زینب الرٹ ۔۔سالار سلیمان

قصور کی زینب کی موت کے بعد ہمیں امید یہی تھی کہ شاید ایسے واقعات اب نہ ہو ں ، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ پاکستان میں آج بھی بچوں کو اغواء کیا جاتا ہے، ان سے زیادتی بھی کی جاتی ہے اور بعد ازاں قتل کر کے اُن کو پھینک بھی دیا جاتا ہے۔ کچھ بچے ایسے خوش قسمت بھی ہوتے ہیں جن کے صاحب ِ استطاعت والدین تاوان ادا کر کے اپنے جگر گوشوں کو واپس پا لیتے ہیں۔ زینب کی موت نے پاکستان کو جھنجھوڑ دیا، سوشل میڈیا، لوکل میڈیا اور عالمی میڈیا کے بھرپور پریشر نے مجرم کو گرفتار کیا اور بعد ازاں اُس کو سزائے موت ہوگئی۔ امید یہی تھی کہ یہ سزائے موت مجرموں کو اپنے جرم سے روکے گی، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ پاکستان میں آج بھی ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔

اسلام آباد میں حال ہی میں ایک بچی کو اس کی ٹیچر نے اپنے بوائے فرینڈ سے قتل کروایا تھا، اس کے قبل بھی وہ ایسے ہی جرم میں ملوث رہے،آج کل وہ سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اسی طرح خیبر پختونخوا  سے کراچی تک سالانہ تقریباً ۳ ہزار بچے غائب ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے خوش قسمت بچے واپس اپنے والدین تک پہنچ جاتے ہیں، کچھ بچوں کو اُن کے آبائی علاقوں سے دور معذور کر کے بھیک مانگنے پر لگا دیا جاتا ہے ۔ یہ کام بھی ایک مکمل دھندہ ہے جس کیلئے گینگ کام کر رہے ہیں۔ کچھ بچوں کو بعد از زیادتی قتل کر دیا جاتا ہے ۔ الغرض کہ  پاکستان میں بچے سب سے زیادہ سافٹ ٹارگٹ ہیں اور یہ آج بھی ٹارگٹ ہو رہے ہیں۔

جب زینب کا واقعہ ہوا تو یہ تجویز پیش کی گئی ،ٹیکساس کے امبر الرٹ کی طرز پر پاکستان میں گمشدہ بچوں کی تیز تر رپورٹ درج کروانے کیلئے اور اُس پر ایکشن لینے کیلئے ’’زینب الرٹ‘‘ نام کا سسٹم رائج کیا جائے۔ اس ضمن میں اچھی خبر یہ ہے کہ زینب الرٹ کا سسٹم بن چکا ہے ۔ اس کی ایپ بھی تیار ہو چکی ہے اور یہ ایپ اسٹور اور پلے اسٹور سے مفت حاصل بھی کی جاسکتی ہے ۔ ۔ اس ایپ کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو،سی پی ایل سی، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت حاصل ہے۔اس کا استعمال پاکستان کے کسی بھی صوبے یاشہر سے کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے ذریعے سے گمشدہ بچے کی رپورٹ باآسانی آن لائن درج کروائی جا سکتی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ تھانے وغیرہ میں رپورٹ درج ہونے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے‘اگر اس کو ہی بچا لیا جائے تو بچوں کی تلاش آسان ہو جاتی ہے۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں، بحیثیت انسان اور معاشرہ اُن کی حفاظت کی سو فیصد ذمہ داری والدین کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ اس ایپ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ فراہم کردہ تمام تر معلومات کو خفیہ رکھا جائے گا۔اس ایپ کو کسی بھی فون میں ایپ اسٹور یا گوگل پلے سے مفت میں ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے ۔ رجسٹریشن اور زبان کے انتخاب کے بعد ایپ میں موجود ۱۲ خدمات آپ کی سکرین پر ظاہر ہونگی۔ اس میں فی الحال دو اہم خدمات کام کر رہی ہیں،ان میں سے ایک ملے ہوئے بچے کی اطلاع اور لاپتہ بچے کا الرٹ مکمل کام کر رہی ہیں، باقی خدمات بھی جلد ہی آن لائن دستیاب ہونگی۔ رپورٹ درج کروانے کے ۳ آسان مراحل ہیں اور اس میں بمشکل چند منٹ صرف ہوتےہیں۔اسی طرح اگر کسی خدا ترس کو کوئی گمشدہ بچہ ملتا ہے تو وہ اس ایپ کو استعمال کرتے ہوئے اس کا الرٹ بھی جاری کر سکتا ہے ۔ رپورٹ کے اندراج کے بعد قانونی کاروائی شروع ہو جاتی ہے ۔ یہ ایپ دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی کہ اگر یہ ایپ عوام الناس میں مقبول ہو جائے تو پاکستان میں ایسے گھناؤنے واقعات میں فوری کمی لانا ممکن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بچے خدا کی انمول نعمت ہیں۔ بچوں کی قدر اُن سے پوچھیں جو آج بھی اولاد کیلئے ترس رہے ہیں۔ میں نے اکثر والدین کو بچوں کے معاملے میں لاپرواہ سا دیکھا ہے ۔ نہیں، آج کے معاشرے میں بچوں کے حوالے سے لاپرواہی اُن سے دشمنی ہے ۔ یہ معاشرہ کسی کا بھی سگا نہیں ہے، اپنے بچوں کی حفاظت آپ کو خود کرنی ہے ۔ ٹیکنالوجی اور سسٹم آپ کی مدد کر سکتا ہے، بچوں کو آغوش آپ کی ہی چاہئے۔ خدارا، ان کو سینے سے لگا کر رکھیں۔ اللہ پاک سب کے بچوں کا حامی و ناصر ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply