سوشلسٹ کا سگریٹ۔۔۔۔آذر مراد

مجھے مارکس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی میں مارکسزم کے ان سارے نقاط سے واقف ہوں جن کو ہماری پرجوش نسل ہر گلی چوراہے اور محلے میں ہاتھوں میں مہنگی سگریٹ لیے اور آنکھوں پر ربن پہنے ڈسکس کرتی ہوئی نظر آتی ہے. شاید یہ مارکسزم کی بدقسمتی یا یوں کہیں کہ دیسی مارکسسٹوں کی بدقسمتی ہے کہ مجھ سے نالائق کو نہ چاہتے ہوئے بھی کراچی یونیورسٹی کے شبعہِ فلسفہ میں کچھ سر پھرے استاد مارکس کے بارے میں پڑھاتے رہے ہیں اور مارکسزم کو سمجھاتے رہے ہیں. جس کی وجہ سے میرے کیپٹلسٹ دماغ میں مارکسزم کی کچھ چیزیں محفوظ ہو گئی ہیں. اب جب بھی میں کسی اسٹائلش مارکسسٹ کو دیکھتا ہوں تو مجھ میں موجود مارکس کی تھیوری مجھے کچھ کہنے پر اکساتی ہے.

ویسے میں کچھ کہتا نہیں ہوں لیکن تصور میں ایک منظر ضرور آ جاتا ہے. جس میں مارکس ہاتھوں میں جھاڑو لیے اپنے خیالات کی گَرد کو دماغوں سے جھاڑتے ہوئے بڑبڑا رہا ہوتا ہے کہ “میں بھی کتنا نالائق ہوں، کیسے نادر الفاظ کیسی جاہل نسل کے لیے چھوڑ کر گیا ہوں.” تب میرے دل میں مارکس کے لیے ایک عجیب قسم کی ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے. تب میں سگریٹی سوشلسٹوں کی طرف دیکھ کر سوچنے لگتا ہوں کہ کاش ہٹلر صاحب یہاں پیدا ہوتے.

بات یہ نہیں ہے کہ مارکس کے بتائے ہوئے رستے پر کوئی نہ چلے. اس کی سب کو آزادی ہے جو بھی مارکسسٹ بننا چاہتا ہے، بن سکتا ہے لیکن مارکسسٹ بننے سے پہلے اسے یہ دیکھنے کی زحمت تو کرنی چاہیے کہ کیا اس میں وہ طاقت ہے کہ وہ ایک اصولی مارکسٹ بن سکے. کیا وہ واقعی ربن پہننا چھوڑ سکتا ہے؟. کیا اس میں سگریٹ کے پیسوں کو کسی غریب بھوکے بچے پر خرچ کرنے کی جرات ہے؟. کیا وہ اپنے قیمتی کپڑوں کی قیمت سے کچھ ننگے بچوں کو کپڑے پہنانے کا حوصلہ رکھتا ہے؟. کیا وہ اپنے سیر سپاٹے کو پیسوں کو غریب بچوں کی تعلیم پر خرچ کرنے کی سکت رکھتا ہے؟.

اگر ہاں تو وہ بالکل ایک نہایت ہی عمدہ مارکسسٹ بن سکنے کے قابل ہے لیکن اگر وہ ربن، سگریٹ، کپڑے اور سیر سپاٹے میں دلچپسی رکھتا ہے تو اسے جاننا چاہیے کہ وہ مارکسسٹ بنے کے لیے پیدا نہیں ہوا اور نہ مارکس کی تحریک میں جہادی بننا اس پر فرض ہے. کیونکہ مارکس کی تحریریں چند لفظی ادب کے علاوہ بھی ایک بہت ہی اعلیٰ مٹاس رکھتی ہیں، جسے محسوس کرنے کے لیے مارکس کو پڑھنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ مارکس کو محسوس کرنا اور اس کو اپنے اندر اتارنا بھی ضروری ہوتا ہے.

مارکس کی مارکسیت کو نہ سمجھنے کی سب سے بڑی وجہ ایک یہ بھی کہ یہ اسٹائلش سوشلسٹ طبقہ ابھی تک احساسات کی اس اونچائی تک نہیں پہنچ پایا جہاں تک ایک حقیقی مارکسسٹ کو پہنچنا ہوتا ہے. وہ ابھی تک استحصالی طبقے کی اس مجبوری کو نہیں سمجھ پائے جو انہیں انقلابی بنانے میں سب سے بڑا کردار ادا کرے گا. وہ بس چند سنی سنائی بات کے عوض یہ تصور کر لیتے ہیں کہ غریب طبقہ مجبوری کے کون سے اسٹیج پر پہنچ چکا ہے. یہ سیاسی لفنگوں کی طرح جھٹ سے لال انقلابی بن کر ان کے درد میں شریک ہونے پہنچ جاتے ہیں اور مارکس کے رٹے ہوئے وہ اقوال بولنا شروع کر دیتے ہیں جن کا مطلب انہیں خود پتہ نہیں ہوتا اور نہ یہ پتا ہوتا ہے کہ وہ جس درد کو دیکھ کر مارکسی جہادی بنے ہیں وہ اصل میں ہوتا کیا ہے اور اسے جھیلنے والے لوگوں کے احساسات کیا ہیں.

مارکس لکھنے سے پہلے بھوک، تنگ دستی، ناانصافی اور اس جیسے کئی اور احساسات کو محسوس کر چکا تھا اور جب وہ لکھ رہا تھا تب بھی وہ انہی احساسات کو محسوس کرتے ہوئے لکھ رہا تھا. اب اگر کوئی اس کی تحریروں کے ظاہری خدوخال سے متاثر ہو کر مارکسسٹ بن جائے تو وہ کہاں معاشرے میں موجود استحصال کے بارے میں بات کر سکے گا کہ جس کا وہ خود ایک رکن ہے. اس کی ہر وہ شے جو اسے دوسروں سے ممتاز رکھتی ہے، اسی استحصالی قوت ہی کی تو دین ہے اور وہ اس سے فائدہ بھی اٹھا رہا ہے.

پیزا برگر کھانے والا اگر گلی میں بھیک مانگتے بھوکے بچوں کے لیے سماج سے لڑنے کی بات کرتا ہے تو اس کا صاف اور شفاف مطلب ہی یہی ہے کہ وہ جھوٹا ہے. دو دو ہزار روپے کا سوٹ پہننے والا اگر یہ کہتا ہے کہ وہ ننگوں کے لیے انقلاب لانا چاہتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ بکواس کر رہا ہے. کیونکہ انقلاب لانے سے پہلے انقلاب لانے کی وجہ لازمی ہوتی ہے اور وجہ تب ہی پیدا ہو سکتی ہے جب کوئی بھوک سہے، کوئی ننگا رہنے کا مطلب محسوس کرے، کسی کو پتہ ہو کہ دھوپ میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دو وقت کی روٹی کمانے کا مطلب کیا ہے. کسی کو یہ معلوم ہو کہ کس طرح وہ اس کتے سے بھی بدتر زندگی گزار رہا ہے جس کو گلی میں موجود ہر شخص پتھر مار سکتا ہے اور وہ جواب میں سوائے بھونکنے کے کچھ نہیں کرسکتا.

جب کسی میں نہ درد ہے، نہ احساس ہے، نہ وہ مارکس کی تحریروں کے باطنی مطلب کو سمجھ سکتا ہے، نہ وہ اپنی مارکسیت پر ہر صورت قائم رہ سکتا ہے، نہ وہ سماج کی برابری کے لیے اپنے سگریٹ کی قربانی دے سکتا ہے اور نہ وہ اپنے آباواجداد کی دولت کو ایک معاشرتی دولت قرار دے سکتا ہے تو وہ کہاں کا مارکسسٹ ہے. صرف مارکسی علم رکھنے کو مارکسیت سمجھنا جہالت نہیں تو اور کیا ہے.

ہمارے خاص کر بلوچ طبقے میں تو مارکس، سنی لیونی سے بھی زیادہ مشہور ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نیم خواندہ نیشنلسٹ نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی نیشنلزم رشتے میں مارکسیت کی بہن جیسی ہے. انہیں مارکسیت میں رہ کر یہ فائدہ ملتا ہے کہ وہ انقلابی بھی کہلا سکتے ہیں اور انہیں ڈرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی. ایسے نوجوان نہ صرف نئی نسل کو ایک غلط سمت میں ڈال دیتے ہیں بلکہ موجودہ نسل کو بھی اس قدر جاہل بنا دیتے ہیں کہ یہ نسل ہر تعلیمی ادارے میں موجود ہر بلوچ کو یہ احساس دلانے کی کوشش میں لگی رہتی ہے کہ وہ ایک مارکسسٹ بنے کے لیے پیدا ہوا ہے یا پھر نیشنلسٹ یا کچھ اور بننے کے لیے ماں باپ نے اسے جنم دیا ہے. وہ اسے یہ سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیتے کہ ایک بلوچ، ایک بلوچ بھی تو رہ سکتا ہے.

پھر جب ان سگریٹی سوشلسٹوں سے یہ بات کہی جاتی ہے تو وہ منہ بنا کر مہنگی سگریٹ کا ایک کش لے کر کہتے ہیں کہ اس معاشرے کا کچھ نہیں ہو سکتا اور کسی اور پسماندہ علاقے میں جانے کی تیاری شروع کر دیتے ہیں کہ جہاں نئے نئے مفکر بننے کے خواہش مند لوگ ان کی تقریروں کو سننے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں.

مجھے حیرانی اس بات کی ہے کہ ایک قوم جس کی حالت ایک افریقی پسماندہ قوم سے بھی بدتر ہے، اپنی بنیادی ضرورت تعلیم کو فروغ دینے کے بجائے تقریروں میں کیوں دلچسپی رکھتای ہے؟. اس کا جواب شاید یہ ہو سکتا ہے کہ ہم ابھی تک ضرورتوں کے انتخاب میں بھی بہلائے گئے ہیں اور شاید بہلائے جاتے رہیں گے کیونکہ ہم مارکس کو اس لیے پڑھتے ہیں کہ دوسروں کو یہ بتا سکیں کہ ہم کتنے بڑے مفکر ہیں اور اس مفکریت کی آڑ میں وہ سب کر سکیں جو کہ بنا مارکسیت کے کرنا بے معنی سا لگنے لگتا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

ان حالات کو دیکھ کر یہی تصور کیا جا سکتا ہے کہ اگر مارکس دوبارہ پیدا ہوئے تو وہ شایدہٹلر کی تاریخ دہرانے کی کوشش ضرور کریں.

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply