وزیر عظم صاحب کا ارشاد تازہ ہے کہ وہ آلو پیاز کی قیمتیں ٹھیک کرنے سیاست میں نہیں آئے بلکہ وہ تو ہمیں ایک قوم بنانے آئے ہیں۔ گویا انہوں نے بالآخر اس بات کا اعلان کر دیا ہے کہ ان سے ان کی حکومت کی کارکردگی کی بابت کوئی سوال پوچھا جائے نہ کوئی امید رکھی جائے۔ وہ صرف اس بات پر قدرت رکھتے ہیں کہ مختلف نعروں اور اقوال زریں کے ذریعے آپ کا جذباتی استحصال کرتے رہیں۔
وہ جس جلیل القدر منصب پر براجمان ہیں آلو اور ٹماٹر جیسی چھوٹی چھوٹی اور مقامی قسم کی چیزوں سے بہت بلند ہے۔ چنانچہ وطن عزیز میں اب کسی کو کھانے کو کچھ ملے یا نہ ملے، اسے ان معمولی اور حقیر چیزوں پر شکوہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ وہ صر ف ہماری تقاریر، ہمارے خطابات اور ہمارے اقوال زریں سنے اور صدقے واری جائے کہ پہلی بار کوئی ایسا رجل رشید آیا ہے جو ہمیں ایک قوم بنانے نکلا ہے۔
مقامی لوگ تو نا شکرے ہیں، پیٹ کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور ہر وقت انہیں کھانے پینے کی پڑی ہوتی ہے۔ البتہ اوورسیز ونگ چاہے توجس طرح اس حکومت کی مبینہ فتوحات پر شکریے کے بینروں سے اسلام آباد بھر رکھا ہے وہیں دو چار بینر اور لگا دیے جائیں کہ اے مقامی لوگو، آلو اور ٹماٹروں کو چھوڑو اور آ کر دیکھو ہم کس طرح تم لوگوں کو ایک قوم بنانے نکلے ہیں۔
عمران خان، گمان یہ ہوتا ہے کہ، چند متفرق اقوال زریں کا مجموعہ ہیں۔ کبھی کٹوں، بکریوں، بھینسوں اور انڈوں کے ذریعے معیشت بہتر کرنے نکلتے ہیں تو کبھی زراعت سے وابستہ ہر چیز کا ذکرحقارت سے شروع کر دیتے ہیں۔ مستقل مزاجی اور ٹھہرائو کا فقدان ہے۔ چنانچہ یہ کبھی چین جیسا نظام لانا چاہتے ہیں، کبھی ایران جیسا، کبھی روس جیسا تو کبھی سعودیہ جیسا۔ آج ایک بات کی کل دوسری کر دی۔
دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ ملک کی تعمیر و ترقی ٹھہراو اور مستقل مزاجی کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کے پاس نہ ٹھہرائو ہے نہ مستقل مزاجی اور نہ ہی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی۔ تین سال سے زائد عرصہ اقتدارمیں گزار کر بھی ان کے پاس ہمیں سنانے کو ایک ہی کہانی ہے کہ ساری قوم اور سار ا ملک کرپٹ اور بے ایمان ہے سوائے ان کے جو تحریک انصاف میں شامل ہو گئے اور جب جب مرغا ککڑوں کوں کرتا ہے یہ عمران کے سہرے کہناشروع ہو جاتے ہیں۔
اقتدار کے پہلے ایک دوو سال تو اقوال زریں کی رنگینیوں میں بیت گئے۔ پھر لوگوں کی جان پر آن بنی تو سوالات اٹھنا شروع ہو گئے۔ سوالات اٹھے تو نئے اقوال زریں سامنے آگئے کہ یہ سال مشکل ہے اگلا سال ترقی کا ہو گا۔ یہ سال مہنگائی کا سال ہے اگلے سال قیمتیں کم ہو جائیں گی۔ یہ سال تو ہم نئے نئے تھے تجربہ بھی نہیں تھا لیکن اگلے سال سے اب ہم معاملات کو درست کر دیں گے۔ یہ سال تو ہمیں چیزیں سمجھنے میں لگ گیا بس اگلے سال ہم کمالات کر دیں گے۔ یہ سال تو ہمیں جاتی حکومت نے بریفنگ ہی نہیں دی تھی لیکن اہم معاملات کو سمجھ چکے ہیں بس اس سال اب ہمارا دست ہنر دیکھیے گا۔ بس آپ نے کپتان پر اعتماد رکھنا ہے اور سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں۔
جب وعدے اور لارے سن سن کے لوگ تھک گئے تو انہوں نے عرضی ڈالنا شروع کر دی کہ عالی جاہ اور کچھ کریں یا نہ کریں لیکن از رہ کرم ہمیں اب تھوڑا سا گھبرانے کی اجازت دے دیجیے، آپ کی عین نوازش ہو گی۔ چنانچہ اب عمران خان صاحب ایک نئے بیانیے کے ساتھ سامنے آئے ہیں کہ وہ آلو پیاز کی قیمتیں ٹھیک کرنے سیاست میں نہیں آئے بلکہ وہ تو ہمیں ایک قوم بنانے آئے ہیں۔ اب گویا انہوں نے قوم سے کہہ دیا ہے کہ مجھ سے اچھی حکومت کی کوئی توقع نہ رکھی جائے نہ ہی یہ میرا کام ہے۔ میں تو آپ کو ایک قوم بنانے آیا ہوں۔ بس آپ اب میرے اقوال زریں سنتے جائیے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ حکومت کا بنیادی وظیفہ ہی لوگوں کے مسائل حل کرنا ہے۔ اقوال زریں سنا سنا کر مارنا نہیں۔
آلو ٹماٹر کی قیمتوں کی بجائے قوم بنانے کا یہ عمل بھی غلطی ہائے مضامین کا مجموعہ ہے۔ جس میں کام اور کارکردگی کہیں نہیں ہے۔ چند بڑھکیں ہیں، کچھ جذباتی سے نعرے ہیں، کچھ اقوال زریں ہیں اور سیاسی حریفوں کے لیے لعن طعن ہے۔ یہ قوم بنائی جا رہی ہے۔ یعنی قوم اب اپنی معیشت سے یا اپنے لوگوں کو اشیائے ضرورت کی مناسب قیمت پر فراہمی سے نہیں بنتی۔ یہ سستے نعروں سے بنتی ہے۔
کبھی کہا حزب اختلاف چور ہے اور ہم تو اس چوری اور لوٹ مار کو روکنے آئے ہیں۔ چند ماہ اس نفرت آمیز پوسٹ ٹروتھ پر گزار لیے اور پھر مغرب اور یورپی یونین کو دو چار سنا دیں۔ اب امانت اور دیانت بھی مسلمہ ہو گئی ایک نیم خواندہ معاشرے میں جو سستے نعروں پر جذباتی ہو جاتا ہو کوئی پالیسی وضع کرنے اور پھر اس پرمسلسل محنت کر کے نتائج دینے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اس کے لیے تو ریاستی وسائل پر ایک جلسہ کر کے اتنا کہہ دیناہی کافی ہے کہ میں چیزیں سستی کرنے تھوڑی آیا ہوں، میں تو قوم بنانے آیا ہوں۔
انقلابی قوتیں ایسا ہی کرتی ہیں۔ یہ اپنے کارکنان کو ایک خاص قسم کی رومانوی گرفت میں رکھتی ہیں۔ دوسروں سے نفرت سکھاتی ہیں اور اس نفرت کو مسلسل فروغ دیتی ہی۔ یہ نفرت اور یہ رومان عقل و شعور کے متبادل کے طور متعارف کرائے جاتے ہیں۔ اس جذباتی ماحول میں پھر قیادت کو کارکردگی دکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ چند جذباتی نعروں سے اپنے کارکنان کو آسودہ رکھتا ہے۔ چنانچہ اب ملک میں احتساب اور قومی غیرت کے دو نعروں کے ہوتے ہوئے کارکردگی کی کیا ضرورت ہے۔ داخلی سطح پر یہی کافی ہے کہ اپوزیشن کرپٹ ہے اور ہم نے اسے نہیں چھوڑنا اور خارجی سطح پر مغرب کے خلاف دو چار نعرے اور پھر تالیاں ہی تالیاں۔
جذباتی استحصال کے لیے وطن عزیز کا ماحول کتنا سازگار ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ڈرون حملوں کو موضوع بنا کر عمران خان رجز پڑھ رہے ہیں۔ اور کارکن شاد کام ہے کہ دیکھا میرے کپتان کے دور میں کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا۔ رومانوی سراب کے ماحول میں یہ سوچنا بے کار ہے کہ ڈرون کا سلسلہ عمران حکومت سے پہلے کی بات ہے۔ عمران اقتدار میں آئے تو ڈرون حملے رک چکے تھے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نوعیت بدل چکی تھی۔
عمران کا چیلنج معاشی تھا۔ کس کو نہیں معلوم کہ آئی ایم ایف کے دبائو پر پارلیمان کے ضابطے اور روایات پامال کر کے قانون سازی کی گئی۔ سٹیٹ بنک کو خود مختار کیا گیا۔ سٹیٹ بنک کی سربراہی اسی آئی ایم ایف کے ایک ملازم کو دے دی گئی۔
بے نیازیاں دیکھیے کہ مغرب کے دبائو پر سب کچھ کر کے اب اسی مغرب کو ” تڑیاں ” لگائی جا رہی ہیں۔ مغرب بھی سوچتا ہوگا کہ میسور کا سلطان فتح علی خان ٹیپو تو ایسا ہی تھا، اصل مزاحمت تو اب ہو رہی ہے، سب کچھ مان کر بھی اگلا چیلنج دے رہا ہوتا ہے کہ ہم کیا تمہارے غلام ہیں؟ ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں