نعرے حسین ع کے اور بیعت یزید کی۔۔حسان عالمگیر عباسی

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کون سا اسلام ہوگا بلکہ :

مسئلہ یہ ہے کہ سودخوری کے مقابل ‘فاذنو بحرب من اللہ و رسوله’ پہ سبھی مسالک کا اتفاق ہے۔ تو خدا سے جنگ کرنے والے مسلمانوں کا کیا بنے گا؟م

مسئلہ یہ ہے کہ رشوت خوری کے مقابل ‘الراشی و المرتشی کلھما فی النار’ سب کو ایک لڑی میں پرو دینے کے لیے کافی ہے۔ تو رشوت دے کے نوکر لگنے اور سفارشیوں کا کیا بنے گا؟

مسئلہ یہ ہے کہ فرقہ واریت کے مقابل ‘تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم’ کے کلمات زیادہ موزوں ہیں۔ تو 72 فرقوں میں ایک فرقہ جنتی ہے جیسی سوچ رکھنے والے افراد کی دکان کیسے چلنی ہے؟

مسئلہ یہ ہے کہ تعصب کے مقابل ‘واعتصموا بحبل اللہ جمیعا’ کو تمام بڑے دماغ مانتے اور اس  کے ساتھ مذہبی دل دھڑکتے ہیں تو مذہب بیزار طبقہ ،جن کی دکان کی افزائش ہی فرقہ واریت سے جڑی ہے ،معاشرتی مضبوطی کو کیسے ضبط کریں گے؟

مسئلہ یہ ہے کہ فساد کے مقابل ‘ظھر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدالناس’ میں موجود مسائل کا حل تلاش کرنا مشکل لگتا ہے کیونکہ اپنے منکرات اور برے اعمال کو کوسنے کی بجائے مولویوں کو ہی فسادی بنا کر پیش کرنا ہے۔ تو بھئی ‘واذا قیل لکم لا تفسدو فی الارض’ کے جواب میں فسادیوں کی یہ عجیب گوئی ‘انما نحن مصلحون’ کس کام کی؟

مسئلہ یہ ہے کہ ظلم اور قتل کے مقابل ‘من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا’ میں غارتگری کی نفی ٹارگٹ کلرز ،مافیاز ،یزیدیوں اور ظالموں کو کہاں قبول؟

مسئلہ یہ ہے چوری اور ڈکیت کے مقابل ‘السارق والسارقة فاقطعوا ایدیھما’ کی رو سے چوری کی سزا پہ ہاتھ کون کٹواتا پھرے؟

مسئلہ یہ ہے کہ بدکاری کے مقابل ‘الزانیة والزانی فاجلدوا کل واحد منھما مئة جلدة’ پہ کون ایمان لائے؟

مسئلہ یہ ہے کہ کھوٹے کو ‘قولوا قولا سدیدا’ جیسے کھری باتیں کہاں اچھی لگتی ہیں؟

مسئلہ یہ ہے کہ جنت و دوزخ بانٹنے والے ‘لست علیھم بمصیطر’ کے مطابق اپنے ٹھیکے واپس دینے کو کیوں راضی ہوں؟

مسئلہ یہ ہے کہ فاسقین ‘ومن لم یحکم بما انزل الله فا اولئک ھم الفاسقون’ پہ ہی معترض ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ یزیدی طاقتیں کبھی بھی حسینیوں کے ہاتھ پہ بیعت نہیں کرنے والے کیونکہ یہ فیصلہ ہی خدا کا ہے کہ ‘لا تتخذوا الیھود النصاری اولیاء۔’ گو یہ سنت حسین علیہ السلام کی تھی کہ اسلام کی  خاطر کٹ مرو لیکن بیعت نہ کرو، لیکن مقام افسوس ہے کہ اس سنت کے امین جب حسین ابن علی علیہ السلام کے نعرے لگاتے ہوئے یزیدیوں کے ہاتھ پہ بیعت کرنے لگے تو خدا کا فیصلہ بھی اٹل رہا
‘ولا تکونوا کالذین نسوا اللہ فانساھم انفسھم اولئک ھم الفاسقون’ یعنی ان لوگوں جیسا نہ ہوجانا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا پس خدا نے انھیں ایسا کر دیا کہ وہ اپنا آپ ( اپنا مقصد زندگی) بھول گئے (اور) یہی فاسق لوگ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

دراصل یہ مسئلہ ہی نہیں ہے کہ کونسا اسلام ہو گا کیونکہ اختلافات کی بنیاد پہ ہی اسلام جیسے متنوع دین کا قیام ہے۔ رفع الیدین کرنا ہے یا نہیں کرنا جیسے فروعی اختلافات کو بنیاد بنا کر یہ کہنا کہ اسلام کے نام لینے والے ہی متفق نظر نہیں آرہے ،انتہائی پرلے درجے کی منافقت ہے۔ آپ اسلام کی عملداری نہیں چاہتے تو ڈٹ کے انکار کریں بجائے یہ کہ سارا ملبہ مولویان پہ ڈال دیں۔ آپ اگر اسلام کو قبول نہیں کر رہے تو خدا کی طرف سے ہدایت کے منتظر رہیں لیکن یہ کہنا انتہائی پرلے درجے کی دقیانوسیت ہے کہ ‘مولوی’ اسلام پہ بدنما داغ ہے۔ مولوی اس منافقانہ سمندر کا ایک قطرہ ہے اور قطرے کو سمندر کہنا بھی منافقت ہی ہے۔ آپ اپنے مطابق اسلام کو چلانا چاہتے ہیں اور اسلام پہ چلنا ہی نہیں چاہتے تو اسے بغاوت کہنا چاہیے۔ یہ قرآن بھی کہتا ہے کہ بعض آیات پہ ایمان لاتے ہیں جبکہ بعض کا کفر کرتے ہیں۔ ‘خود بدلتے نہیں ،قرآن کو بدل دیتے ہیں’ دراصل مسئلوں کی جڑ ہے۔ حسین ابن علی علیہ السلام کے نعرے ضرور لگائیں لیکن یزید کے ہاتھ پر بیعت نہ کریں۔ یزید صرف ظالم ہی نہیں ہے بلکہ آپ کا اور میرا نفس بھی ہو سکتا ہے۔ نفس اور خواہشات اگر زیادتی پہ ہوں تو بغاوت کریں اور اگر جائز ہوں تو بیعت کر لیں۔ ایسا ہوگا تو کوئی یزید جنم ہی نہیں لے گا اور اگر لے گا تو امیون سسٹم یا قوت مدافعت (ایمان) کے ہوتے ہوئے بیعت کرنے پہ کبھی نہ اکسا پائے گا۔

Facebook Comments