دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجنا وی مر جانا۔۔۔فراست محمود

اللہ  تعالیٰ نے قرآن مجید میں اِرشاد فرمایا:
ﻛُﻞُّ ﻣَﻦْ ﻋَﻠَﻴْﻬَﺎ ﻓَﺎﻥٍ O ﻭَﻳَﺒْﻘَﻰ ﻭَﺟْﻪُ ﺭَﺑِّﻚَ ﺫُﻭ ﺍﻟْﺠَﻼ‌ﻝِ ﻭَﺍﻹ‌ِﻛْﺮَﺍﻡِ O
” جو کچھ بھی زمین پر ہے سب فنا ہو جانے والا ہے،اور صرف آپ کے پروردِگار کی ذات باقی رہ جائے گی جو نہایت بزرگی اور عظمت والی ہے۔ ”
( سورۃ الرحمٰن،7:55-26 )
دوسرے مقام پر اِرشاد فرمایا:
ﻛُﻞُّ ﻧَﻔْﺲٍ ﺫَﺁﺋِﻘَﺔُ ﺍﻟْﻤَﻮْﺕِ۔
” ہر جان موت کا ذائقہ چکھنے والی ہے۔ ”
( سورۃ آل عمران،3:185 )
بے شک کچھ لوگ خدا کا انکار تو کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں مگر موت کا انکار وہ بھی نہیں کرتے۔ موت بے شک ایک اٹل حقیقت ہے جس سے انکار ممکن ہی نہیں ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کسی ایک انسان کی زندگی اور موت کی اہمیت بھی یہ فرما کر واضح کردی ہے کہ  “جس کسی نے کسی ایک شخص کو ناحق قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس کسی نے کسی ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی”۔
(سورہ المائدہ 32)
کسی مذہب ومسلک, رنگ ونسل کی تمیز کیے  بغیر اللہ تعالی نے خالص انسان کے متعلق درج بالا آیت بیان کر کے انسان کی اہمیت تمام انسانوں کو بتا دی ہے اور دنیا کے ہر مذہب کی انسان کے حوالے سے یہی اصل تعلیمات ہیں۔
معاشرہ ہمیشہ اچھے اور برے, نیکی و بدی ,درست اور غلط پر مشتمل ہوتا ہے کوئی بھی معاشرہ نہ مکمل طور پہ برا ہوتا ہے اور نہ مکمل طور پہ اچھا ہوتا ہے اور اس کی اصل خوبصورتی بھی دونوں صورتوں کے قائم رہنے میں ہے۔ اس لئے ہر انسان کو اپنے کیے  ہوئے اچھے اور برے اعمال کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا گیا ہے۔
اللہ تعالی نے انسان کو عقل سلیم بھی عطا کر دی ہے اور ساتھ یہ بھی فرما دیا
وَالَّذِینَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ لاَ نُکَلِّفُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَهَا أُوْلَـئِکَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ . 42
جن لوگوں نے ایمان اختیار کیا اور نیک اعمال کیے  ہم کسى نفس کو اس کى وسعت سے زیادہ  تکلیف نہیں دیتے ،وہى لوگ جنتى ہیں اور اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں(42)
جب وہ رب کسی نفس کو اس کی اوقات سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا تو ہم لوگ کیوں اس خدا کے نام پر خدا کے بنائے قانون کو توڑ کر لوگوں کو ان کی اوقات سے بڑھ کر تکلیف دیتے اور موت کے گھاٹ اتارتے ہیں؟۔۔۔
جب ہر انسان کو درست اور غلط بھی بتا دیا گیا اور اختیار بھی دے دیا گیا ہے اور
“لا اکراہ فی الدین ” اور
فَإِنْ حَآجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُوَجْهِىَ لِلَّهِ وَمَنِ ٱتَّبَعَنِۗوَقُل لِّلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَوَٱلْأُمِّيِّــۧنَ ءَأَسْلَمْتُمْۚ فَإِنْأَسْلَمُواْ فَقَدِ ٱهْتَدَواْۖ وَّإِنتَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ ٱلْبَلَـٰغُۗوَٱللَّهُ بَصِيرُۢ بِٱلْعِبَادِ
(آل عمران آیت 20)
اب اگر یہ لوگ تم سے جھگڑا کریں، توا ن سے کہو: “میں نے اور میرے پیروؤں نے تو اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا ہے” پھر اہل کتاب اور غیر اہل کتاب دونوں سے پوچھو: “کیا تم نے بھی اس کی اطاعت و بندگی قبول کی؟” اگر کی تو وہ راہ راست پا گئے، اور اگر اس سے منہ موڑا تو تم پر صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی آگے اللہ خود اپنے بندوں کے معاملات دیکھنے والا ہے”۔۔
جیسے احکامات بھی جاری فرما دیے گئے ہیں تو پھر کیوں ظالم اور جاہل مخاطب کیا گیا انسان اپنی من مانی کرنا چاہتا ہے؟۔۔
کیوں میری نئی نسل کے نئے جوانوں کو اتنا گرمایا جاتاہے کہ وہ اپنی عقل کھو بیٹھتے ہیں کیوں کچے دماغوں کی پکے اوزاروں سے مرمت کی جا رہی ہے کیوں ننھی کلیوں کو پھول بننے سے روک کر کانٹوں جیسی نشوونما کی جا رہی ہے اور یہ سب کون کر رہا ہے؟؟
کبھی کسی لبرل کو قتل کر کے محفل بہشت سجائی جا رہی ہے  تو کبھی کسی سماجی و مذہبی شخصیت کو قتل کر کے داد وصول کی جا رہی ہے کبھی مسلک و مذہب کے اختلاف پہ لوگوں سے زندہ رہنے کا حق چھینا جا رہا ہے تو کبھی سیاسی و سماجی اختلاف کی بنیاد پہ لوگوں کی گردنیں ماری جا رہی ہیں۔ کیوں میرے معاشرے میرے ملک سے “اختلاف رائے ” جیسی خوبصورتی چھین کر تشدد کے سانچے میں  ڈھالا جا رہا ہے کیوں نفرت کو اتنا پختہ اور خالص کر کے بیچا جا رہا ہے کہ محبت قتل ہوتی جا رہی ہے۔؟
کیوں کسی کے قتل پہ اتنی شاباش دی جا رہی ہے جب مرنا سب نے ہی ہے تو کیوں موت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟؟

ان سوالات کے جوابات ہم پہ قرض ہیں جو ہم نے آنے والی نسلوں کو دینے ہیں کہ کیوں اسلام کے نام پہ بنائے گئے وطن کو اتنا ظالم اور بے حس بنایا جا رہا ہے کہ کسی کی موت بھی ہم پہ اثر انداز نہیں ہو رہی؟
بقول منیر نیازی!
بے حسی اس قدر بڑھ گئی ہے منیر
اب کوئی بچھڑ بھی جائے تو غم نہیں ہوتا

ہم لوگ بے حسی کی آخری منزل پہ ہیں شاید جہاں مرنے پہ بھی کوئی غم نہیں ہوتا۔۔۔خدارا قرآن مجید سے غلط باتیں ثابت  کرنے کی  بجائے “محبتیں اور رحمتیں” ثابت کیجئے۔
کتنے مشعال و بلال اس نفرت کی بھینٹ چڑھائیں گے؟۔۔ قتل چاہے مشال خان ہو یا بلال خان محفلیں سجانے کے بجائے مذمتیں کیجئے۔ دوسروں کے لئے قتل کے فتوے جاری کرنے والے کبھی خود بھی اس آگ میں جل جاتے ہیں ۔نفرتیں پھیلانے والے خود بھی نفرتوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
جب دشمنوں کے ساتھ سب دوستوں نے بھی مرنا ہے تو دشمن یعنی اختلاف رائے رکھنے والوں کی موت پہ خوشیاں کیوں ؟؟؟

Advertisements
julia rana solicitors london

دنیا میں محبت و اخلاص کا قحط پڑ چکا ہے یہاں اب صرف اور صرف محبتیں بانٹیے۔ کسی بھی عقیدے اور نظریے  پہ قائم رہیے  مگر خدارا لوگوں کو اپنی مرضی کی زندگی جینے دیں آپ سے باز پرس صرف اپنی کوتاہیوں کی ہو گی۔اپنے مسلک,اپنے مذہب اپنے نظریات اور اپنے عقیدوں کے حصار سے باہر نکلیے  اور انسانیت کے معیار پہ لوگوں کو جانچیں۔عفو و درگزر,برداشت اور اخلاق کو اپنا  شعار بنائیے اس سے پہلے کہ کوئی آپ پہ شدت پسندی, نفرت اور دہشت گردی کے فتوے داغے.اپنی سوچوں کو نظریوں اور اندھے عقیدوں کو دوسروں پہ زبردستی مسلط نہ کریں بلکہ مخالفین کی باتوں سننے اور سمجھنے کی کوشش کریں. ضروری نہیں ہوتا کہ صرف آپ کا سنا, سمجھا اور پڑھا سچ ہو گا۔کبھی مخالف کی بات بھی حق و سچ ہو سکتی ہے۔ بقول بشیر بدر صاحب
نئے دور کے نئے خواب ہیں نئے موسموں کے گلاب ہیں
یہ محبتوں کے چراغ ہیں انہیں نفرتوں کی ہوا نہ دے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply