فاٸدہ مند نہ تھاِ بلکہ نقصان دہ تھا ۔

2- اگر ہم اسٹوڈنٹس کی کھلی حمایت کرتے ہیں تو یہ بھی کوئی  معقول رویہ نہ ہوگا ۔ ماضی میں اسٹوڈنٹس نے جس طرح کی بربریت روا رکھی ۔ جبراً  پردے کے احکامات ، لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی اور جاہلانہ قسم کی سزاؤ ں کے اجراء  سے وہ ہر معتدل کو اپنا مخالف بنا چکے تھے ۔
اب یہ کہنا کہ اب کا حال مختلف ہوگا ، یا وہ پرانی غلطیاں نہیں دہرائیں  گے ، تو میرا خیال ہے کہ وہ کبھی بھی غلطیوں کے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ وجہ اس کی شدت پسندی اور بندوق کے  زور پہ بات منوانے کا چلن ہے ۔
جذباتی پن ہمارا قومی المیہ ہے ، کہ ہمارے معتدل دانشور بھی TTP اور افغان اسٹوڈنٹس کو ایک ہی صف میں گنتے ہیں ۔وہ افغان طالبان سے ستر ہزار پاکستانیوں کی شہادت کا سوال کرتے ہیں ۔ حالانکہ TTP کی ملک دشمن اور انسانیت دشمن کارروائیوں   کی ذمے داری افغان اسٹوڈنٹس نے کبھی قبول نہیں کی ۔
اس لیے  ہمیں ان میں امتیاز روا رکھنا چا ہیے  ۔ پھر یہ امتیاز اس  لیے  بھی روا رکھنا چاہیے  کہ TTP کی کارروا ئیاں تو اسی ملک کی عوام اور مقامی فوج کے خلاف تھیں ۔
جب کہ اسٹوڈنٹس کی کارروائیاں ایک جارح ملک اور بیرونی فورسز کے خلاف تھیں ۔

3- سب سے بہترین حل یہی ہے کہ ریاست پاکستان اور پاکستانی اسٹوڈنٹس کے قبضے کو افغانستان کا اندرونی معاملہ قرار دے ۔ وقت کا انتظار کرے اور کچھ شرائط پر اسٹوڈنٹس سے ریاستی تعلقات کو بہتر بنا ئے ۔۔کہ اگر
افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت ہرگز نہ دی جائے ِ خواہ وہ ناراض بلوچ ، پشتون ہوں یا TTP سے ۔

افغانستان میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا جائے ۔

امریکہ کا ساتھ پاکستان کو بہ امر مجبوری دینا پڑا ۔ مستقبل میں اس سے سوال نہ کیا جائے  ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور آخر میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر سپر پاور امریکہ بھی اپنی باحفاظت واپسی کے لیے  اپنے دشمنوں ، یعنی اسٹوڈنٹس سے معاہدے کر سکتا ہے تو ہمیں اپنے امن کی خاطر کیا عار ہے ۔ جب کہ ہم نے تو ان کی ہمسا ئیگی میں ہی رہنا ہے ۔
سو از راہ کرم ، Don’t be idealist , please be realist ۔

Facebook Comments

عمار علوی
عام سا آدمی, ایم اے انٹرنیشنل ریلیشنز(سلور میڈلسٹ).

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply