خلیل الرحمان قمر کو معاف کیجیے۔۔ذیشان نور خلجی

موسم بہت رومان پرور تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ اب سال بھر بعد ہی ایسے حسین دن لوٹیں گے۔ سو روٹین کچھ ایسی رہی رات جو محفل جمتی تو صبح آتے آتے ہی ختم ہوتی۔ سارے معاملات ہی ڈسٹرب ہو چکے تھے۔ اخبارات کا پلندہ یوں سائیڈ ٹیبل پہ پڑا رہتا جیسے ایجنسی کے باقی بچ جانے والے اخبارات واپس بھیجنے ہوں۔ شام کو کبھی خبر نامہ دیکھ لیا اور باری آنے پہ کالم بھگتا لیا۔

آج کچھ فراغت ملی تو سوچا کہ پرانے حساب چکتا کرتا چلوں یعنی پچھلے کالمز بھی پڑھ لوں۔ لیکن یہ کیا، ادھر تو لٹیا ہی ڈوبی پڑی ہے۔ کہیں یہ لٹیا ڈوبنے کے لئے ہی تو نہیں ہوتی ؟
قلم برادری کے بڑے بڑے نام خلیل الرحمان قمر کے خلاف ہزیاں بک رہے ہیں۔ ٹھیک ہے آپ کے نزدیک خلیل الرحمان قمر یاوہ گو ہی ہوں گے۔ کم علم جو ٹھہرے۔ لیکن آپ کیوں سائیں گھوڑے شاہ کے ٹٹو کی طرح منہ سے رالیں بہاتے ہوئے، باؤلے ہوئے جا رہے ہیں؟
خلیل الرحمن قمر ایک کامیاب پلے رائٹر کے طور پر ابھرے ہیں۔ ان کی کامیابی کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ ڈرامہ تو اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ لیکن ہم جیسے لوگ ان کا تذکرہ کرتے مرے جا رہے ہیں۔

قارئین ! آپس کی بات ہے ایسے ‘کُومے دان’ رائٹرز کی گل افشانیوں سے مجھے اپنی رام کہانی یاد آنے لگی ہے۔ جب کبھی اپنے کالم پہ کسی کی رائے دیکھتا ہوں تو عمومی بات ہے دل خوش ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بچہ سا دل تب باغ باغ ہوا جاتا ہے جب رائے کے طور پر کوئی گالیوں سے نوازتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ میرے پوچھے بغیر مقابل نے اپنی نسل ظاہر کر دی۔ اور نہ ہی اس لئے، کہ اُس غریب ذہن کے پاس اتنی استعداد نہیں کہ جواب آں غزل کے طور پر ایک چھوٹی موٹی تحریر لکھ سکے۔ بلکہ اس لئے کہ اُس کے پاس تو اتنی تعداد میں گالیاں بھی نہیں ہیں کہ کانٹ چھانٹ کے، سات آٹھ سو الفاظ کا مجموعہ بنا سکے۔

یہی حال آج کل ان ننھے خاں قسم کے رائٹرز کا بنا ہوا ہے۔ جو ویسے تو اخلاقیات کا درس دیتے نہیں تھکتے۔ لیکن جب اپنی دم پہ پاؤں آتا ہے تو اصلیت ظاہر کر دیتے ہیں۔ مجھے ان کی حالت پہ افسوس نہیں ہوتا۔ بلکہ اپنی بے وقوفی پہ ہنسی آتی ہے۔ کہ میں جن سے متاثر ہوا وہ تو یوسف کی بجائے ‘جوسف’ نکلے۔ کھودا پہاڑ نکلا چوہا وہ بھی ‘مویا’ ہوا۔ حالانکہ ان کی دم پہ تو پاؤں بھی نہیں آیا۔ وہ تو اس صورت میں آتا کہ کوئی دو چار فلاپ ڈراموں کے تمغے ان کے سینے پہ بھی سجے ہوتے۔ اور ان کا نام بھی شہید ڈرامہ نگاروں کی لسٹ میں آتا۔

میرے پیٹی بھائیو ! اگر آپ اتنے ہی قابل ہو تو اس طعن و تشنیع کی روش کو چھوڑو۔ کہ ایسے ملفوظات ایک دس ‘جماعتاں’ فیل بندہ بھی آپ سے بہتر طور پر ادا کر سکتا ہے۔ اور “میرے پاس تم ہو” کے جیسا ایک آدھ نکما سا ڈرامہ لکھ مارو۔ کون سا مشکل ہے۔ نکما ہی تو لکھنا ہے۔ اس میں علم و فضل کے دریا تھوڑی بہانے ہیں۔ (لیکن ہم اس قابل ہوتے تو زہر تھوڑی اگلتے)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرا خیال ہے خلیل الرحمان قمر واقعی عورتوں کے حقوق دبائے بیٹھے ہیں۔ کیوں کہ فیمینسٹ عورتوں کے ان سے گلے ختم ہونے کو نہیں آرہے۔ لیکن یہ بڑے بڑے جغادری قسم کے مردانہ رائٹرز جب ان کی ذات پہ طنز کے تیر برساتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے یہ بھی ‘زنانیاں’ ہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے ‘ونگیں’ نہیں چڑھائی ہوئیں۔ تو ان کو مشورہ ہے اگر چوڑیاں پہن لیں تو ان کی آواز بھی دور تلک سنی جائے گی کہ لیڈیز فرسٹ کا اصول ہمارے ہاں بہت مقبول ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply