انتظار تھا جس کا ،یہ وہ بجٹ تو نہیں ۔۔۔علی اختر

بجٹ کیا ہو تا ہے ؟ کوئی  بھی کمپنی ہو ، گھر ، ادارہ، دکان یا پورا ملک چلانے کے لیے  پیسہ چاہیے  ہوتا  ہے  ،جس سے اخراجات (expense) پورے کیےجا سکیں  ۔ آ نے والے سال میں ہونے والے اخراجات اور ان کو پورا کرنے کے لیے  پیسہ کہاں سے اور کتنا ضروری ہوگا ،کا اندازہ لگانا بجٹ بنانا کہلاتا ہے ۔ بجٹ کیونکہ  مستقبل کے لیے  بنایا جاتا ہے تو محض اندازوں(provisions) پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ ترقی کے مختلف اہداف بھی بجٹ ہی میں مقرر کیے  جاتے ہیں ۔

اگر کسی صورت میں آمدنی کم اور اخراجات یا صرف اخراجات ہی نہیں کسی بھی صورت میں پیسہ کی ضرورت (expenses, investment, reserves etc) کے زیادہ ہونے کی صورت حال درپیش ہو تو ایسی صورت میں آمدنی اور اخراجات کا فرق بجٹ خسارہ کہلاتا ہے ۔ اس خسارہ کو پورا کرنے کے لیے  نفع بڑھانے  کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر آپ ایک اچھے  بزنس  منیجر سے نفع بڑھانے  کا طریقہ پوچھیں تو وہ کہے گا کہ  پروڈکشن بڑھائی  جائے ، معیاری چیز بنائی  جائے ، قیمت کم رکھی جائے ، لوگ زیادہ سے زیادہ ہماری پراڈکٹ خرید کر استعمال کریں گے اور نفع زیادہ ہو جائے گا ۔ لیکن یہاں پاکستان کا منیجر ہمیشہ سے ہی الگ سوچ کا حامل ہے ۔ وہ پراڈکٹ کا معیار نہیں بڑھاتا۔ وہ کہتا ہے کہ   قیمت بڑھا  دو نفع اپنے آپ بڑھ جائے گا ۔ ۔۔۔نتیجہ ؟۔۔ خریدار کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں ۔ دوسری پراڈکٹ خرید رہے ہیں جو سستی بھی ہے اور معیاری بھی ۔ دوسرے الفاظ میں پیسہ اور کاروبار دوسرے ممالک میں شفٹ کر رہے ہیں جہاں کم خرچے (ٹیکس) میں کاروبار کی معیاری سہولیات میسر ہیں۔

ابھی کل ہی ایک حکومتی سپورٹر سے بجٹ کے موضوع پر بات ہوئی  تو موصوف نے کہا کہ  سوچو ، روشنی ڈالو کہ  کوئی  تو وجہ ہوگی بجٹ میں نئے یا بڑھے  ہوئے ٹیکس لگانے کی ۔ چلیے  بتا ئے دیتے ہیں ۔ ہمارا ٹوٹل بجٹ سات ٹریلین روپے کا ہے جس میں تین ٹریلین کا بجٹ خسارہ ہے ۔ ٹیکسوں  کے بڑھنے  کی ساری کہانی اسی کو کم کرنے کے گرد گھومتی ہے۔ ابھی تو شروعات ہے ،پچھلے سال کی طرح اس سال بھی وقتاً فوقتاً چھوٹے چھوٹے منی بجٹ اس خسارے کو پورا کرتے رہیں گے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ خسارہ ہوا کیوں ؟ ۔ جی پچھلی حکومتوں کی نااہلی اور کرپشن ، قرضہ معافی اسکیم کی وجہ سے ۔۔۔۔ اچھا جی ! تو یہ خسارہ آپ انہی  نااہل و کرپٹ مجرمین سے وصول کریں نا ۔ نا جی وہ تو ہمارے قابو کےہیں نہیں ۔ ہم ماضی میں بھی سوئیس بینکوں کو خط لکھتے رہے ۔ کچھ نہ مل سکا ۔ پھر ہم نے خود ہی کچھ پرسنٹیج پر بلیک منی وائٹ کر دیا کہ  بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی  ۔ ۔۔۔جی بہتر ، تو اب آپ کیا کریں گے ۔ جی یہ سارا خسارہ آپ سے وصول کریں گے نا ۔ وہ تو بھاگ گئے لیکن آپ قابو میں ہیں ۔ آپ ہی آجائیں ۔ سمجھنے کے لیے  آپ کے الیکٹرک کا بل دیکھ لیں جس میں چوری ہونے والے یونٹس کی قیمت ان بیچاروں کو دینی پڑتی ہے جو بل دے رہے ہوتے ہیں ۔ یا اس تھانے دار کو دیکھ لیں جو پاکٹ مار ہاتھ آنے پر تھانے کی حدود میں ہونے والی ڈکیتی کی پندرہ وارداتیں اس بیچارے کے گلے میں فٹ کرتا ہے کہ وہ نہ سہی  تو تم سہی ۔

موجودہ بجٹ کی ایکسپورٹ پر ڈیوٹیز اینڈ ٹیکسز بڑھائے جانے کی وجہ سےامپورٹڈ مشینری اور کیمیکلز کی قیمت میں اور بھی اضافہ  ہو جائے گا ۔ اس سے نقصان یہ ہوگا کہ  ہماری مصنوعات جو پہلے ہی انٹرنیشنل مارکیٹ میں دوسرے ممالک کا مقابلہ نہیں کر پاتیں میدان سے بالکل ہی آؤٹ ہو جائیں گی ۔ رہے سہے کارخانے بھی بند ہونا شروع ہو جائیں گے اور بے روزگاری میں اور بھی اضافے  کا خطرہ ہے ۔ ملک میں بجلی ، فیول، گیس وغیرہ مہنگی ہونے کی وجہ سے پہلے ہی مصنوعات کی تیاری کی لا گت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ  لوکل مارکیٹ میں چائنہ  کی مصنوعات ، ملکی مصنوعات سے سستی ملتی ہیں ۔ ٹیکسٹائل کو ہی لے لیں ۔ کراچی کی مارکیٹ میں تھائی میڈ شرٹس اور چائنا میڈ ٹراؤزر عام ہیں ۔

دنیا بھر میں ٹیکس کا نظام اس طرح چلتا ہے کہ  حکومت مالدار لوگوں سے ٹیکس وصول کرتی ہے اور غریبوں پر خرچ کرتی ہے ۔ مثال کے طور پر پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والوں کو سبسڈی دی جاتی ہے جبکہ گاڑی والوں سے روڈ ٹیکس ، پارکنگ فیس، ٹال ٹیکس وغیرہ کی مد میں ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ۔ یہاں کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ  بنیادی ضروریات بھی   جن کے استعمال میں غریب و امیر کی کوئی  تفریق نہیں پھر  بھی ٹیکس لگا کر خسارے پورے کیے  جا رہے ہیں ۔ گاڑیوں کی امپورٹ یا سگریٹ پر تو ٹیکس سمجھ آتا ہے لیکن ایک طرف کم سے کم اجرت 17500 مقرر کی جائے اور دوسری جانب بجلی، گوشت، دودھ اور چینی پر ٹیکس لگا کر مہنگائی  کی جائے تو یہ کام تو غریب کی حالت مزید خستہ کرنا ہی ہوا ۔ میں ابھی بھی کم سے کم مزدوری پر کام کرنے والے ایسے بہت سے محنت کشوں کو جانتا ہوں جو مہینے کے آخری دس دن محض چائے روٹی پر گزارہ کرتے ہیں ۔ اب اتنی مہنگائی  اور اتنی کم اجرت کے ساتھ تعلیم و علاج معالجہ تو ایک خواب ہی بن جاتا ہے ۔ معاف کیجیے  لیکن اس معاملے میں تبدیلی سرکار بھی نواز اور زرداری سرکار سے ایک فیصد بھی مختلف نظر نہ  آسکی ۔

زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے  گزشتہ حکومتوں کی طرح تبدیلی سرکار نے بھی ودہولڈنگ ٹیکس کو بر قرار رکھا ہے اور چھوٹا کاروباری طبقہ بھی گزشتہ زمانے کی طرح اپنے بلز گرس اپ کروا کر ہی وصول کرے گا کہ  آپ جانو اور ایف بی آر ،مجھے میری قیمت پوری دو اور ٹیکس کا بوجھ خود اٹھاؤ ۔ ہاں ایک اور بات کہ  اس سال کے بجٹ میں بینک پرافٹ پر ودہولڈنگ 10 فیصد سے بڑھا  کر 30 فیصد کر دیا گیا ہے ۔ اسکے ساتھ ہی پانچ لاکھ سے اوپر بینک بیلنس ہونے پر ایف بی آر کی انکوائریاں شروع کردی گئی  ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ  رہا سہا سرمایہ بھی سسٹم سے آؤٹ ہونا شروع ہو جائے گا ۔ تنخواہ دار طبقہ جو سب سے آسان شکار ہوتا ہے پر ٹیکس اور بڑھا  دیا گیا ہے ۔ اندازہ ہے کہ  چھ سو بلین روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے ۔

میں اس پر بات نہیں کرونگا کہ  بجٹ آئی  ایم ایف کی ڈکٹیشن پر بنایا گیا ہے یا نہیں ۔ سمجھانے کا مقصد یہ ہے  کہ  ٹیکس کو بھتہ کی طرح جبراً  وصول کرنے اور مزید بڑھانے  کے بجائے معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیں کیونکہ ٹیکس ، معاشی سرگرمیوں کا ہی بائی  پراڈکٹ  ہے ۔ آخر میں کچھ تجاویز کو موجودہ معاشی صورتحال میں کار آمد ہو سکتی ہیں ۔

تجاویز ــ۔

1 ۔ سب سے پہلے تو عوام کا حکومتی اور ریاستی اداروں پر اعتماد بحال کیا جائے ۔ وزیر اعظم صاحب نے خود اپنی تقریر میں فرمایا کہ پاکستانی خیرات تو کردیتے ہیں لیکن ٹیکس ادا نہیں کرتے ۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے لیکن پاکستانی خیرات و عطیات بھی کارکردگی کو دیکھ کر ہی دے رہے ہوتے ہیں۔ اگر جے ڈی سی نامی ادارے کو عطیات ملتے ہیں تو جواب میں وہ سحری ، افطاری بھی تو پورے رمضان بانٹتے نظر آتے ہیں ۔ عوام ایس سی یو ٹی میں گردے کا ٹرانسپلانٹ تک مفت میں ہوتا دیکھتے ہیں تو ادیب رضوی صاحب کو بغیر اپیل کے کروڑوں کی امداد مل جاتی ہے اور اسکے برابر میں سول ہسپتال میں انسانیت کی تذلیل آپکی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ تو  آپ کو پیسے کون دے گا ؟۔ ۔

اس تناظر میں سرکاری اداروں سے کرپشن کا خاتمہ کرنا انتہا ئی  ضروری ہے ۔ آئے روز خبروں میں سیاسی لوگوں کی جانب سے کی جانے والی اربوں کی لوٹ مار کی داستانیں سنتی عوام جب سرکاری اداروں کی موٹے پیٹوں والے حرام خوروں سے ڈیل کرتی ہے تو مجھے خود بتائیں اپنا پیسہ خوشی سے کون اندھے کنوئیں میں پھینکنا چاہے گا ۔ لوگوں کو ڈلیور کریں تو لوگ اپنی خوشی سے ٹیکس جمع کرائیں گے ۔

2 ۔ بجائے اپنی پراڈکٹ کی قیمت بڑھا  کر زیادہ نفع کمانے کی بیوقوفی کے ۔ معیار بہتر اور سستی پراڈکٹ بنائیں تاکہ زیادہ خریدار ہوں اور نتیجہ زیادہ نفع کی صورت میں نکلے ۔ اوپر دی گئی  اس مثال کو  سنجیدگی سے لیں ،پرانی حکومتوں کے نقش قدم پر چلنے سے کچھ حاصل ہوتا نظر نہیں آتا ۔

3۔ ڈیفنس اور سول پینشنز کی مد میں بھی ایک بھاری بوجھ    معیشت پر موجود ہے ۔ یاد رہے کہ  میں یہاں سپاہیوں یا معمولی سرکاری ملازموں کی بات نہیں کر رہا ۔ میں ان کرپٹ افسران کی بات کر رہا ہوں جو مرنے کے بعد سوا لاکھ کا ہاتھی بن کر رٹائرمنٹ کے بعد مختلف پرائیویٹ فرمز میں بھاری اجرتوں پر کام کرتے نظر آتے ہیں ۔ سرکاری اداروں اور سرمایہ داروں کے درمیان مانڈوالی ( ساز باز) کراتے ہیں ۔ میڈیا ٹاک شوز میں ٹائی لگائے نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی ضعیف و مجبور بن کر پنشن بھی کھاتے ہیں ۔ چلیں پچھلی حکومتیں نااہل تھیں آپ تو اہل ہیں نا ؟. آپ ریٹائرڈ افسران چاہے فوجی ہوں یا سول دونوں کی انکوائریاں شروع کردیں ۔ انکا لائف اسٹائل، اثاثہ اور بینک بیلنس دیکھیں اور معیشت پر بوجھ سابق افسران کی پنشن بند کرکے یہ پیدا ڈویلپمنٹ پر لگائیں یا جہاں ٹھیک سمجھیں پر انہیں نہ دیں ۔

4۔ آخری تجویز یہ ہے کہ سب ہی جانتے ہیں کہ  کپتان اور اسکی ٹیم کس امپائر   کی انگلی کے اشارے پر میدان میں آئے ہیں لیکن وہ اب تک تو صرف انہیں برائی  لینے کے لیے  ہی استعمال کیا جا رہا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ضرورت اس امر کی ہے کہ  جب اتھارٹی مل ہی گئی  ہے تو مکمل اتھارٹی کے کر اس کا پورا استعمال کریں ۔ یہ چور پولیس کا کھیل دیکھتے ہماری دو نسلیں گزر گئی  ہیں اب اسکا خاتمہ کریں ۔ پچھلوں کی طرح پچھلے سے پچھلوں پر کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کے الزامات و گرفتاریاں ۔ انکوائریاں، کمیشن یہ راگ پاٹ پرانے کو گئے ہیں ۔ آپ انقلابی ہیں تو پھر سلوموشن احتساب نہ کریں ۔ اگر یہ بلاول ہاؤس، رائیو نڈ محل، سوئس بینک کے اکاؤنٹ، شوگر و اسٹیل ملیں وغیرہ کرپشن کے ہیں تو ضبط کر کے نیلام کریں ہم آپکے ساتھ کھڑے ہیں ۔ دوسری صورت اگر ٹائم پاس ہو رہا ہے تو ملک و معیشت ٹھیک کرنے کے لیے  ماہر معاشیات کی جگہ ماہر منشیات کی ضرورت پڑے گی ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply