آزادی اظہار حدود کا متقاضی

آج کل سوشل میڈیا پر کچھ بلاگرز کی گمشدگی کے حوالے سے بہت گرما گرمی چل رہی ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ بلاگرز آزادیِ اظہار کی آڑ میں نفرت انگیز اور اشتعال انگیز مواد پھیلانے کا کام سرانجام دے رہے تھے۔ میں نے چونکہ ان الزامات کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں جانتا اس لیے مجھے اس معاملے میں شک کا فائدہ دیا جائے۔
میری رائے بھی دوسرے تمام لوگوں کی طرح یہی ہے کہ یہ لوگ اگر واقعی ان واقعات میں ملوث ہیں تب بھی ان کو ماورائے آئین و قانون غائب کرنے کے بجائے ان کو گرفتار کیا جائے اور عدالت میں ان پر مقدمات چلائے جائیں جو کہ بحثیت شہری ان کا قانونی و اخلاقی حق ہے۔ جدید سماج میں خواہ وہ سیکولر لبرل ہو یا مذہبی، افراد کی اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنانے پر زور دیا جاتا ہے۔ بعض دانشور اظہارِ رائے کی آزادی کے لیے ناک کو حد مانتے ہیں اور بعض دانشور تو حد ہی کر دیتے ہیں۔ اس کے باوجود تمام مہذب معاشروں میں قوانین کے ذریعے کچھ پابندیاں لاگو کی جاتی ہیں تاکہ آزادیِ اظہار کی آڑ میں کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائی جائے۔ اس کی ایک مثال ہولوکاسٹ پہ بات کرنا یا اسے جھوٹ قرار دینا ہے۔ اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا کیونکہ انٹرنیٹ کے دور میں کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہا۔
تو بات ہو رہی تھی حدود و قیود کی، تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ایک پرامن معاشرہ تشکیل دیا جاسکے جس کے لیے پارلیمنٹ جیسے ادارے موجود ہیں۔ ہمارے دوسرے معاملات کی طرح آزادیِ اظہار بھی دوہرے معیار کا شکار ہے۔ جب بات ہو دوسروں کی پگڑی اچھالنے کی، عزت اتارنے کی، دوسروں کی تضحیک کرنے کی، تب تک تو سب ٹھیک سب جائز، مگر جب بات خود پہ آتی ہے تو ہمیں آزادی اظہار بھی زہر لگنے لگتی ہے۔ ایک لڑکا جب کسی کی بہن بیٹی پر پھبتیاں کستا ہے، اس کے بالوں گالوں آنکھوں پر ذومعنی جملے کہتا ہے تب تک وہ اپنی دانست میں اسے جائز اور اپنا حق سمجھتا ہے مگر جب اس کے سامنے اس کی بہن بیٹیوں کے حسن کی تعریف کی جاتی ہے تو اس کی غیرت جاگ جاتی ہے اور مرنے مارنے پہ تل جاتا ہے۔ اسی طرح لوگ اسی آزادی کی آڑ میں مذاہب کی اور مقدس ہستیوں کی توہین کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور جب ان خرافات کی وجہ سے کوئی دیوانہ کوئی عاشق کوئی جذباتی قدم اٹھا لیتا ہے تو اس پر آسمان سر پہ اٹھا لیا جاتا ہے۔ اور میرا جہاں تک خیال ہے، جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے، سماج میں عدم برداشت کا کلچر بھی تب ہی فروغ پاتا ہے جب جب ہم ایک دوسرے کو جگہ نہیں دیتے۔ ہمیں کسی بھی شخص غلط صحیح کے پیمانے پر پرکھنے کے بجائے جگہ دینی چاہیے۔ اپنے نظریات دوسروں پر تھوپنے کے بجائے دوسروں کے نظریات کو بھی سننا اور سمجھنا ہوگا۔
اختتامیہ کے طور پر کہوں گا کہ اظہار رائے کی آزادی معاشروں کی ترقی کے لیے ضروری ہے کیونکہ اسی سے مکالمہ کی فضا پیدا ہوتی ہے، سوال اٹھتے ہیں اور جواب ملتے ہیں۔ مگر اظہار رائے کی آزادی بھی حدود و قیود کی متقاضی ہے۔

Facebook Comments

محمد رامش جاوىد
پڑھنے لکھنے کا شغف رکھنے والا درویش منش

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply