پاکستانی ریاست کا نظریاتی سراب۔۔سیدہ ہما شہزادی

کتاب کے سرورق سے شروع ہونے والا سراب جس کی کہانی میں ہر رنگ اپنا وجود منوانے سے قاصر نظر آتا ہے بالکل اسی طرح جیسے پاکستانی ریاست میں بہت سے وجود اپنی شناخت کے اظہار سے قاصر ہیں رنگوں کی کہانی میں یہ سراب اور زیادہ پیچیدہ معلوم ہوتا ہے جس میں مسلسل مختلف رنگوں کے درمیان ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی جنگ جاری رہتی ہے۔

سرورق پر رنگوں کی شکل میں بکھرا یہ سراب اپنے سینے پر زرد رنگ میں  بعنوان” پاکستانی ریاست کا نظریاتی سراب” کی دہائی دے رہا ہے۔ کتاب کے اندر ہر طرف متن کی صورت میں نظریاتی سراب کا نوحہ اس طرح درج ہے، کہ قاری ہر تہہ کو الگ کرتے ہوئے سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور ان جڑوں تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے جو موجودہ صورتحال کی بنیادی وجہ ہیں۔

اس منظر نامے کو تشکیل دینے کے لیے شخصیات کو تاریخ اور تاریخ کو شخصیات کی مدد سے دستاویزات کا حصہ بنایا گیا ہے اور بعض ایسی شخصیات جن کی دھندلی تصویر تاریخ کا حصہ ہے، ان کے دھندلے نقوش کو پورے سیاق و سباق سے شفاف انداز میں دکھایا گیا ہے۔ یہاں پاکستانی ریاست کے وجود میں آنے سے قبل اور مابعد صورتحال کو جس وسیع تناظر میں پیش کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے یہی وجہ ہے کہ کتاب کے ہر صفحے کی پڑھت کے بعد کئی ابہام دم توڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ دھوئیں کے بادل جو تاریخ میں خودساختہ طور پر تخلیق کیے گئے بلکہ یوں کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ اپنے مفادات کی خاطر ہر صاحب اقتدار نے جن دھوئیں کے بادلوں کا سہارا لیا اعجاز احمد نے ان سب کو بے نقاب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

استعمار کا سب سے بڑا ہتھکنڈا جس کو وہ ہمیشہ سے اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرتا رہا، وہ کسی بھی قوم کا تاریخی و سیاسی شعور ختم کرنا یعنی کہ محکوم آبادی کو صرف لمحہ موجود میں سوچنے تک محدود کیا جاتا ہے۔اس عمل کو تاریخی نسیان بھی کہا جاتا ہے جب بھی کوئی قوم تاریخی نسیان کا شکار ہوجاتی ہے تو اس کے پاس تاریخ محض واقعات پر مبنی ہوتی ہے وہاں پر ہر ہونے والا عمل صرف ایک واقعے کی اہمیت رکھتا ہے وہ واقعہ جس کو اگلے چند دنوں میں فراموش کر دیا جاتا ہے پاکستان بننے کے بعد استعماری طاقتوں سے بظاہر چھٹکارا حاصل کر لیا گیا لیکن ان کی حکمت عملیوں کو اپنے مفاد کی خاطر چنداہل اقتدار نے جاری رکھا، اور وہ تاریخی نسیان جو نوآبادیاتی عہد میں شروع ہوا تھا اب اپنے عروج پر ہے آج ہر فرد کی اپنی تاریخ ہے موجودہ دور کا فرد لمحہ موجود میں رہتا ہے اسے تاریخ اور تاریخی عمل سے کوئی دلچسپی نہیں اپنے سامنے ہونے والے عمل کو تاریخ میں رکھ کر دیکھنے کی عملی کوشش سے قاصر ہے۔ علمِ  سماجیات کا ایک اصول ہے جس کے تحت سماج میں ہونے والے عمل کی کھوج سماج کے ذریعے سے ہی لگائی جاتی ہے اس عمل کے پس پردہ محرکات کی جڑوں کو سماج میں تلاش کیا جاتا ہے۔ پاکستان بننے سے قبل اور موجودہ وقت تک کبھی کسی نے یہ زحمت کی ہی نہیں کہ  اس لمبے اور تھکا دینے والے سفر کی جڑوں کو تلاش کیا جائے اگر کوئی کوشش سامنے آئی بھی تواُس کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، اس سوچ کے پیچھے بھی کئی عوامل کار فرما تھے جن کو یہ ڈر ہے کہ اصل حقائق سامنے نہ آ جائیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ مغالطوں کا مجموعہ ہے۔ایسے حالات میں احمد اعجاز کی کتاب تازہ ہوا کا جھونکا ہے اس ہوا کا جھونکا جس کو ڈاکٹر مبارک علی ،حمزہ علوی، روبینہ سہگل ،ڈاکٹر سید جعفر احمد اور حسن عابدی جیسے لوگوں نے اپنے قلم سے جلا بخشی یہی وجہ ہے کہ مختلف ادوار میں کچھ لوگ جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اپنے قلم سے حقائق کا سینہ چاک کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اور مکالمے کی ایسی فضا پیدا کرتے ہیں کہ جو اپنے طور پر ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے غالب خیال یہی تھا کہ یہ بھی مختلف ادوار میں لکھی جانے والی اُن چند کتابوں کی ہی ایک کڑی ہوگی لیکن کتاب کے ہر صفحے کے مطالعے کے بعد یہ رائے دم توڑتی گئی، جس تحقیقی اور تنقیدی انداز میں تاریخی واقعات کا احاطہ کیا گیا تھا مجھے ایک لمحے کے لیے ایسا محسوس ہوا کہ یہ تحریر ایک ماہر سماجیات کی ہے جو واقعات کی جڑوں کو سماجی حوالے سے جاننے اور پرکھنے کا عادی ہے۔ جس تاریخی اور سیاسی شعور کا اظہار مصنف کی طرف سے اس کتاب کی صورت میں کیا گیا ہے وہ بھی قابل تحسین ہے مجھے بطور قاری کسی بھی جگہ یہ محسوس نہیں ہوا کہ مصنف کی اپنی پسندیدگی کیا ہے؟ وہ کس جماعت کا حامی ہے؟ وہ کس نظریے سے تعلق رکھتا ہے؟ اور وہ کس نظام کو دل کے قریب محسوس کرتا ہے؟ یہ کتاب اس حوالے سے بھی اہم ہے کے اس میں ہمیشہ کی طرح مسائل پر بات نہیں کی گئی جو کہ ہمارے ہاں لکھنے والوں کا وطیرہ ہے بلکہ اس متن میں وجوہات کو ہدف بنایا گیا ہے ہر عمل میں پوشیدہ مفادات اور جڑوں کو ممکن حد تک تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو اس عمل کے اظہار کی وجہ بنی ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں سماج، تقسیم، ریاست، شناخت ،فرقہ واریت ،طبقاتی تقسیم، مذہبی شدت پسندی، تعلیمی صورتحال ، دہشتگردی، غربت، نصاب، ثقافت، بادشاہت، آمریت، جمہوریت، سیاسی سرگرمیوں، ریاستی پالیسی ، تقسیم بنگال ،زبان اور اس جیسے کئی موضوعات کو 1947 سے پہلے اور موجودہ صورتحال سے جوڑ کرنئے حقائق کو کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے اس کتاب کی ٹائمنگ بھی اپنے طور پر ایک اہم بات ہے یہ اتفاق ہوسکتا ہے لیکن اسے حسین اتفاق کا نام دیا جائے تو بےجا نہ ہوگا جب خطے میں سیاسی صورت حال یکسر بدل چکی ہے امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا اور طالبان کی حکومت ان سب حالات میں اس کتاب کی معنویت دوگنی دکھائی دیتی ہے۔

کتاب میں ایک جگہ مصنف نے جس صورت حال کی عکاسی کی ہے وہ آج بھی قدرے مختلف شکل میں موجود ہے.

“اس وقت برصغیر کے عام لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ طاقت کی راہداریوں میں کیا چل رہا ہے عقیدت مند اپنے پیر کے حق میں نعرے لگا رہے ہو ں  یا اُس کی فتح پر خوش ہو رہے ہوں تو اُن کے نعروں اور خوشی کو تمام لوگوں کے  نعروں اور خوشی سے نہیں جوڑا جاسکتا۔”

(پاکستانی ریاست کا نظریاتی سراب ص 25)

اب ان لائنوں کو جس دور میں مرضی فٹ کر لیں اور نتائج برآمد کرلیں ۔یہ وہ فارمولا ہے جو عام عوام کے لیے ہے جس سے آج بھی ان کو پرکھا جاسکتا ہے کہ  جس کو معلوم ہی نہیں کہ  طاقت کی راہداریوں میں کیا ہو رہا ہے۔

آج کا فرد بھی اُسی جگہ کھڑا ہے جہاں آج سے 70 سال پہلے کا فرد کھڑا تھا اُسے اپنے حقوق کا شعور ہی نہیں اور نہ ہی لینے دیا گیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ اور خصوصا ًموجودہ دور میں افراد کے درمیان تعلقات کمزور اور برائے نام ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں منفی جذبات جلد پروان چڑھتے ہیں اور اس ساری صورتحال کے پیچھے ریاست کی وہ ناکام پالیسیاں ہیں جس سے انسانوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا گیا ہے یہاں کے لوگ جذباتی سطح پر زندگی بسر کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج تک اس ریاست کے باشندے گروہوں کی صورت میں موجود ہیں اور اس طرح کسی بھی واقعے کو جذباتی رنگ دے کر گروہ کو اشتعال میں لایا جا سکتا ہے ایسے اشتعال پر مبنی واقعات سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے اس طرح کے ماحول میں سوال اٹھانے اور خرد افروزی کے کلچر کو پروان چڑھانے کے خواب دیکھنے جیسے خیالات کو شیخ چلی کے خوابوں سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

یہاں آنے والی نسلوں کو پڑھایا جانے والا نصاب فکری وسعت کی جگہ انتہاپسندی کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہو رہا ہے جس کا ذکر مصنف نے بڑے مدلل انداز میں صفحہ نمبر 143 پر کیا ہے کتاب کے آخر میں مصنف نے مختلف تاریخوں میں ہونے والے جن واقعات کا ذکر کیا یہ وہ کیسز ہیں جن کی کڑیاں ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں لیکن ہمارے لیے یہ محض واقعات ہیں جو چند روز تک ٹی وی اسکرین کی زینت بنتے ہیں اور اس کے بعد علم ہی نہیں کہ تاریخ کے کون سے گوشے میں محفوظ ہو جاتے ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی ان کی کھوج لگانے کی کوشش نہیں کرتا حالانکہ اگر ان واقعات کو تاریخی تناظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو یہ وہ ثمرات ہیں جن کے بیج پچھلے کئی سالوں میں ہم نے بوئے تھے اور پھر ان کو نظریاتی سراب کا پانی دے کر پروان چڑھایا اور آج ان کے ثمرات ان واقعات کی صورت میں بھگت رہے ہیں ۔

لال مسجد واقعہ، قبر بگٹی حملہ واقعہ، ملالہ یوسف زئی واقعہ ،سلمان تاثیر واقعہ، آرمی پبلک اسکول پشاور واقعہ، مشال خان واقعہ ایسے واقعات ہیں جنہوں نے بگاڑ میں مزید بگاڑ پیدا کیا جس سے سماج میں انتہا پسندی، دہشت گردی ، خوف ،ابہام ،غیر یقینی اور تقسیم کو بڑھاوا ملا جس کے بعد پاکستانی سماج فرد اور ہجوم کے فیصلوں اور اختیارات کے تسلط میں چلا گیا اور موجودہ ریاست ایسا ہی منظر نامہ پیش کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے جہاں ہجوم عصمت دری سے لے کر ہر وہ عمل سرانجام دے رہا ہے جس سے ریاست کی جڑیں کمزور ہو رہی ہیں حالات کی اس قدر خرابی ہمیں فکری سطح پر جھنجھوڑتی ہے کہ ماضی سے نہ سیکھنے کی وجہ حال کا تباہ ہونا ہے

اب وقت آگیا ہے ساحل کو چھوڑ کر

گہرے سمندروں میں اتر جانا چاہیے

اعجاز احمد جیسے دانشور تو ہمیں آئینہ دکھاتے رہیں گے لیکن ہمیں اپنی روش بدل کر ماضی سے سیکھنا ہوگا حال کو درست کرنا ہوگا اور مستقبل کے لئے بہترین حکمت عملی اپنانی ہوگی تبھی ہم ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

Advertisements
julia rana solicitors

احمد اعجاز نے جو شمع قلم کے ذریعے جلائی ہے اس کی روشنی سے اگلی نسلیں بھی فیض یاب ہوتی دکھائی دیتی ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply