حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔۔۔۔ رعنا اختر

آپ کا نام حسین اور کنیت  ابو عبد اللہ تھی ۔ ان کے بارے میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم کا ارشاد ہے ۔ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اور جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے ،حسین میری نسلوں میں سے ایک نسل ہے ۔

آپ علیہ السلام کا خاندان شجرہ طیبہ کا سب سے واضح نمونہ ہے ۔ جانشین رسول علی بن ابی طالب علیہ السلام آپ کے والد اور حضرت فاطمتہ الزہرہ  آپ کی والدہ ماجدہ ہیں ۔ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم آپ کے نانا اور اور حضرت ابو طالب آپ کے دادا ہیں ۔ آپ علیہ السلام کی ولادت جمعرات تین شعبان سنہ چار ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی ۔ اور نبوت و امامت کی درسگاہ میں برسوں تک تعلیم و تربیت پا کر دس محرم سنہ اکسٹھ ہجری کو اپنے نانا کے دین کی حفاظت کرتے ہوئے کربلا میں بھوکے پیاسے شہید ہوئے ۔

روایت ہے آپ علیہ السلام کی ولادت کے بعد جبرائیل امین نازل ہوئے اور انہوں نے حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم سے مخاطب ہو کے عرض کی یا رسول اللّٰہ ، اللہ آپ پر درود وسلام بھیجتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ آپ سے علی علیہ السلام کی نسبت موسی سے ہارون کی نسبت جیسی ہے ۔ اور علی آپ کے لیے ویسے ہی ہیں  جیسے ہارون موسیٰ  کے لیے تھے ۔ اس لیے آپ اپنے اس بیٹے کا نام ہارون کے چھوٹے فرزند شبیر کے نام سے موسوم کیجیے ۔ جس کا عربی میں ترجمہ حسین ہو گا ۔

آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم ، جبرائیل کا یہ پیغام سنتے ہی حضرت فاطمتہ الزہرہ کے گھر تشریف لے گئے ۔ اور فرمایا کہ  اے علی و فاطمہ آپ دونوں نے اپنے نومولود کے لیے کوئی نام منتخب کیا ؟ اس پر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا اے اللہ کے رسول ہم اس امر میں آپ پر سبقت نہیں لیا کرتے ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا ،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، اس بچے کا نام حسین رکھیے ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم نے آپ کا نام حسین ابن علی رکھا اور آپ کے کان میں اذان و اقامت فرمائی اور آپ کی آمد کےساتویں دن دنبہ ذبح کیا اور آپ علیہ السلام کے موئے مبارک کے وزن کے برابر چاندی صدقہ فرمائی ۔ آپ علیہ السلام نے اپنی عمر کے چھے سال ، چھ مہینے اور چوبیس دن اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں گزارے ۔ اس دوران آپ علیہ السلام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کی خاص عنایت رہی ۔ آپ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ابتدائی علوم سیکھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم آپ سے بہت محبت کرتے تھے ۔

حضرت امام حسین علیہ السلام  جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ۔ بعض روایات میں سید الشہداء اور شہید بھی منقول ہیں ۔

آپ کی اولاد میں علی السجادؑ، علی اکبرؑ ، علی اصغر ؑ ،جعفر ؑ، فاطمہ ؑ اور سکینہ ؑ ہیں ۔

یزید ملعون نے اپنی خلافت کا راستہ ہموار کرنے کے لئے والئ مدینہ کو خط لکھا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام سے بیعت طلب کرے مگر آپ علیہ السلام نے اس کے ارادوں کو جانتے ہوئے مدینہ ترک کردیا اور مکہ کی طرف روانہ ہوئے ۔

امام حسین علیہ السلام کے انکار بیعت کی خبر تمام خلافت اسلامیہ میں پھیل گئی اور آپ نے مکہ سے کوفہ کا سفر کیا جوکہ اپنے وقت میں  فتنوں کا ایک گڑھ سمجھا جاتا تھا ،مگر کوفہ کے شرفاء نے مل بیٹھ کو فیصلہ کیا کہ اب وقت آگیا ہے ان فتنوں سے نجات حضرت امام حسین علیہ السلام کی سربراہی میں ممکن ہے اسی لئے حضرت امام حسین علیہ السلام کو خطوط لکھنے پر اتفاق ہوا، تاکہ آپ علیہ السلام کو کوفہ بلایا جائے اور آپ کے دست مبارک پر بیعت کی جائے، ایسے کئی خطوط جب آپ علیہ السلام تک پہنچے تو آپ نے اپنے چچا زاد حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کو بلایا اور اور وہاں کے لوگوں کا آنکھوں دیکھا حال جاننے کے لئے کوفہ روانہ کیا ۔

جب جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کوفہ پہنچے تو انہوں نے کوفہ شہر کو امام حسین علیہ السلام کی خلافت اور یزید لعین کے خلاف پایا اور ایک روایت میں ہے کہ 18 ہزار افراد نے جناب مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ مسلم بن عقیل نے آپ علیہ السلام کو کوفہ کے حالات سے آگاہی سے متعلق خط لکھا جس میں کوفہ کے حالات سے آگاہی کے ساتھ ساتھ ان کی محالفت بھی لکھی گئی تھی ۔ امام حسین علیہ السلام صحابہ سے کوفہ روانہ ہونے کے متعلق اصلاح و مشورہ طلب کیا جس میں  کئی اصحاب نے آپ کو کوفہ کی طرف سفر کرنے سے منع فرمایا ۔

جب اس بات کی خبر نئے اموی خلیفہ کو پہنچی تو سب سے پہلے اس نے والئ کوفہ نعمان بن بشیر کو برخاست کردیا اور اس کی جگہ عبید اللہ ابن زیاد کو والئ مقرر کیا جس نے سب سے پہلے قبائلی سرداروں کو دو اختیارات دئیے اول امام حسین علیہ السلام کا ساتھ چھوڑ دیں یا پھر شام سے آنے والے لشکر سے نبرد آزمائی کے لئے تیار ہوجائیں جو انہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا ،ان دھمکیوں نے اہل کوفہ پر اثر کیا اور لوگ آہستہ آہستہ مسلم بن عقیل کو چھوڑنے لگے یہاں تک کہ جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کو شہید کردیا گیا ۔

لیکن تب تک حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے اہل و عیال کے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ ہوچکے تھے ۔ کیونکہ امام علیہ السلام کو جناب مسلم علیہ السلام کے آخری خطوط کے بعد کوئی خط نہ پہنچا تھا کہ کوفہ کے حالات بدل چکے ہیں ۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کا قافلہ چلتا رہا یہاں تک کہ ارض “طف” آپہنچے ۔

اور روز عاشورا کربلاء مقدسہ کا وہ روز بھی آن پہنچا جب میدان کربلاء مقدسہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے علاوہ کوئی نہ تھا آپ علیہ السلام پر نیزوں تیروں تلواروں کے پہ در پہ وار کئے گئے اور روایت میں ہے کہ شمر بن ذی الجوشن ملعون نے حضرت امام حسین علیہ السلام کا سراقدس تن سے جدا کیا جب کہ آپ علیہ السلام حالت نماز میں تھے اور امام حسین علیہ السلام 56 سال چھ ماہ اور چھ دن کی عمر میں اس دنیا سے جام شہادت نوش کیا ۔ اور اسی مقام پہ دفن ہوئے ۔

چنانچہ اس چھوٹے سے لشکر نے کربلا چٹیل میدان کو اسلام کی بہار میں تبدیل کر دیا ۔ اپنے خون سے ایسا گلدستہ لگایا جو رہتی دنیا تک قائم رہے گا ۔ ان گلگوں قبا شہیدوں کے خون نے یزیدیت کو کربلا کے میدان میں دفن کر کے اسلام کو حیات جاودانی عطا کر دی ۔ امام حسین علیہ السلام اور ان کی ساتھیوں کی شہادت نے قیامت تک کے لیے اسلام کو ہر طرح کی سازش اور فتنوں سے محفوظ کر دیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ علیہ السلام کی شہادت نے تمام عالم میں بسنے والے مسلمانوں اور انسانیت پر انتہائی گہرا اثر چھوڑا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply