ایک مزاحمت کار کی زندگی/ڈاکٹر اخترعلی سیّد

یہ غالباً 2001 کی بات ہے پرویز مشرف کے اقتدار کے ابتدائی دن تھے الیکٹرانک میڈیا نسبتاً زیادہ آزادی کے ساتھ بہت سے ممنوعہ موضوعات پر کھل کر گفتگو کر رہا تھا۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلز نئے موضوعات پر ٹاک شوز ریکارڈ اور نشر کر رہے تھے۔ ہمارے دوست عبدالحمید صاحب حال مقیم کینیڈا نے کچھ اہم دانشوروں کے انٹرویو کا ایک منصوبہ بنایا۔ یہ انٹرویوز ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل سے نشر ہونے تھے۔ ہم نے پہلا انٹرویو آئی اے رحمان صاحب کے ساتھ ریکارڈ کیا۔ میں نے گفتگو شروع کرتے ہوئے رحمان صاحب سے پہلا سوال ان کے بچپن اور ابتدائی تعلیم کے بارے میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ  آپ نے تو پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں گفتگو کرنا تھی یہ میری زندگی درمیان میں کہاں سے  آگئی۔ بہرحال انہوں نے اس سوال کا اتنا مختصر اور حوصلہ شکن جواب دیا کہ دوبارہ اس موضوع پر ان سے سوال کرنے کی ہمت نہ ہوئی ۔ اس انٹرویو میں ان سے کچھ سخت سوالات بھی کیے گئے مگر کسی اور سوال کا اتنا مختصر اور حوصلہ شکن جواب نہ ملا۔ اس تجربے سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں تھا کہ رحمان صاحب اپنی ذاتی زندگی کے بجائے اپنے کام پر بات کرنے کو فوقیت دیتے ہیں۔ اسی لیے جب مجھے ان کی خود نوشت کی اشاعت کا پتہ چلا تو مجھے قدرے حیرانی ہوئی۔ اور جب اس کتاب کے نام (The lifetime of Dissent) کے بارے میں پڑھا تو اور زیادہ حیرانی ہوئی۔ جب کتاب مجھ تک پہنچی تو پتہ چلا کہ یہ کتاب اسی طرح مختصر ہے جتنا ان کا اپنی زندگی کے بارے میں سوال کا جواب مختصر تھا۔ اور کتاب کا نام بھی انہوں نے خود تجویز نہیں کیا تھا۔ کیونکہ رحمان صاحب اپنے کام کی تعریف کرنا تو درکنار اس پر بات کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ ہم شکر گزار ہیں ان تمام لوگوں کے جنہوں نے رحمان صاحب کو اپنی خود نوشت لکھنے پر قائل کیا ،اس لیے نہیں کہ اس کے ذریعے بہت سے واقعات کے بارے میں ہمیں علم ہو سکے بلکہ اس لیے کہ پاکستان میں ایک مزاحمت کار یہ سیکھ سکے کہ طاقت کے مراکز کے خلاف جدوجہد کے نسبتاً کامیاب طریقے کیا ہو سکتے ہیں۔

میرے والد سید شفاعت علی، رحمان صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی جناب اطہر رحمان کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ رحمان صاحب کے والد جناب عبدالرحمن نے میرے والد کی ایک قانون دان کے طور پر ابتدائی تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ والد کے انتقال پر جب رحمان صاحب تعزیت کے لیے پہنچے تو انہوں نے پہنچتے ہی کہا کہ لوگوں کی اتنی زندگی نہیں ہوتی جتنی طویل ہماری دوستی تھی۔ میرے والد ہمیشہ رحمان برادران کی وضعداری کے دل سے قائل رہے۔ پاک بھارت تعلقات اور ہماری سیاسی تاریخ کے بہت سے موضوعات پر میرے والد رحمان صاحب کے نظریات سے بالکل متفق نہیں تھے۔ لیکن اس اختلاف رائے نے کبھی ان کے درمیان کسی تلخی کو در آنے نہیں دیا۔

مجھے یہ بات معلوم ہے کہ رحمان صاحب کے بہت سے ذاتی دوست ایسے تھے جن سے ان کے نظریاتی اختلاف رہتے تھے۔ مگر انہوں نے کبھی اپنی نظریاتی وابستگی کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ ان کے اور ان کے دوستوں کے درمیان حائل ہو سکے۔ گو انہوں نے اپنی اس خصوصیت کا ذکر اپنی کتاب میں نہیں کیا لیکن پاکستان میں رہتے ہوئے ایک نظریاتی زندگی گزارنے کے لیے شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ نظریات باہمی تعلقات پر اثر انداز نہ ہونے پائیں۔ یہ ایک نظریاتی انسان کے لیے کوئی آسان کام نہیں ہے۔ نظریاتی وابستگی جتنی گہری ہوگی انسان کے باہمی تعلقات اسی شدت سے متاثر کرے گی لیکن رحمان نے نہ صرف یہ کرکے دکھایا بلکہ اس کار دشوار کو کامیابی سے انجام دینے کو اپنا کارنامہ سمجھ کر اپنی کتاب میں جتایا بھی نہیں۔

رحمان صاحب کی اس کتاب میں کئی ایسے واقعات بیان ہوئے ہیں جن کے اثرات کو بآسانی ان کی زندگی پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے دوست احباب جانتے ہیں کہ ان کی رہائش برسوں ٹیمپل روڈ کے ایک کرائے کے اپارٹمنٹ میں رہی۔ زندگی کے  آخری چند سال انہوں نے اس گھر میں گزارے جو ان کے صاحبزادے اشعر رحمان نے بنوایا تھا۔ اپنی کتاب کے  آخری باب میں انہوں نے اپنے چچاؤں کے درمیان ہونے والے ایک جائیداد کے ایک تنازع  کا ذکر کیا ہے۔ رحمان صاحب کی دادی کے انتقال کے بعد ان کے متقی اور پرہیزگار چچا جس طرح گھر کی تقسیم پر ایک دوسرے سے جھگڑے اس نے گیارہ بارہ سال کے رحمان صاحب کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑے۔ انتہائی مذہبی لوگوں کا متاع دنیا پر ہونے والا یہ جھگڑا رحمان صاحب کے ذہن میں یہ سوال چھوڑ گیا کہ کیا عقیدہ دنیاوی مال و متاع سے زیادہ اہم ہے۔ اور اس سے کہیں زیادہ گہرا اور دیر با اثر یہ تھا کہ کیا نظریات اور طرز عمل کے درمیان فاصلہ ممکن ہے۔ یا کسی ایک نظریاتی انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے کسی بھی طرز عمل سے اپنے انہی نظریات کی مخالفت کرتا دکھائی دے جن کی وہ نصیحت یا تبلیغ کرتا ہے؟

شاید یہی سبب رہا ہو کہ وہ ساری زندگی اپنے نظریات پر سختی سے کاربند رہے مگر یہ سختی صرف ان کے اپنے لیے تھی۔ انتہائی شائستگی اور وقار کے ساتھ انہوں نے اپنے نظریات اپنے پڑھنے والوں اور سننے والوں تک پہنچائے۔ اپنے نظریاتی مخالفین کے لیے نہ تو انہوں نے سخت الفاظ استعمال کیے اور نہ کسی سے قطع تعلق کیا۔ غالباً لاہور میں ان سے یہ میری  آخری ملاقات تھی، جب میں نے ان سے کہا کہ جرنیلوں کے ایک سوانح نگار صحافی نے دو مرتبہ نام لے کر ان کو ہندوستانی ایجنٹ قرار دیا ہے، آپ ان کے خلاف کچھ کرتے یا لکھتے کیوں نہیں۔ رحمان صاحب نے تو یہ بات ہنس کے ٹال دی مگر جب یہ بات میں نے اپنے ایک دیرینہ دوست کو بتائی تو وہ کہنے لگے کہ “انڈین ایجنٹ ٹیمپل روڈ پر کرائے کے گھر میں نہیں رہتے”۔ ساری زندگی جو کیا وہی کہا اور جو کہا  وہ کر کے دکھایا۔۔ مجھے نہیں معلوم وہ مارکسزم کے کس فرقے سے تعلق رکھتے تھے مگر وہ ذاتی ملکیت کے خلاف تھے، رہے، اور رہ کے دکھایا۔ ان کی یہ یادداشت پڑھیے، ذاتی ملکیت کے بارے میں ان کے نظریات  آپ کو صرف بین السطور میں نظر آئیں گے، مگر ان کی زندگی میں بہت صاف اور واضح۔ بین السطور میں صرف اس لیے کہ وہ نظریات کے پرچارک اور مبلغ نہیں تھے وہ ان نظریات کا عملی ہونا اپنے بھاشن سے نہیں عمل سے ثابت کر کے گئے ہیں۔

آپ نے سیاست دانوں جرنیلوں بیوروکریٹس اور رہنماؤں کی یادداشتیں پڑھی ہوں گی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ان کی بڑی اکثریت نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہماری سیاسی سماجی تاریخ کے کن اہم واقعات میں ان افراد کا کردار کتنا کلیدی تھا اور یہ کردار انہوں نے کس خوبی اور درویشی سے انجام دیا اور کس طرح انہوں نے اپنی ذاتی مفادات کو قومی اور سماجی مفادات پر قربان کر دیا۔ ایک بچہ بھی یہ دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے کہ طاقت کے ایوانوں میں رہنے اور پہنچنے کی خواہش رکھنے والے ان افراد نے اپنی کامیابیاں ان یاداشتوں میں کس طرح بڑھا چڑھا کے بیان کی ہیں۔ رحمان صاحب یہاں بھی آپ کو مختلف نظر آتے ہیں۔ اس پوری کتاب میں ایک مزاحمت کار کے طور پر انہوں نے جو سختیاں جھیلیں اور جو مصیبتیں برداشت کیں ان کا ایک سرسری سا تذکرہ بھی موجود نہیں ہے۔ ایوب خان کے دور حکومت پر اس کتاب میں دو ابواب شامل ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ طاقت کے جس عدم توازن کا  آج تک شکار ہے، ایوب خان بلا شبہ اس کو شروع کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ خبر، صحافت اور صحافی کو کنٹرول کرنے کا جو سلسلہ ایوب خان دور میں شروع ہوا تھا وہ اج تک مختلف طریقوں اور حیلوں سے جاری ہے لیکن صحافت کی آزادی کے لیے جس مزاحمت کا  آغاز رحمان صاحب اور ان کے دیگر رفقائے کار نے کیا تھا، وہ مزاحمت اب اپنی کمٹمنٹ اور دھج بتدریج کھوتی چلی جا رہی ہے۔ ایوب دور پر رحمان صاحب کے تحریر کردہ یہ دو ابواب پڑھیے انہوں نے کسی جگہ اپنے اس کردار کو نمایاں کر کے بیان نہیں کیا جو انہوں نے تاریخ کے اس دور میں ادا کیا تھا۔ ہم اس کو ان کی ٹریڈ مارک عاجزی اور انکساری پر محمول کر سکتے ہیں لیکن تاریخ کے طالب علموں پر وہ ایک احسان بھی کرسکتے تھے اگر اختصار اختیار نہ کرتے۔

ان کی یہ کتاب اور اس کے یہ دو ابواب اگر پوری وضاحت اور تفصیل کے ساتھ لکھے جاتے تو شاید انے والے وقتوں میں صحافت شعار کرنے والے بہت سے نوجوانوں کے لیے یہاں سے بہت سے رہنما اصول میسر آ سکتے تھے۔ اور وہ اس دور کی تاریخ بیان کرنے والے بہترین لوگوں میں سے ایک تھے یہاں تفصیل سے احتراز کر کے ہمیں اپنے بہت سے تجربات جاننے سے محروم کر دیا ہے۔
میری ذاتی رائے میں رحمان صاحب کی زندگی اور ان کے کام کو صحافت تک محدود کر دینا ان کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہوگی۔ جو کچھ وہ کر کے گئے ہیں وہ ایک صحافی کی حیثیت سے کہیں زیادہ بڑا کام تھا۔

ابھی حال ہی میں مجھے یہ موقع ملا کہ میں عوامی دانشور کی ذمہ داریوں پر مشہور فلسطینی دانشور اور مصنف ایڈورڈ سعید کے وسیع کام کو دیکھ سکوں۔ ایڈورڈ سعید کے نزدیک عوامی دانشور کا بنیادی کام کسی بھی معاشرے میں موجود طاقت کے مراکز کی کارگزاری پر نظر رکھنا ہوتا ہے۔ یہ کام کرتے ہوئے عوامی دانشور کی بنیادی کمٹمنٹ اس معاشرے میں موجود پسے ہوئے طبقات کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ کبھی حکومت اور کاروباری اداروں کا ایجنٹ نہیں بنتا تاہم وہ حکومتیں گرانے اور بنانے میں بھی شراکت دار نہیں ہوتا۔ اگر عوامی دانشور کی یہ بنیادی تعریف نظر میں رکھی جائے تو رحمان صاحب بلا شک و شبہ ایک عوامی دانشور تھے۔ وہ عام صحافی کے برعکس صرف واقعات ہی نہیں بلکہ واقعات کے تاریخی اور علمی پس منظر سے بھی واقف ہوتے تھے۔ اس وسیع علم کے ساتھ وہ ملک کے پاور سینٹر اور اس کے شراکت کاروں کی نشاندھی کے ساتھ ساتھ ان کی کارگزاری کو دیکھتے اور اس پر گرفت کرتے تھے۔ ایک عام آدمی خصوصاً پسے ہوئے طبقات کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ  آج تاریخ کا حصہ ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کی سالانہ رپورٹ جو وہ عزیز صدیقی صاحب کے ساتھ مل کر مرتب کرتے تھے ہمیشہ طاقتور گروہوں کے خلاف ایک چارج شیٹ سمجھی جاتی تھی۔یہ سالانہ رپورٹ حقائق کو کہانیوں اور نعرہ بازی سے الگ کر کے دکھاتی ہوئی ایک دستاویز ہوا کرتی تھی۔ اس دستاویز کا اسلوب اج ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے کس طرح زندہ رہ کر بولتے رہنے کو خاموشی میں مر جانے پر ترجیح دی۔

ایک مزاحمت کار مزاحمت کے طور طریقے اپنے مخصوص معاشرتی اور سیاسی حالات میں رہ کر ترتیب دیتا ہے۔ پاکستان میں طاقتور طبقات کی ہمیشہ کوشش یہ رہی ہے کہ وہ مزاحمت کاروں کو اکیلا کر کر کے بے بس اور خاموش کرادیں۔ رحمان صاحب اس طریقہ واردات سے واقف تھے۔ اسی لیے طاقت کے خلاف مسلسل اور مستقل اور بولتی ہوئی مزاحمت کرنے کے لیے ادارہ تشکیل دیا۔ پاکستان کا انسانی حقوق کمیشن  آج جس مقام پر کھڑا ہے اس کے پیچھے عاصمہ جہانگیر کی پرجوش وکالت اور  آئی اے رحمان، عزیز صدیقی، اور حسین نقی جیسے دانشوروں کی نظریاتی وابستگی اور ان تھک جدوجہد شامل ہے۔ آج کی دنیا میں استعمار اب جس طرح ناقابل شناخت ہوتا چلا جا رہا ہے ایسے میں انسانی حقوق کمیشن آج بھی لوگوں کی نظریاتی اور اخلاقی رہنمائی کرتا ہے اور طاقت چاہے جتنے دبیز اور حسین پردوں میں چھپ کر ہی کیوں نہ ائے اس کو بے نقاب کرنے کی سکت اور صلاحیت رکھتا ہے۔

ہمارے جیسے معاشروں میں طاقت کے خلاف مزاحمت کے لیے صرف غصہ کافی نہیں ہے بلکہ اب طاقت کے خلاف مزاحمت کرنا ایک آرٹ ہے۔ استبدادی قوتوں کو پہچاننا  آج اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے جتنا وہ دو دہائیوں قبل ہوا کرتا تھا۔ ایک عوامی دانشور کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ گالم گلوج کرے، چیختا چلاتا پھرے یا پھر بندوق لہراتا ہوا استبداد کی بیخ کنی کرنے کے لیے عوام کو اکسائے بلکہ اس کا کام اب یہ ہے کہ وہ عوام کے شعور پر اعتماد کرتے ہوئے حقائق کی بنیاد پر پاور سینٹر کی کارگزاری سے عوام کو  آگاہ کرتا چلا جائے۔ رحمان صاحب اس کام اور اس کام کے دوران میں پیش ا آنے والی مشکلات سے لگتا ہے پوری طرح واقف تھے۔ انہوں نے عوام کے سامنے صرف اور صرف حقائق رکھے جو کسی کہانی، نعرہ بازی، اور نظریاتی پیچ و خم میں لپٹے ہوئے نہیں تھے۔۔۔۔ صرف حقائق اور سادہ حقائق ۔۔۔۔ یہی طرز اسلوب ان کی یادداشتوں میں بھی موجود ہے۔ آج اگر وہ ہمارے درمیان ہوتے تو میں ادب کے ساتھ ان سے گزارش کرتا کہ وہ ان تاریخی واقعات کو مزید تفصیل سے بیان کریں جن کے وہ عینی شاہد تھے اور ان کے کرداروں کے بھی نام لکھیں جن کے کرداروں کے کردار اور عمل کو ہم آج بھگت رہے ہیں۔

رحمان صاحب کو جاننے والے جانتے ہیں کہ رحمان صاحب اپنی بات کو کم سے کم الفاظ میں کہنے کا ہنر اور عادت رکھتے تھے۔ بعض اوقات ان کا ایک جملہ بہت سوں کی بہت لمبی تقریروں پر بھاری ہوتا تھا۔ ایک نا مسعود چیف جسٹس نے جب اپنی عدالت میں رحمان صاحب سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی تواضع چائے سے نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اس وقت عدالت میں ہے تو رحمان صاحب نے برجستہ کہا کہ “چائے نہیں انصاف چاہیے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اخبارات میں چھپنے والے ان کے کالمز، انسانی حقوق کمیشن کی شائع ہونے والی سالانہ رپورٹس، اور دیگر پالیسیاں اور دستاویزات اپنی جگہ پر رحمان صاحب کے نمایاں ترین کارناموں میں سے ہیں لیکن میری نظر میں ان کا سب سے بڑا کام ہمیں ایک مزاحمت کار کی زندگی گزارنے کا ہنر سکھانا ہے۔

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply