• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہنگامہ آرائی کی سیاست میں کسی کا بھلا نہیں /پروفیسر رفعت مظہر

ہنگامہ آرائی کی سیاست میں کسی کا بھلا نہیں /پروفیسر رفعت مظہر

جمعرات 3 نومبر کی شام جب تحریکِ انصاف کا لانگ مارچ وزیرآباد کی طرف رواں دواں تھا تو عمران خاں کے کنٹینر پر فائرنگ کا افسوسناک واقعہ ہوا جس میں ایک شخص جاں بحق اور عمران خاں سمیت 13 افراد زخمی ہوئے۔

عمران خاں کی ٹانگ پر گولیوں کے زخم آئے۔ اُنہیں فوری طور پر شوکت خانم کینسر ہسپتال لاہورلایاگیا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اب وہ خیریت سے ہیں اور ڈاکٹرز نے اُنہیں چلنے پھرنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔ اختلافات اپنی جگہ لیکن انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں۔ اِسی لیے اتحادی جماعتوں کے تمام سربراہان نے نہ صرف اِس واقعے کی شدید مذمت کی بلکہ عمران خاں کی جلد صحت یابی کی دعا بھی کی۔

عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور ایک سے زیادہ تھے۔ جن میں سے ایک گرفتار ہوا۔ حملہ آور نے اِس حملے کی تمام تر ذمہ داری قبول کی۔ جب اُس سے حملے کی وجہ دریافت کی گئی تو اُس کا جواب تھا کہ وہ عمران خاں کو قتل کرنا چاہتا تھاکیونکہ وہ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ حملہ آور کے اِس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مذہبی انتہاپسندی ہے جس میں کسی کا بھلا نہیں ہوتا۔

عمران خاں پر قاتلانہ حملے سے جذبات میں اُبال آنا فطری لیکن یہ جذباتیت ملک وقوم کے لیے سمِ قاتل۔ ہمیں یاد ہے کہ جب محترمہ بینظیربھٹو کو راولپنڈی میں شہید کیا گیاتو جذبات کی رو میں بہہ کر پیپلزپارٹی کے جیالوں نے “پاکستان نہ کھپے” کا نعرہ بلند کیا جس پر آصف زرداری میدان میں آئے اور “پاکستان کھپے” کا نعرہ بلند کرتے ہوئے جیالوں کو صبر کی تلقین کی۔

میاں شریف خاندان پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، جلاوطنی کا دُکھ جھیلا اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ میاں نوازشریف کو ایک سازش کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا گیا۔ پھر بے جرم وخطا اُنہیں 11 سال اور بیٹی کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ وہ لندن میں اپنی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز کو بسترِ مرگ پر چھوڑ کر بیٹی کا ہاتھ پکڑ سزا بھگتنے کے لیے پاکستان آگئے۔ اِتنی ناانصافیوں کے باوجود اُنہوں نے کبھی پاکستان کی سلامتی کے خلاف ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کو تختیء دار پر لٹکا دیا گیا اور بعد میں اُن کی پھانسی کی سزا سنانے والے ججز میں سے ایک (نسیم حسن شاہ) نے اقرار بھی کیا کہ بھٹو کی پھانسی کی سزا دباؤ کا نتیجہ تھی۔ اِس کے باوجود اُس شہید کا بدلہ لینے کا کسی نے اعلان کیا نہ “پاکستان نہ کھپے” کا نعرہ بلند کیا۔ آج جب سابق وزیرِاعظم اِس قاتلانہ حملے سے بال بال بچ گئے ہیں تو اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بدلہ لینے کا اعلان کر رہے ہیں۔ خود عمران خاں کبھی پاکستان کے 3 ٹکڑے ہونے کی بات کرتے ہیں تو کبھی کہتے ہیں کہ اُنہیں شیخ مجیب الرحمٰن کی طرح دباؤ میں لایا جا رہا ہے۔

سانحہ مشرقی پاکستان کی ایک تاریخ ہے جس میں ایک کردار شیخ مجیب الرحمٰن ہے۔ اِن کرداروں پر بحث سے قطع نظر شیخ مجیب الرحمٰن مشرقی پاکستان کا مقبول ترین رَہنما تھا جس نے 1970ء کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان سے 162 سیٹوں میں سے 160 سیٹیں حاصل کیں جبکہ ذوالفقارعلی بھٹو کے حصے میں مغربی پاکستان سے 81 سیٹیں آئیں۔ اِس لحاظ سے آئین کی رو سے وزارتِ عظمیٰ شیخ مجیب الرحمٰن کا حق تھا جو اُسے نہیں دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا۔

دوسری طرف 2018ء کے عام انتخابات میں عمران خاں واضح تو کیا سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کر سکے۔ یہ ناقابلِ تردید حقیقت کہ اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے تحت چھوٹی سیاسی جماعتوں کو عمران خاں کا ساتھ دینے پر مجبور کیا گیا اور یوں اقتدار کا ہما عمران خاں کے سَر پر بیٹھا۔ جب اِسی اسٹیبلشمنٹ نے “نیوٹرل” ہونے میں ہی عافیت جانی تو چھوٹی سیاسی جماعتیں پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کی اتحادی بن گئیں اور یوں عمران خاں کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔ یہ تمام عمل آئین کے عین مطابق ہوا۔ اِس کے باوجود عمران خاں”سازشی بیانیہ” گھڑ کر سڑکوں پر نکل آئے اور یوں وزیرآباد کا واقعہ رونما ہوا۔

عمران خاں پرقاتلانہ حملے کے بعد اُس کے چاہنے والے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں جو اُن کاآئینی حق ہے لیکن بدلہ؟ مگر کس سے؟ جب حملہ آور اقرار کر چکا کہ اِس فعل کا وہ تنہا ذمہ دار ہے تو پھرکیا بدلہ اپنے ہی ہم وطنوں سے یا پھر دھرتی ماں سے؟ یہ امر بھی قابلِ غور کہ عمران خاں پر حملہ پنجاب کے شہر وزیرآباد میں ہواجہاں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے اور تمام انتظامی ادارے اُس کے ماتحت۔ لانگ مارچ میں سکیورٹی کے انتظامات کی ذمہ داری پنجاب حکومت پر تھی، مرکزی حکومت پر نہیں۔ اِس کے باوجود مرکزی حکومت کو موردِالزام ٹھہراتے ہوئے بدلہ لینے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔

فوادچودھری نے حملے کے فوراََ بعد اشتعال انگیز بیان دیا جس پر مشتعل ہجوم نے فیصل آباد میں رانا ثنا اللہ کے گھر سمیت کئی لیگی رَہنماؤں کے ڈیروں پر حملے کیے۔ خیبر پختونخوا کے وزیر انور زیب خاں نے کلاشنکوف لہراتے ہوئے رانا ثنا اللہ کو سرِعام دھمکیاں دیتے ہوئے کہا “رانا ثنا اللہ! سُن لو ہم اسلحے کے ساتھ اسلام آباد آرہے ہیں”۔ عثمان ڈار نے کہا “امپورٹڈ حکومت کی اِس گھٹیا اور نیچ حرکت کا جواب دینے آخری حد تک جائیں گے۔ خان ہماری ریڈلائن ہے”۔ اِسی قسم کے دھمکی آمیزبیانات تحریکِ انصاف کے دیگر رَہنما بھی دے رہے ہیں جن سے اشتعال کو مزید ہوا مِل رہی ہے جو ملک کے لیے بہتر ہے نہ قوم کے لیے۔

عمران خاں کو شوکت خانم ہسپتال میں داخل کرنے کے فوراََ بعد اسدعمرنے بیان دیا کہ اُسے عمران خاں کا پیغام ملا ہے کہ اِس واقعے کے ذمہ دار وزیرِاعظم میاں شہباز شریف، مرکزی وزیرِداخلہ رانا ثناء اللہ اور ایک حاضر سروس فوجی میجر جنرل کو ٹھہرا کر اُن کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی جائے اور اُن کے استعفوں کا مطالبہ کیا جائے۔ یہی بیان جمعہ 4 نومبر کو عمران خاں نے شوکت خانم ہسپتال میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ تحریکِ انصاف کے کارکُن تین استعفوں تک احتجاج جاری رکھیں۔

گویا اب تحریکِ انصاف کا نیا بیانیہ سامنے آئے گا۔ شنید ہے کہ ایف آئی آر کے معاملے پر وزیرِاعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی اور عمران خاں میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ عمران خاں بہرصورت اِن تینوں اصحاب کے خلاف ایف آئی آر کٹوانا چاہتے ہیں جبکہ چودھری پرویز الٰہی قانون کے مطابق چلنا چاہتے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی شاید میاں شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کے خلاف ایف آر آئی کٹوانے کا رِسک لے بھی لیتے لیکن میجر جنرل کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ تاحال اِن اصحاب کے خلاف ایف آئی آر نہیں کَٹ سکی۔

اُدھر حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے ایک بیان جاری ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خاں کے ادارے بالخصوص ایک اعلیٰ فوجی افسر کے خلاف بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ الزامات یکسر ناقابلِ قبول ہیں۔ آج ادارے پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات انتہائی افسوسناک ہیں۔ بیان کے مطابق “پاک فوج کو انتہائی پیشہ ورانہ ہونے پر فخر ہے۔

پاک فوج کا ایک مضبوط اور انتہائی مؤثر اندرونی احتسابی نظام ہے۔ کسی کو بھی ادارے یا اُس کے سپاہیوں کی بے عزتی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ حکومتِ پاکستان سے درخواست ہے کہ وہ اِس معاملے کی تحقیقات کرے اور بغیر کسی ثبوت ادارے کی ہتک کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔ یہ ادارہ افسروں اور سپاہیوں کی بھرپور حفاظت کرے گا۔ اگر مفاد پرستوں کے الزامات سے ادارے کی عزت کو داغدار کیا جائے گا تو ادارہ افسروں اور سپاہیوں کی حفاظت کرے گا”۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے خیال میں پاک فوج کی طرف سے اتنا سخت اور واضح بیان پہلے کبھی نہیں آیا۔ اِس کے باوجود بھی اگر “مفاد پرست” اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو اپنے بھیانک انجام کے لیے تیار رہیں۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply