کوانٹم سے آگے (12) ۔ ہر شے کی تھیوری؟/وہاراامباکر

فزکس کا مقصد نیچر کے سب سے جنرل قوانین کی تلاش ہے۔ کوانٹم مکینکس کسی بھی سائنسی تھیوری کے مقابلے میں فطری مظاہر کی وسیع ترین رینج کو کامیابی سے بیان کرتی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ اس پر حد بھی لگاتی ہے کہ کسی فینامینا کے بارے میں کیا پوچھا جا سکتا ہے۔
اس میں سے ایک قسم کی حد کو تو ہم دیکھ چکے ہیں کہ کسی سسٹم کے مستقبل کی پریسائز پیشگوئی کے لئے ہمیں جو درکار ہے، ہم اس کا صرف نصف جان سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور حد ہے جو کوانٹم تھیوری کی رینج کو طے کرتی ہے۔ اس کو سب سسٹم کا اصول کہا جا سکتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ
“جس بھی سسٹم پر کوانٹم مکینکس کا اطلاق کیا جانا ہے، اس کے لئے ایک بڑے سسٹم کا جزوی سسٹم ہونا لازمی ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوانٹم مکینکس صرف ان فزیکل خاصیتوں کی بات کرتی ہے جن کی پیمائشی آلات سے پیمائش کی جاتی ہے اور یہ آلات خود زیرِ مطالعہ سسٹم سے “باہر” ہوتے ہیں۔ اور ان پیمائشوں کو ریکارڈ کرنے والے آبزرور بھی زیرِمطالعہ سسٹم کا حصہ نہیں ہوتے۔
زیادہ تر لوگ سائنس سے ایک سادہ توقع رکھتے ہیں کہ یہ ہمیں رئیلیٹی کا بتاتی ہے۔ اور یہاں پر ہم جان بیل کی اختراع کردہ اصلاح کا استعمال کریں گے۔ کسی سسٹم کی real خاصیت کو جان بیل beable کہتے ہیں۔ یہ اصطلاح ایک اور اصطلاح کے مقابلے میں بنائی گئی تھی، جو observable کی ہے۔
رئیلزم اور اینٹی رئیلزم کے درمیان تفریق اسی بنا پر ہے۔ ان کا مطلب کیا ہے؟
آبزرویبل ایک تجربے یا مشاہدے سے ملنے والی مقدار ہے۔ کیا آبزرویبل کا وجود پیمائش سے پہلے بھی تھا یا اس کی کوئی ویلیو تھی؟ اینٹی رئیلیسٹ کا ماننا ہے کہ “نہیں”۔ جبکہ جان بیل (جو رئیلسٹ ہیں) کا ماننا ہے کہ پیمائش نہ کی جائے، تب بھی یہ موجود ہیں اور اس لئے وہ بی ایبل کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیند یا توپ کے گولے پرندے یا مکھیوں کی سائنسی وضاحت ہم بی ایبل کے طور پر ہی کرتے ہیں۔
لیکن کوانٹم مکینکس میں نہیں! ہائزنبرگ اور بوہر کی یہی بصیرت تھی، اور اصرار تھا کہ کوانٹم مکینکس ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ “کیا ہے؟” بلکہ یہ کہ “کیا مشاہدہ ہوا ہے؟”۔ اور ان کے مطابق کوانٹم دنیا میں بی ایبل کی بات کرنا بے کار ہے۔
ایٹم کے آبزرویبل کی پیمائش کے لئے ہم ایک بڑا آلہ استعمال کرتے ہیں اور خود اپنی تعریف کے مطابق یہ آبزرویبل کے سسٹم کا حصہ نہیں اور نہ ہی آبزرور اس کا حصہ ہے۔
اس لئے کوانٹم مکینکس کی زبان میں، زیرِمطالعہ سسٹم کو ایک بڑے سسٹم کا حصہ ہونا ہے جس بڑے میں آبزرور اور اس کے پیمائشی آلات دونوں شامل ہیں۔ اس لئے یہ سب سسٹم کا اصول ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کوانٹم مکینکس کا اطلاق ایٹم یا مالیکیول یا دوسرے ننھے منے سسٹمز پر ہوتا ہے جہاں ایسی حد غیرمتعلق ہے۔ سوال یہ کہ اس کی اہمیت کہاں پر ہے؟
ہم یقیناً یہ خواہش رکھتے یہ ہم کُل کائنات کی وضاحت کر سکیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سائنس کا آخری مقصد یہی ہے۔ اور یہاں پر یہ والا مسئلہ ہے۔ کائنات، بطورِ کُل، اپنی ڈیفی نیشن کے مطابق ہی، کسی بڑے سسٹم کا حصہ نہیں ہے۔ سب سسٹم کا یہ اصول کائنات کے بارے میں تھیوری کی امید کے آگے رکاوٹ ہے۔
یہ ایک باریک لیکن اہم نکتہ ہے۔ کوانٹم مکینکس تھیوری آف ایوری تھنگ نہیں۔ ایسی امید کی جا سکتی ہے کہ اس کو آگے بڑھا کر ایسی تھیوری بنائی جا سکے جس کا اطلاق مکمل کائنات پر ہوتا ہو لیکن کوانٹم تھیوری کا اطلاق کائنات پر نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اس صورت میں ہم، یعنی آبزرور، اور ہمارے آلات خود اس سسٹم کا حصہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پچھلی صدی میں کوانٹم مکینکس کا کائنات پر اطلاق کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں جو تمام ناکام رہی ہیں۔
ایک وجہ تو اس میں ہونے والے سیلف ریفرنس کی ہے لیکن اس سے گہرے مسائل ہیں۔ ایسی تھیوری جو کائنات کی وضاحت کرے، اسے موجودہ فزیکل تھیوریز، بشمول کوانٹم مکینکس، سے کئی مقامات پر مختلف پہلو رکھنے ہیں۔ اس وقت ہماری کور تھیوریز کائنات کے صرف کسی حصے کی وضاحت کرنے کی طاقت رکھتی ہیں۔
ابھی کے لئے ہم کاسمولوجی کو ایک طرف رکھ کے کچھ دوسرے پہلووٗں کی طرف چلتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply