سوشل میڈیا کے خدا۔۔۔عارف خٹک

اگر آپ کی فین فالونگ پانچ ہزار سے تجاوز کر جائے،یا دس تک کا ہندسہ چُھو لے،تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا،کہ آپ اپنے ہم خیال دانش گردوں کا ایک جھمگٹا  بنائیں اور کسی بھی انسان کی عزت تار تار کردیں۔ پچھلے ایک دو سالوں سے سوشل میڈیا پر یہی کچھ ہورہا ہے۔ سیاسی نظریات، مذہبی نظریات اور ذاتی دوستیوں نے فیس بک کو ایک ایسا گندہ جوہڑ بنا کر رکھ دیا ہے۔ جہاں مخالف نظریات والے کا جینا حرام کردیا جاتا ہے۔

پچھلے دنوں ایک معروف مُحقق اور بلاگر ثناءاللہ احسن نے پچھتر سالہ فیس بکی فین سے شادی کی۔ یہ شادی مئی میں ہوئی۔ ثناءاللہ خان جو کراچی میں مقیم ہیں۔ ان کی دلہن امریکہ سے آئی، اور دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ اچھی بات ہے کہ ایک ستاون سالہ شخص نے باعزت طریقے سے شادی کی۔مگر ایسی بے جوڑ شادیاں کہاں چلتی ہیں۔سو یہ بھی نہ چل سکی۔بیڈ روم اور ڈرائنگ روم کی باتیں نکل کر فیس بُکی دانش گردوں تک پہنچ گئیں۔جنہوں نے ثناءاللہ احسن کی عزت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔۔کہ موصوف فراڈئیے ہیں،جنہوں نے پیسوں کےلئے پچھتر سالہ عورت سے شادی کی۔ مزید یہ کہ ثناءاللہ کی ڈگریاں جعلی ہیں وغیرہ وغیرہ۔کیچڑ اُچھالنے کی اس مُہم میں ہمارے کچھ ذاتی دوستوں نے بھی اپنے ہاتھ گندے کرنے شروع کردیئے۔

میں ثناءاللہ احسن کو دس سال سے جانتا ہوں۔ وہ سپائنل کی بیماری کا شکار ہیں۔لہٰذا دس سال تک گھر میں قید اس بندے نے اپنی ساری توجہ نباتاتی تحقیق اور دیسی کلچر پر مرکوز کر رکھی۔ اگر انھوں نے اپنی بیوی جو امریکہ میں مقیم ہے،سے کچھ نہیں چُھپایا۔اور سب کچھ جاننے کے باوجود وہ اس سے شادی پر تیار ہوئی،تو یہ کوئی جُرم نہیں تھا۔ اگر اس کی بیوی اپنے شوہر کےساتھ خوش نہیں تھی تو آرام سے طلاق لےکر واپس اپنی دُنیا میں لوٹ جاتی۔ مگر یہاں کراچی کو بھی شاید اُنہوں نے امریکہ سمجھ لیا۔ جہاں آپ بغیر نکاح کے اپنے بیٹے کے دوست کے ساتھ رہ سکتی ہیں۔ لہٰذا موصوفہ نے اپنی راز کی باتیں فیس بکی خواتین کے سامنے رکھ کر ایک معزز انسان کو خودکشی کرنے پر مجبور کردیا۔ یہ ثناءاللہ کا اپنا ذاتی فیصلہ تھا ،جس کا ذمہ دار وہ ہے یا پھر اس کی منکوحہ۔ مگر شرم ہمارے دانش گردوں کو آنی چاہیے۔جنہوں نے عورت کارڈ کا استعمال کرکے ایک انسان کی توہین کی۔ یہ جُرم ہے۔آپ کو لوگوں کی زندگیوں میں مداخلت کرنے کا ٹھیکہ کس نے دیا ہے؟

دوسروں کی طرف اُنگلیاں اُٹھانے سے پہلے ذرا اپنے بارے میں سوچیے،تو آپ کے ہزار چھید آپ کو خود سے نظریں ملانے کے قابل نہیں چھوڑیں گے۔اگر آپ کی فین فالونگ ہے جو آپ نے ہماری طرح کھوتی کہانیاں بناکر بنائی ہے۔تو آپ کی سپیشلیٹی یہی ہونی چاہیے۔ آپ کو اپنے اردگرد کے مسائل پر لکھنا چاہیے۔نا کہ کسی کی خانگی زندگی کو موضوعِ بحث بنائیں۔
جو ریت آج کل فیس بک پر چل رہی ہے۔ اس کو ہم سب  کو  مل کر روکنا ہوگا، ہمیں ڈگریوں کےساتھ تھوڑا سا اس بات کا ادراک بھی کرنا ہوگا،کہ ہمارے ہلکے پُھلکے چسکے مسکے کسی کی زندگی کو کس بُری طرح سے تباہ کرکے رکھ سکتے ہیں۔

اب ہر کوئی عارف خٹک تھوڑی ہوتا ہے؟جس پر آپ زنانہ آئی ڈی کا الزام لگا کر اپنی واہ واہ کرائیں گے۔کوئی آپ جیسا عزت دار بھی ہوتا ہے۔۔ جس کی عزت پر ہلکی سی آنچ اُسے موت سے ہمکنار کرا سکتی ہے۔ اور ایسے قتل کے بلواسطہ ذمہ دار آپ ہی ہیں۔

اگر آپ مذہب کا چولا پہن کر گروپ بندیاں کرسکتے ہیں۔اگر لبرل ازم کا نعرہ لگا کر مجمع اکھٹا کرسکتے ہیں یا پھر سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ بن کر دوسروں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔تو اندازہ لگائیں کہ ایک ذات جس نے آپ کو پیدا کیا ہے۔وہ آپ سے کیسے بے خبر ہوسکتی ہے۔ ڈریےاس وقت سے جب ہمارے گناہوں کا بدلہ ہماری اولاد یا پھر کسی اور صورت میں ہم سے لیا جائےگا۔

لہٰذا آج آپ کسی کی شلوار کھینچتے ہوئے یہ ضرور سوچیے گا،کہ کل کو آپ کے ناڑے تک بھی کسی کا ہاتھ پہنچ سکتا ہے۔ ورنہ مُسکان خٹک جیسے کردار تو کل پرسوں کی بات ہے۔ بیویاں آپ سے بھی کل طلاق لے سکتی ہیں یا رشتوں کی عمر آپ کی بھی نکل سکتی ہے۔ ایک بار ہمارے گاؤں کے ان پڑھ امام نے کہا تھا کہ” برائی گُھوم پھر کر واپس آپ ہی کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors

پس ذرا نہیں بہت سارا سوچیے!

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply