ستر سال سے بارش ہورہی ہے

حادثات کی منتظر قوموں کے نمائندے بھی حادثات کی طرح ہوتے ہیں۔ اچانک نمودار ہوجاتے ہیں حادثات کی طرح مگر حادثات کے بعد۔۔۔۔ جب سے پاکستان بنا بلکہ جب سے دنیا بنی تب سے ہی بارشیں بھی ہورہی ہیں، سیلاب بھی آرہے ہیں اور دیگر قدرتی آفات کا بھی سامنا رہتا ہے۔ مگر ہر بارش کے بعد وہی صورتحال ہوتی ہے جو قیامِ پاکستان کے بعد ہونے والی پہلی بارش کے بعد درپیش تھی۔ بلکہ اس پہلی بارش کا آج کی بارش سے موازنہ کرنا یوں بہتر نہ ہوگا کہ اس دور کی سڑکیں اور نکاسی کا نظام جو انگریز سرکار نے بنایا تھا وہ قدرے بہتر تھا۔ خصوصاَ شہروں میں بارش کے بعد بہت زیادہ مسائل کا سامنا نہیں رہتا تھا۔ انگریز سرکار کے جانے کے بعد ہم ان کی طرح کا ایک بھاپ کا انجن بھی نہیں بناسکے۔ آج بھی گوروں کے بنائے ہوئے نظام پر پاکستان چل رہا ہے۔ ہمارے اجداد نے جب انگریز سے آزادی مانگی تھی تو یقیناَ انھوں نے کوئی خواب بھی دیکھے ہونگے کہ نئی مملکت کو کس طرح چلانا ہوگا۔ کس نظام کے تحت ملک کو لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔ مگر آزادی کے سات دہائیوں بعد بھی وہی نظام اپنی تمام تر خامیوں کے ساتھ موجود ہے جس کے خلاف ہمارے آباء نے جدوجہد کی تھی۔ محض آقا بدل چکے ہیں۔ بات بارشوں اور سیلابوں کی ہورہی تھی اور خیالات کے سیلاب کا بہاؤ کسی اور طرف جانکلا۔ نہ جانے کیا مجبوریاں ہیں کہ بارشوں اور سیلاب سے نمٹنے کی کوئی حکمتِ عملی تیار ہی نہیں کی جاتی۔
وسائل پر قبضے کی جنگ اشرافیہ کے مختلف گروپوں کے درمیان جاری رہتی ہے اور عوام اس جنگ میں بے موت ماری جاتی ہے۔ ریاست کی لاش سے اٹھنے والا تعفن ریاست کی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ اب تو کوئی ایدھی بھی نہیں کہ اس لاش کو غسل دے کر ہمیشہ کے لئے دفن کردے۔ کبھی جاگیردار اور سرمایہ دار اشرافیہ ملکی وسائل پر قبضہ کرکے بیٹھ جاتی ہے۔ کبھی فوجی اشرافیہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھولیتی ہے۔ لُٹیروں کی لڑائی میں ہمیشہ وہ لوگ مرتے ہیں جنھیں لُوٹا جا رہا ہوتا ہے۔ ستر سال سے بارش ہورہی ہے۔ مگر ہر بارش کے بعد میڈیا پر نظر آنے والی خبریں وہی ہوتی ہیں۔ مختلف مقامات پر پانی جمع ہوگیا۔
نشیبی علاقے زیرِ آب آگئے۔ کرنٹ لگنے سے بچہ جاں بحق۔ گھر کی چھت گرنے سے متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ گھروں میں پانی داخل ہوگیا۔ وزیرِ اعلی اور شہر کے مئیر کا مختلف علاقوں کا دورہ۔ نکاسئ آب کے کاموں میں سست روی دکھانے پر سخت برہمی کا اظہار وغیرہ وغیرہ۔ ہم لوگ بھی نِرے بُدھو کے بُدھو ہیں۔ ایسی خبروں پر ہائے ہائے کی صدائیں بھی بلند کرتے ہیں اور کبھی تالیاں بھی بجاتے ہیں۔ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ یہ مسائل تو ہر سال موسمِ سرما اور گرما کی بارشوں کے بعد پیدا ہوجاتے ہیں اور ہر بارش یا سیلاب کے بعد بیانات بھی ایک جیسے ہی آتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ ایک ادارہ ایسا ہے جو سیلاب ہو یا زلزلہ وہ جانیں بچاتا ہے۔ ہر گھڑی تیار کامران رہتا ہے مگر اس ادارے نے بھی اپنے ادوارِ حکومت میں یعنی مارشلاؤں کے دور میں کبھی ان مسائل کی طرف توجہ نہیں دی اور ان کا کوئی دیرپا حل نہیں نکالا۔ ہر سال ان مسائل کو بھگتنے کے باوجود ہم ووٹ انہی لوگوں کو دیتے ہیں جنھیں ہم ہمیشہ دیتے آرہے ہیں۔ اگر کراچی کی بات کی جائے تو کراچی کے منتخب بلدیاتی نمائندوں کا ہمیشہ یہ شکوہ رہا ہے کہ صوبائی حکومت انھیں نہ ہی اختیار دیتی ہے اور نہ ہی وسائل کی تقسیم منصفانہ ہے۔ کراچی کے بلدیاتی نمائندوں کو بیشتر مسائل کا سامنا ہے۔ ایک طرف ان کی پارٹی اندرونی انتشار کا شکار ہے جبکہ دوسری جانب انھیں گرفتاریوں کا بھی خوف رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے عدم تعاون کا بھی گلہ ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان بھر میں عوام کی بلدیاتی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے بھی مختلف محکموں میں کافی مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔
بارشوں کے ساتھ ساتھ اگر گذشتہ برسوں میں رونما ہونے والی سیلابی صورتحال کو بھی دیکھا جائے تو اس سے پورا ملک متاثر ہوتا رہا ہے۔ خصوصاَ دیہی علاقوں کی عوام اپنی زندگیوں، مال اور مویشیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ زمینیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ سیلاب کے بعد وہ وعدے کیے جاتے ہیں جو کبھی وفا نہیں ہوتے۔ بڑے زمیندار حکومت سے قرضے لے کر اپنے نقصانات کا ازالہ کرلیتے ہیں اور پھر بعد میں قرضے معاف کروالیتے ہیں۔ ستر سال سے ہونے والی بارش ہمیشہ تباہی اس لئے پھیلاتی ہے کہ آسمانی بارش کے ساتھ ساتھ اس ملک میں کچھ اور بارشیں بھی ہورہی ہیں۔ مدح سراؤں اور حاضر باش غرض مندوں کے ہجوم پر انعام و اکرام کی بارش۔
مخالفین پر الزامات کی بارش اور نہتی عوام پر تھپڑوں، لاتوں اور گھونسوں کی بارش۔ ہتھکڑی پہنے قیدیوں پر گولیوں کی بارش۔ جہاں ایسی بارشیں ہوتی ہیں وہاں بارانِ رحمت بھی زحمت بن جاتے ہیں۔ بڑی بڑی آفتوں اور بڑے زلزلوں کے بعد بھی ڈیزاسٹر منجمنٹ کا کوئی موثر نظام موجود نہیں۔ خدا نہ کرے اگر گنجان آباد بوسیدہ عمارتوں کے شہر کراچی میں زلزلے کا کوئی بڑا جھٹکا آگیا تو کیا ہوگا؟ ہمارے لئے اب یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں رہا کہ بارشوں اور سیلاب سے نمٹنے کی مستقل بنیادوں پر کوئی حکمت عملی اس لئے نہیں بنائی جاتی ہے کیونکہ موسلا دھار اور طوفانی بارشوں کے باوجود بھی رائے ونڈ محل، بلاول ہاؤس اور بنی گالہ کا ایک معمولی گلدان بھی نہیں ٹوٹتا ہے۔

Facebook Comments

افروز ہمایوں
الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ ایک کتاب (ملائیشیا کیسے آگے بڑھا) کے مصنف ہیں جبکہ دوسری کتاب زیرِ تصنیف ہے۔ مختلف یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply