مڈل کلاسیوں کی کنفیوز دنیا/یاسر جواد

ہم نے ٹیپوسلطان کے اپنے گُن گائے اور آخری مغلیہ بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دردناک انجام کی اتنی کہانیاں بیان کیں کہ اپنی شناخت ہی بھول گئے (اگر کوئی تھی)۔ ہم نے بلوچوں کو اتنا تنگ کیا کہ ہمارے پاس طریقے کم پڑ گئے۔ ادیب اور شاعر مہدی حسن اور فریدہ خانم کی محفلوں میں غزلیں سنتے سنتے اُٹھ کر مذہبی کانفرنسوں میں جا بیٹھے۔ اقلیتوں کو تحفظ دینے کے دعوے داروں نے اقلیتیں ہی ختم کر ڈالیں۔

 

 

 

یہ سب شہری مڈل کلاس کے آئیڈیل ہیں۔ اعلیٰ مصنوعی طبقے کو کسی ٹیپو سلطان کی بھی کیا ضرورت؟ اُنھیں کیا لگے کسی مذہبی یا قومی وابستگی سے۔ زیریں طبقے نے کیا بات کرنی ہے آرٹ اور کلچر کی، تاریخ و فلسفہ کی، موسیقی اور عقیدے کی!

مڈل کلاس کے آئیڈیل اپنے اندر ہی بنیادی تضاد لیے ہوتے ہیں۔ یہ اپنی ہی تردید کرتے ہیں۔ اِنھیں سرمایہ دارانہ طبقے سے نفرت کے باوجود اپنے گھر میں بالکل اُن جیسے ماحول چاہیے: اٹیچ باتھ، گرم پانی کا مکمل انتظام، ڈائننگ ٹیبل، کتابوں کی الماری سے بڑا ٹی وی، سکھائی ہوئی کالی توری کی بجائے لُوفا، گاہے بگاہے پیزا، وغیرہ۔ مگر ساری اخلاقیات بھی اِن کے ذمے ہے، اور یہ اخلاقیات سے بھاگنا بھی چاہتے ہیں۔ ساری آزادیاں اِنھیں اپنی رکھیل کے طور پر چاہئیں تاکہ جب چاہیں ان کے ساتھ کھلواڑ کر سکیں۔

مڈل کلاسیے انفرادیت کی بات کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ خاندانی نظام کا تقدس بھی جتاتے ہیں۔ اِنھیں جنسی آزادی اور کہیں کہیں ڈانس کلب بھی چاہئیں اور سارے عرب عقائد کا بوجھ بھی اِنھوں نے ہی اُٹھا رکھا ہے۔ ان سے زیادہ کنفیوز کوئی طبقہ نہیں۔ بلکہ اِنھیں طبقہ بھی نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ جو گروہ منظم نہ ہو اور نمائندگی نہ رکھتا ہو، اُسے طبقہ کہنا درست نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ سب کچھ unlearn کیے اور کھول کر دیکھے بغیر اِس سے نجات ممکن نہیں۔ ورنہ ہم جتنا مرضی کارل سیگان، سیمون دی بووا، ول ڈیورانٹ اور کیرن آرم سٹرانگ پڑھ لیں، وہ ہماری کنڈوم نما چکنی جلد سے پھسل جائے گا۔ کچھ نیا سیکھنا تب تک ممکن نہیں جب تک پرانے کو کھرچ کر اُتار نہ پھینکا جائے۔ کسی ٹیپو سلطان اور غزنوی اور ابدالی کے تاریخی کچرے میں کون سی دانش کے پھول کھل سکتے ہیں؟ باقی باتیں آپ خود سمجھ جائیں۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply