ایک بُڑھیا صحرا میں رہا کرتی تھی ایک دن ایک نہایت قیمتی باز اسکی کٹیا کے نزدیک ادھ موئی کفیت میں آکے گرا اور بیہوش ہوگیا بڑھیا باہر نکلی باز کو اٹھا کر اندر کٹیا میں لے گئی اسکی خوب خدمت کی جب اس نے غور سے باز کو دیکھا تو اسکے پر اور ناخن بڑھے ہوئے پائے وہ بڑھیا بہت نرم دل، عبادت گزار اور ہمدرد طبیعت کی مالک تھی اسکو باز پر بہت رحم آیا لہذا اس نے اسکے پر اور ناخن تراشنے شروع کر دئیے وہ اس کے پر اور ناخن کاٹتی جاتی اور کہتی جاتی کہ ہائے کیا تیرا خیال رکھنے والا کوئی بھی نہیں نہ ہی کوئی تیرے ناخن کاٹتا ہے نہ ہی تیرے بال و پر لہذا اس نے ہمدردی کے اظہار کے طور پر باز کے بال اور ناخن کاٹ ڈالے اس کے بعد اسکو نہلانے کی غرض سے جب اس پر پانی ڈالا تو باز کو ہوش آیا لیکن اس وقت تک باز صاحب فارغ ہو چکے تھے اب اس کہانی میں ہم کس کو قصور وار قرار ٹھہرائیں باز کو یا اس ہمدرد و ایماندار بُڑھیا کو۔
چلیں بات کو ایک اور طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ایک گھر ہو اس کا مالک بہت ایماندار ہو مگر نکما ہو یعنی کوئی کام اس سے ٹھیک طریقے سے نہ کیا جاتا ہو پڑھائی اس سے نہ ہوئی ہو، نوکری اسے نہ ملتی ہو، کاروبار کی الف بے بھی اسے نہ آتی ہو، اثاثے اس کے نہ ہونے کے برابر ہوں، نشہ وہ کرتا ہو، بچے اس کے بارہ ہوں، اپنی جہالت، فرسٹریشن، نشےاور مسلسل ناکامیوں کی وجہ سے چڑچڑا پن اس کے مزاج کا حصہ بن چکا ہو، کسی سے وہ خوش نہ ہو، سوائے اس کے کہ جس سے اس کو قرض ملنے کی امید ہو وہ کسی سے سیدھے منہ بات نہ کرتا ہو اور اس سب پر وہ اپنے علاوہ ہر ایک کو غلط سمجھتا ہو، اسکو یہ بھی لگتا ہو کہ اسکی تمام ناکامیوں کی وجہ وہ سازشیں ہیں جو دنیا اسکے خلاف کر رہی ہے، اسکی بدمزاجی اور اکھڑ طبیعت کی وجہ سے کوئی اس کا فون بھی نہ اٹھاتا ہو اس طرح کے آدمی کے گھریلو وہ مالی حالات کس طرح ٹھیک ہو سکتے ہیں؟
ایک بار ہمارے ایک بزرگ نے پی ٹی آئی کے ایک مرکزی رہنما سے میری موجودگی میں یہ پوچھا کہ یار یہ عمران خان کیسا آدمی ہے تو انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا کہ اس سے زیادہ ضدی اور اکھڑ آدمی میں نے زندگی میں نہیں دیکھا مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طیب اردگان آیا ہوا تھا اور اس نے پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن سے خطاب کرنا تھا۔عمران نے حسب معمول اس اجلاس میں نہ جانے کا فیصلہ کیا میں نے لاکھ سمجھایا کہ یار ہمارے مسائل نواز شریف سے ہیں ترکی کے صدر سے ہمارا کیا جھگڑا۔۔ تو آگے سے کہنے لگے کہ تمہیں نہیں معلوم وہ نواز شریف کا دوست ہے اور ہم نے دیکھا کہ جب عمران خان پہلی بار ترکی گئے تو طیب اردگان کے تاثرات نے یہ بتا دیا کہ کسی بھی قسم کے تعاون کی امید نہ رکھیے گا۔
جس دن سے پی ٹی آئی طلوع ہوئی اس دن سے آج تک جب انکی حکومت قائم ہوئے نو مہینے ہونے کو آئے ایک ہی بات بار بار کی جاتی ہے کہ عمران خان ایک ایماندار اور انسانیت کا دکھ رکھنے والے انسان ہیں، اگر اس مفروضے کو مان بھی لیا جائے تو بھی عمران خان اس بُڑھیا کی طرح کے ایماندار اور رحمدل ہیں جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔
ملک چلانے کے لیے جہاں ایمانداری کی ضرورت ہوتی ہوگی وہیں بےشمار اور چیزیں ہیں جنکی بے پناہ ضرورت ہوتی ہے۔
ایک سادہ سی بات ہے کہ اگر آپ یہ سوچیں کہ کسی بھی گھر کے فنانشل معاملات چلانے کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے؟ تو چند موٹی موٹی چیزیں آپکے دماغ میں کیا آتی ہیں کہ گھر کے مالک کو کہیں نوکری تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اگر نہیں تو کوئی کاروبار کرنے کی ترکیب سوچنی چاہیے، یا تیسری، بدترین اور آخری آپشن یہ ہے کہ وہ کسی سے امداد یا قرض لے لے، ان تینوں صورتوں کو میٹریالائز کرنے کے لیے آپ میں ایک کوالٹی ہونی ضروری ہے وہ ہیں اچھے تعلقات کیونکہ نوکری کا حصول جہاں ٹیلنٹ کی ڈیمانڈ کرتا ہے وہیں آپکی ریلیشنگ بھی اچھی ہونی چاہیے آپ اگر نیٹ ورکنگ نہیں کر سکتے تو یقین جانیں آپکو اچھی نوکری ملنا آج کی دنیا میں تقریباً نہ ممکن ہے، کاروبار کی بات کریں تو یہ تو بدمزاج اور اکھڑ آدمی کا کام ہے ہی نہیں، بدتمیزی تو ایک طرف دوکاندار اگر فیور نہیں دے سکتا تو وہ کامیاب کاروبار نہیں چلا سکتا۔ کاروبار کرنے کے لیے بھتے، تحفے، رشوت، ادھار اور ماتحتوں کی چوری چکاری سمیت نہ جانے کیا کیا کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اور آخر میں رہ گئی امداد یا ادھار تو وہ تو ہے ہی تعلقات کی گیم کیونکہ امداد یا ادھار دونوں فیورز ہیں اور فیور کا حصول تعلقات کا متقاضی ہے
اب آئیے ذرا مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں خان صاحب کی شخصیت کا ایک مختصر جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں
جاب کی تو خان کو کبھی ضرورت ہی نہیں تھی جب کرکٹ کھیلتے تھے تو کسی حد تک وہ ایک نوکری ہی تھی لیکن انکے اپنے بقول وہ کبھی بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کے قابو میں نہیں رہے اور انکے اپنے بقول انہوں نے وہی کیا جو انکو ٹھیک لگا نہ کہ وہ جو بورڈ کی پالیسی تھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انہوں نے صرف اسکو کھیلنے دیا جس نے انکی بات مانی اور جو انکی بات نہیں مانتا تھا انہوں نے اسکا کئیریر نہیں چلنے دیا۔
کاروبار انکو چھو کر نہیں گزرا ہاں جہانگیر ترین اور علیم خان نے کئی بار چھوا ہوگا۔۔
اب آئیے فیور یا ادھار کی جانب فیور تو بھول جائیں ادھار کی صورتحال یہ ہے کہ ہم نے جس دن سے ہوش سنبھالا ہے کبھی نہیں سنا کہ پاکستان کو قرضہ نہیں مل رہا کبھی ہم نے کسی وزیر خزانہ کو ایسے جاتے ہوئے نہیں دیکھا جیسے فنانشل جینئس اسد عمر رخصت ہوئے ہیں۔
اور آخر میں رہ گئی ایمانداری تو جس آدمی کا طرہ امتیاز ہی یوٹرن یعنی اپنی کہی ہوئی بات سے مکر جانا ہو اور وہ یو ٹرن کی پالیسی کو ڈیفنڈ بھی کرتا ہو تو وہ کس سطح کا ایمان دار ہو سکتا ہے یہ فیصلہ آپ آسمانی صحیفوں میں درج ہدایات کی روشنی میں اہل علم سے کرا لیجیے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں