کوئٹہ کے طلبہ مارچ میں کیا ہوا؟۔۔۔عابد میر

پاکستان بھر کی طرح کوئٹہ میں بھی 29 نومبر کو طلبہ کا یکجہتی مارچ ہوا۔ یوں تو پاکستان بھر میں اس مارچ کی ایک تاریخی حیثیت تھی لیکن بلوچستان کے حوالے سے یہ کچھ منفرد و ممتاز سرگرمی تھی۔ یہاں عرصے بعد طلبہ کی ایسی سرگرمی ہونے جا رہی تھی جس میں تمام طلبہ تنظیمیں یکجا تھیں۔ اور ایک ایسی سرگرمی میں شامل تھیں جس کی نوعیت سیاسی تھی۔ اس لیے یہاں اسے ایک خاص تناظر میں دیکھا جا رہا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے اس موقع پر جو واقعہ پیش آیا، اس نے بلوچستان میں بالخصوص بلوچ طلبہ کی باہمی چپقلشوں اور اندرونی سطح کا پول کھول کر رکھ دیا۔ میں اس مارچ میں شامل تھا، مذکورہ واقعہ گو کہ ہمارے پیٹھ پیچھے پیش آیا لیکن اس کا حال وہیں ہمیں مارچ میں بھی مل چکا تھا، بعدازاں کوئی درجن بھر لوگوں سے میں نے اس کی تفصیلات لی ہیں، جو عین موقع پر موجود تھے، ان میں سے بعض صلح کی کوشش کرانے والے غیربلوچ احباب بھی تھے۔ اس لیے اس میں‌ جانب داری کا عنصر نہیں دیکھا جا سکتا۔

واقعہ کا پس منظر
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس مارچ کی کال لاہور کی ایک ملک گیر طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے دی گئی تھی۔ یہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں‌ کا اتحاد ہے۔ بلوچستان میں ظہیر احمد بلوچ اس کے فوکل پرسن ہیں، اور یہ بی ایس او کے ایک دھڑے سے بھی وابستہ ہیں‌ جو ظریف بلوچ کی زیرقیادت سرگرم ہے۔ اور یہی معاملے کی گڑبڑ کی ایک وجہ ہے۔ ظریف بلوچ کا دھڑا چوں کہ خود کو ترقی پسند مانتا ہے اور کسی سیاسی تنظیمی سے قربت نہیں رکھتا اس لیے بلوچستان کی سیاسی تنظیموں اور ان کی طلبہ ونگز میں ان کے لیے ناپسندیدگی فطری بات ہے۔

بلوچستان میں ترقی پسند طلبہ کا بھی ایک اتحاد موجود ہے۔ بی ایس او کے اکثر دھڑے اس کا حصہ ہیں۔ شنید میں یہ ہے کہ ان میں سے دو دھڑوں نے ایک روز قبل پریس کانفرنس کر کے ظریف رند گروپ کی جانب سے بی ایس او کا نام استعمال کرنے کو غیراخلاقی قرار دیتے ہوئے اس مارچ سے علیحدگی کا بھی اعلان کیا۔ خصوصآ بی ایس او مینگل جو خود کو صرف بی ایس او لکھتے ہیں، انھیں یہ اعتراض ہے کہ ان کی تنظیم بی ایس او کے نام سے پہلے سے موجود ہے، اس لیے اس نام کو استعمال کرنا غیراخلاقی اور غیرقانونی ہے۔

اس سب کے باوجود اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے فوکل پرسن کی حیثیت سے ظہیر بلوچ تمام طلبہ تنظیموں سے رابطے میں رہے اور انھیں اس مارچ میں شمولیت کی درخواست کرتے رہے۔

ہوا کیا؟
عینی شاہدین کے مطابق بی ایس او پجار اور بی ایس او مینگل کے طلبہ جب میٹرو پولیٹن کے سبزہ زار میں داخل ہوئے تو باقی مجمعے سے الگ تھلگ رہے۔ پتہ چلا کہ وہ مارچ کو سپوتاژ کرنے کے خواہاں تھے۔ ان کے بعض لڑکوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ ظریف گروپ کے ممبرز کو یہاں سے نکلنے ہی نہیں دیں‌ گے۔ اس دوران مارچ نے روانگی کی تیاری شروع کی۔ ہم آگے کی صفوں میں ہونے کی وجہ سے مرکزی لان سے نکل آئے۔ وہاں موجود دوستوں کے مطابق ظہیر احمد اور ان کے ساتھیوں نے مینگل اور پجار کے دوستوں کو ہر ممکن آفر کی مگر وہ ہر صورت جھگڑے پہ مائل تھے۔

بیچ بچاؤ کرانے والے دوستوں نے بھی انھیں آفر کی کہ وہ چاہیں تو صدارت کریں، تقریریں کریں، ظریف گروپ کے خلاف بولیں مگر مارچ کو سپوتاژ نہ کریں۔ لیکن ان دونوں دھڑوں کے اراکین بضد تھے کہ وہ بی ایس او کا نام استعمال کرنے پر اس “جعلی بی ایس او” کی نمائندگی تسلیم نہیں کرتے اور انھیں کسی صورت یہاں سے جانے نہیں دیں گے۔ حتیٰ کہ وہاں‌ موجود سینئر سیاست دان ڈاکٹر حئی بلوچ نے بھی انھیں صلح کی تلقین کی مگر وہ نہ مانے۔

البتہ اس دوران مارچ روانہ ہو چکا تھا۔ جس پر پجار اور مینگل کے نوجوان غصہ ہوئے کہ انھیں باتوں میں لگا کر مارچ کو یہاں سے نکلنے دیا گیا لیکن وہ پریس کلب کے سامنے اس کا گھیراؤ کریں گے۔ اس نیت سے یہ مارچ میں شامل ہونے کی بجائے پیچھے کے راستے سے پریس کلب چلے گئے۔ جب کہ مارچ اپنے راستے پر رواں دواں رہا۔ البتہ وہاں موجود مخالف گروپ کے نوجوانوں کا سخت جملوں کا تبادلہ ہوا جس کےنتیجے میں ہاتھا پائی ہوئی، اس میں دو طلبہ زخمی بھی ہوئے۔

واقعہ کے بعد کا منظر نامہ
اس دوران ہمیں اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو ہم نے دوستوں کو تصادم سے منع کیا کہ مارچ ہونے دیں اس کے بعد اِس پہ بات ہو گی۔ کچھ سینئرز صلح کاروں نے یہ اچھا مشورہ بھی دیا کہ مارچ کو پریس کلب کی بجائے واپس میٹرو پولیٹین کے سبزہ زار پہ لایا جائے تاکہ تصادم سے بچا جا سکے۔ انتظامی کمیٹی کے نوجوانوں نے اس پہ بروقت عمل کیا اور یوں پریس کلب کے سامنے تصادم کے خواہاں اور تیاری کے ساتھ موجود گروہ کو سخت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

مارچ واپس وہیں آ کر اختتام پذیر ہوا جہاں سے شروع ہوا تھا۔ یہیں‌ تقریریں ہوئیں، نعرہ بازی ہوئی اور طلبہ پرامن طور پر منتشر ہو گئے۔

اب کیا ہو؟
ظاہر ہے اب ان میں سے ہر فریق خود کو درست سمجھتا ہے اور اپنے حق میں دلائل بھی رکھتا ہے۔ واقعہ بہرحال اسی طرح پیش آیا، جیسا بیان ہوا ہے۔ اگر کسی کو اس پس منظر پہ اعتراض ہے تو اس کے درجن بھر گواہ موجود ہیں۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ تینوں دھڑوں کی لیڈرشپ نے واقعہ کی مذمت کی ہے اور اسے شرم ناک قرار دیا ہے۔ امید ہے کہ جلد یہ قیادت آپس میں مل جل کر بیٹھے گی اور کوئی ایسا حل ڈھونڈ نکالے گی جو نہ صرف مستقبل میں ایسے کسی تصادم سے روکے بلکہ طلبہ کے وسیع تر اتحاد کی طرف کسی پیش قدمی کا خیمہ ثابت ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

البتہ میری ذاتی رائے میں‌ مجموعی طور پر یہ مارچ ناکام رہا۔ ایسا کیوں؟ اس پہ آئندہ نشست میں تفصیلی بات ہو گی۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply