مذہب، روایت اور محبت—-عبدالرحمن قدیر

وہ مولوی کا بیٹا تھا جس کی نگاہ کسی نا محرم کے لیے آج تک اٹھی نہ تھی۔ اور وہ۔۔۔ وہ لڑکی تھی جس پر کبھی سورج کی نگاہ نہ پڑی۔ اور اگر وہ نکل پڑتی تو شاید سورج بھی ماند پڑ جاتا۔ مگر کرنی ایسی ہوئی کہ چڑی چھکا کھیلتے مولوی کے بیٹے کی چڑی ہمسایوں کے گھر گر گئی۔ وہ محلے کا سپائڈر مین بھی مشہور تھا لہٰذا دو پٹوسیاں مار کر ہی عین اس جگہ پہنچا جہاں اسکی چڑی گری تھی۔ چڑی اٹھانے کو نیچے جھکا تو بنیرے میں بنے آلے سے نکلتے نور سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں، کیا دیکھتا ہے کہ سورج کی روشنی چاند برابر معلوم ہوتی ہے اور سورج آنٹی چھمو کے برانڈے میں چمک رہا ہے۔ بس پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا، نگاہیں ملی محبت ہوئی عشق آٹھویں کلاس میں ہوا اور بس۔۔۔۔

وہ دونوں جانتے تھے کہ مل نہیں سکتے، معاشرہ اور خاندان دنوں ہی محبت کے دشمن تھے۔ وہ جانتا تھا کہ سب خاندان والے کہیں گے کہ “پہلا چن مولوی دے منڈے نے ای چاڑھیا اے۔” اور آنٹی چھمو کی جوتی بگ فٹ کو بھی بڑی آتی تھی۔ اس لیے دونوں کو ہی اپنا مستقبل اندھیرے میں نظر آرہا تھا۔ (مستقبل فاسفورس کا تھا اس لیے اندھیرے میں بھی نظر آرہا تھا)۔

پھر وہ دن بھی آ پہنچا کہ انہوں نے ارادہ کر لیا کہ زندگی میں نہیں تو موت میں ہی سہی، مگر اب مزید جدائی ناقابل برداشت ہے۔ دونوں دور دراز جنگلوں میں نکل گئے، رستے میں مائی ہیر کی روح بھی نظر آگئی۔ ہیر کی روح نے بڑا روکا کہ پتر چھڈ دیو اینا کماں وچ کج نئیں پیا، نرا کت خانہ اے۔ مگر محبت تو اندھی ہوتی ہے، اتنی کہ اکثر بندا کھمبے میں جا لگتا ہے۔ چلتے رہے، دونوں نے آلیور کوئین انداز میں تیر کمان نکال کر ایک دوسرے کے قلب میں ایک ایک تیر پیوست کیا اور گر گئے۔۔۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

Advertisements
julia rana solicitors

شام ہو رہی تھی، درندوں کی خوفناک آوازیں آ رہی تھیں جن میں سے غالباً کچھ ٹائلر لاک ووڈ اور جیکب بلیک کی بھی تھیں۔ تبھی دونوں کی آنکھ کھلی، نہ تیر تھا نہ سینے پر کوئی زخم۔ اٹھ کر حیران پریشان گھر چلے گئے۔ اگلے دن سینکھیا اور پھر مرنے کے نت نئے طریقے اپناتے رہے، حتی کہ جیمز بانڈ والی ایٹم بمب کی چوری بھی انہوں نے کی، خود کو جنگل میں جا کر اڑایا مگر شام کو پھر اٹھ کر نیپال نامی شخص کو کوستے ہوئے گھر چلے گئے۔
وہ دونوں محبت کی ماری ہستیاں آج بھی جنگل میں آ کر ہر روز نئے طریقے سے مرتی ہیں۔ شام کو دونوں ہی اٹھ کر گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو خود جا کر دیکھ لیں۔

Facebook Comments

عبدالرحمن قدیر
ایک خلائی لکھاری جس کی مصروفیات میں بلاوجہ سیارہ زمین کے چکر لگانا، بے معنی چیزیں اکٹھی کرنا، اور خاص طور پر وقت ضائع کرنا شامل ہے۔ اور کبھی فرصت کے لمحات میں لکھنا، پڑھنا اور تصویروگرافی بھی۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply