تربوز اور ہماری دانشوری۔۔۔عارف خٹک

یار دوست جب کبھی کبھار منٹو کہہ کر مُجھے بانس کی پتلی شاخ پر چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تو للہ ہنس ہنس کر آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔
اب ان کو اپنی قابلیت کا کیا بتاؤں؟۔۔۔۔
کہ منٹو کو میں نے کب پڑھا۔2000ء میں اُس کا ایک افسانہ “ٹھنڈا گوشت” پڑھنے کا موقع ملا۔اُس دن لائف بوائے کا دو بار استعمال کیا۔ دوسرا افسانہ “ٹوبہ ٹیک سنگھ” 2016ء میں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جس میں گڑگڑ دی لالٹین نے کمال کیا تھا۔
اُردو ادب سے اپنی شناسائی تو غالباً 1994ء میں “چترالی میگزین” سے ہوئی تھی۔ جو مبلغ پچاس روپے میں خرید کر گاؤں کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر پڑھتے تھے۔اور میڈم نازلی کی پیچھے والی چوٹیوں کا تقابل اپنے گاؤں کے پہاڑوں  کی چوٹیوں سے کرتے تھے۔ بلاشُبہ آخر میں شکست ہماری ہی پہاڑیوں کی ہوتی تھی۔ گرماگرم تصاویری ادب کے بعد زاہد ملک صاحب کا افسانہ پڑھنا شروع کرنے لگتے۔تو گاؤں کی ساٹھ سالہ بوڑھیوں میں بھی ہمیں مسرت شاہین نظر آتی۔جس کا خمیازہ پھر گاؤں کی کھوتیوں کو بُھگتنا پڑتا تھا۔

جنگ اخبار کے سنڈے ایڈیشن کا ہم بےتابی سے انتظار کرتے تھے۔ اخبار جیسے ہی ہاتھ لگتا۔تو صفحہ نمبر 15 حسب معمول ہمارے اسکول بیگ میں پہنچ چکا ہوتا تھا۔ جس میں سیمناؤں میں لگی فلموں کی تصاویر ہوتی تھیں۔ہم پشاور میں واقع شمع سنیما میں لگی فلموں کی تصاویر بہت شوق سے دیکھتے تھے۔ جس میں ایک زرخیز حسینہ ہاتھ میں پکڑے سانپ کو مخمور اور نشیلی نگاہوں سے دیکھ رہی ہوتی تھی۔ اور نیچے لکھا ہوتا تھا۔
“مس لیزی کی مست ادائیں جو آپ کو پاگل کرکےرکھ دیں ۔۔

ہر جمعہ مبارک کو شمع سنیما میں رات نو بجے خصوصی شو۔”
یاد رہے شمع میں صرف ٹرپل ایکس فلموں کی اجازت ہوتی تھی۔
لہٰذا ایک بار پھر لائف بوائے کا دور چلتا۔

کالج لائف میں آکر پتہ چلا،کہ اگر آپ کی انگریزی اچھی ہے تو آپ زیادہ بہتر طریقے سے زندگی کا لطف اُٹھا سکتے ہیں۔ کیونکہ سڈنی شیلڈن کے شہرۂ آفاق ناول کیلئے آپ کو انگریزی پڑھنی آنی چاہیے ۔ لہٰذا ہم نے انگریزی کے بارہ زمانے ازبر کئے اور ڈان اخبار پڑھنے لگے۔ بالآخر دو سال کی انتھک محنت کے بعد رات کو لیمپ کی روشنی میں سڈنی شیلڈن کو پڑھنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ مُجھے ابھی بھی یاد ہے Big watermelon اور Cock کو میں چھ ماہ تک اصلی “ملتانی تربوز” اور “اصیل مرغ” ہی سمجھتا رہا۔اور حیران ہوتا رہا کہ عورت اپنے جسم پر تربوز کیسے اُگا سکتی ہے اور مرد پینٹ میں مُرغ کیسے پال سکتا ہے؟۔

2000ء میں معلوم ہوا کہ جس تربوز کو لے کر ہم انگریز لیڈی پر حیران اور پریشان ہورہے تھے،اسے روس میں بوفیرا کہتے ہیں۔ اور انگریز کے اصیل مرغ کو پولووشلین کہتے ہیں۔ پھر ہم نےانگریزی کو بھی طلاق دے دی۔ اور ڈکشنری لے کر پشتو پر چڑھ دوڑے،مطلب فوکس کیا۔جس کےلئے پشتو میں بھی ایک بہت بُرا لفظ ہے۔ بالآخر ارتقاء کا یہ سفر لائف بوائے سے ہوتا ہوا ہیڈ این شولڈرز شیمپو تک جا پہنچا۔اور ہم تربوز اور مرغ کا فرق جان ہی گئے۔

اس دوران جو جو ہم نے کتابوں میں پڑھا۔اس پر ہم نے فقط چار حروف “ل ع ن ت” کے بھیج دئیے۔اور خود پریکٹیکل کرنے بیٹھ گئے۔ یہ الگ بات کہ ان تجربات کے دوران ہم نمک کی افادیت کے قائل ہوگئے۔کیونکہ جتنے بھی ناقابل اشاعت الفاظ یا “چیزیں” ہم نے پڑھیں  یا منہ لگایا ان سب کا ذائقہ نمکین ہی پایا۔

اگر آپ مجھے اس لئے پڑھ رہے ہیں کہ عارف خٹک بہت بڑا دانشور ہوگا۔ تو آپ کو بتائے دیتے ہیں،کہ بھیا ہم وہ نہیں ہیں۔ ہم آج بھی محترم عطاءالحق قاسمی صاحب کی اس بات کو گرہ میں باندھ کر جی رہے ہیں کہ ” دھوتی کے جہاں باقی کافی سارے اور فائدے ہیں،وہاں ایک یہ خوبی   بھی ہے  کہ اسے فرش پر بچھا کر آپ دسترخوان بھی سجا سکتے ہیں”۔

ہم نے اُردو کا پہلا لفظ بھی “شنو” سے شروع کیا تھا۔اور انشاءاللہ آخری لفظ بھی “شنو” ہی ہوگا۔ شنو پانچ فٹ کی وہ صحتمند خاتون ہے۔جس کا سینہ اس سے دو فٹ آگے بھاگتا ہے تو توازن برقرار رکھنے کے لئے تین فٹ پیچھے بھی کولہے  مٹکاتی ہے۔ شنو الحمداللہ پڑھی لکھی نہیں ہے،اس لئے ایک بھرپور عورت ہے۔ اس نے ارسطو کو نہیں پڑھا، اس نے ٹالسٹائی کے آنسو نہیں پونچھے۔اس کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ شیکسپیئر کے کرداروں میں دنیا کے لئے کیا پیغام چُھپا تھا۔ وہ فقط یہ سمجھتی ہے کہ ارسطو، پلوٹو، سارتر، ڈیوڈ ہوم، سقراط، تھامس ہوبیز، ہیپو، غزالی، ماسکیٹو، جارج بارکلے اور وغیرہ وغیرہ کا فلسفہ ان ہی تربوزوں تک محدود تھا۔ جس کا استعمال میری شنو بہتر جانتی ہے۔ اور مرغ اصل میں دانہ کہاں چگتا ہے۔ یہی ہماری شنو کی کوالیفکیشن ہے۔

آپ پڑھے لکھے لوگوں کی ازدواجی زندگی دیکھیں۔تو کبھی سکول کی شکل تک دیکھنا گوارہ نہ کریں۔ بیچاروں کا ذہن بوقتِ رومانس بھی دفتر کے بکھیڑوں، اگلے مہینے کی پلاننگز، بچوں کی سکول فیس اور نئے ماڈل کی گاڑیوں میں اُلجھا ہوا ہوتا ہے۔ لہٰذا اصیل مرغ یا بقول انگریز کافر کے  Cock بانگ دینے سے پہلے ہی حالتِ سجدہ میں چلا جاتا ہے ۔اگلے دن بیوی طلاق کا مطالبہ کرکے اپنا سٹریس اُس پر نکال رہی ہوتی ہے۔اور یہ بیچارا دانشوری کرکے فقط واہ واہ ہی سمیٹتا ہے۔ میں نے کم پڑھے لکھے مردوں کی بیویوں کو ہمیشہ خوش و خرم دیکھا ہے۔آج تک یہ سننے میں نہیں آیا کہ عبدالرحمن چرسی کی بیوی نے طلاق کا مُطالبہ کیا ہے۔ بلکہ وہ ہماری پڑھی لکھی بیویوں کے سامنے معنی خیز مسکراہٹ کےساتھ ہر وقت اپنی نیند کی کمی کی شکایت ہی کرتی رہتی ہیں۔کیوں کہ وہ دونوں تربوز اور مرغ میں اچھی طرح فرق کرسکتے ہیں۔ ہماری طرح دانشور نہیں ہیں کہ ڈکشنریوں پر انحصار کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فیس بک کی دانشوری کا کم از کم ایک فائدہ یہ ہوا کہ مسرت شاہین کےساتھ جو ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی خواہش رہی۔وہ ہماری دوست بن گئی۔یہ الگ بات ہے کہ اُس نے مجھے بیٹا کہا ہے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم نے آج تک اس کو ماں نہیں سمجھا۔
فیس بکی دانشوری کےکارن ہمیں کتنی ہی حسیناؤں کے کاندھے سے کاندھا ملا کر بیٹھنا نصیب ہوا۔لیکن یہ الگ بات کہ اُنھوں نے ہمیشہ بڑا بھائی ہی سمجھا۔اور یہ الگ سے سچائی ہے کہ ہم نے ان کے بازو پر چٹکی کاٹ کر اُنھیں جتایا ہے کہ بہن جی آپ مُجھ سے عمر میں بڑی ہیں۔
مگر آج تک نہ وہ مانی ہے اور نا ہی ہم مانیں گے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply