• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • دوصد صفحا ت پر مشتمل انٹرویو سے ایک اقتباس(حصہ اوّل)۔۔۔۔شرکا۔ ضیاء مرحوم اور ستیہ پال آنند

دوصد صفحا ت پر مشتمل انٹرویو سے ایک اقتباس(حصہ اوّل)۔۔۔۔شرکا۔ ضیاء مرحوم اور ستیہ پال آنند

ضیاء :غزل رسم تو نہیں کہ مٹائی جا سکے ، اگر یہ’’ تخلیقی تاریخ‘‘ کا درجہ حاصل کر چکی ہے تو اس کی مادر زاد ’’عصمت ‘‘ کو برقرار رہنا چایئے ۔
آنند: کون کمبخت کہتا ہے کہ غزل کو مٹا دینا چاہیے۔ کم از کم میں تو نہیں کہتا۔ جوش ملیح آبادی نے تو خود بھی غزلیں کہی ہیں۔ ہاں، کلیم الدین احمد ، جنہوں نے غزل کو ’نیم وحشی ‘ صنف سخن کہا تھا ایک سخت گیر نقاد تھے اور حالانکہ میری طرح ہی مغربی ادب ان کی گھٹّی میں پڑا ہوا تھا، وہ بھی اس نیم وحشی صنف کوکسی چڑیا گھر میں یا میوزیم میں رکھنے کے قائل تھے، تا کہ سند رہے۔ میں البتہ خود غزلیں کہتا ہوں۔ پنجابی (گورمکھی رسم الخط) میں جالندھر کے دیپک پبلشرز سے چھپی ہوئی میری غزلوں کی دو کتابیں ہیں۔ ’’غزل غزل دریا‘‘ اور ’’غزل غزل ساگر‘‘ جن میں دو سو غزلیں شامل ہیں۔ ہندی میں نئی غزل کو مقبول بنانے میں جہاں دشینت کمار Dushyant Kumar کا نام سر ِ فہرست ہے، وہاں میرا نام بھی لیا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ پنجابی اور ہندی دونوں زبانوں میں غزل نا پید تھی، اور ان دو زبانوں کو اردو کے قریب تر لانے کا ایک واحد طریقہ یہی تھا کہ ان میں صنف غزل کو متعارف کروایا جائے۔ کوئی دیگر صنف شعر تھی ہی نہیں اردو کے پاس جسے ان دو زبانوں میں پیش کر کے کہا جاتا کہ دیکھو، یہ ہے اردو ، اس سے دشمنی یا رقابت مت رکھو، اس کے قریب آؤ۔ ہندی میں ہم دونوں کی تحریک چل نکلی اور آج تک چلتی چلی جا رہی ہے، لیکن پنجابی (گورمکھی رسم الخط) میں نہیں چل سکی۔ میں خود توچالیس برس پہلے انڈیا چھوڑ کر دساور روانہ ہو گیا اور اردو کو پنجاب (انڈیا) سے دیس نکالا دے کر پنجابی اور ہندی کے لیے جگہ بنا لی گئی، اس لیے پنجابی میں غزل کا پنپنا مشکوک ہو گیا۔( اب انڈین پنجابی میں صرف نثری نظم لکھی جا رہی ہے۔ )
تو، حضور، میں غزل کی گردن مارنے کے حق میں نہیں ہوں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ غزل اپنا کچھ علاقہ خالی کر دے جو اس نے ہتھیا رکھا ہے۔کسی بھی رسالے کو اٹھا کر دیکھ لیں، جہاں چھ  سات یا آٹھ دس نظمیں ہوں گی، وہاں قطار اند ر قطار غزلیات دکھائی دیں گی، ایک سے ایک بڑھ کر روائتی اور ٹھس۔ کہیں کوئی ایک شعر نظر کو ایک لمحے کے لیے گرفت میں لے گا تو بھی دوسرے لمحے اس سے اگلے شعر کو دیکھ کر طبیعت مکدر ہو جائے گی۔

ضیاء :کیا موسیقی کا بہت سا بلکہ اغلب حصہ غزل ، رثا ، اور موزون و مقٖیٰ شاعری پر نہیں ؟ اگر ہے تو غزل کی نیستی کی دعوت خود موسیقی کی ہلاکت کی ترغیب نہ ہوگی ۔۔۔؟
آنند: جی ہاں اور جی نہیں۔’’ موسیقی کا بہت سا حصہ بلکہ اغلب حصہ‘‘ غزل پر انحصار نہیں رکھتا۔غزل کی گائیکی تو بیسویں صدی کے شروع میں معرض ِ وجود میں آئی۔ اس سے پہلے تو اس کا چلن صرف طوائفوں کے کوٹھوں پر تھا۔ ماسٹر مدن یا سہگل سے پہلے کون سے بڑے نام تھے جنہوں نے غزل کی گائیکی کو عوام تک پہنچایا ہو؟ خواتین گانے والیاں سبھی بیسویں صدی کی مخلوق ہیں اور پرانے ریکارڈ (جنہیں پنجابی میں ان کے سیاہ رنگ اور گولائی کی وجہ سے ’’توا‘‘ کہتے تھے) 1920کے لگ بھگ وارد ہوئے۔
جی نہیں، خود کو دہرا رہا ہوں۔ موسیقی کا بہت سا حصہ بلکہ اغلب حصہ غزل پر انحصار نہیں رکھتا۔ بالکل نہیں رکھتا۔ ہندوستان بھر میں کلاسیکی اور نیم کلاسیکی اور ہلکی Classical, semi classical and soft songs موجود تھے۔ پنجاب میں لوک دھنوں پر اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں’ گیت گائیکی‘ کا دور دورہ تھا۔ غزل گائیکی کہاں تھی اس وقت؟ بنگال نے سب سے زیادہ لوک دھُنیں ہندوستانی گائیکی کو دیں، اور اب تو فلموں نے مغرب کی نقالی میں، راک میوزک پر، معانی سے خارج اور تسلسل سے معرا الفاظ جڑ کر جو موسیقی پیش کی ہے، اس سے تو اللہ ہی بچائے! یہ تو غزل کے رکھ رکھائو سے کروڑوں میل دور ہے۔ جی نہیں، قبلہ، آپ کا قیاس صحیح نہیں ہے، معافی چاہتا ہوں۔

 ضیا ء : نظم کی نسبت ’’فنی صنف ‘‘ کہلانے کی صلاحیت غزل میں زیادہ نہیں کیا؟
آنند: ایک اورفرضی ، غیر یقینی اور استثنائی مفروضہ ہے یہ، حضور! غزل بحور و اوزان، قافیہ و ردیف، زمین، مطلع و مقطع، آہنگ، ارکان، زحافات، صنائع و بدائع، سجع، خیال بندی، معاملہ بندی، تغزل ۔۔۔ الاماں!کتنی زنجیروں میں جکڑی ہوئی یہ نازک سی پری ؟ اب تو یہ نایئکہ زیادہ اور طوائف کم دکھائی دینے لگی ہے۔لیکن ’فن‘ کی آزادی اور پابندی کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اس میں پابندی زیادہ ہے اور آزادی کم۔
اس پر طرّہ یہ ہے کہ ہم نے عروض فارسی سے مستعار لے کر اس صننف کو ایسے جکڑ بند کر دیا ہے کہ جملوں کی تراش خراش (جو خالصتاً ہندوی ہے ) جہاں کہیں بھی فارسی جملے کی تراش خراش سے لگّا نہیں کھاتی، وہاں عجیب الخلقت دوغلے شعری اجسام دکھائی دیتے ہیں۔ میں کچھ ایک باتیں آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اولاً تو فارسی عروض ہی ہے، جس کے اردو جملہ سازی پر اطلاق کے بارے میں مجھے بہت سے تحفظات ہیں۔ میری یہ تحریر آپ کی خاص توجہ کی محتاج ہے۔
اپنے ادیب فاضل کا کورس پاس کرنے  1952 کے دنوں میں ہی میں نے ’’حدائق البلاغت‘‘ کو جیسے گھول کر پی لیا تھا اور عروض پر میری گرفت استادوں کی طرح تھی۔ ڈاکٹر گوکک سے بات چیت اور ان سے کنّڑا زبان کی شاعری پر عروض کی انضباط کے حوالے سے   ایک بار پھر عربی؍فارسی عروض اور ہندوی جملوں کی ساخت میں ایک ایسی طوائف الملوکی کی سی حالت دیکھی، جو ہر مصرع کی تقطیع میں شکست ِ نا روا کی سی حالت پیدا کرتی تھی۔ میں نے اس بارے میں دو مضامین لکھے۔ ایک نشست میں کچھ دوستوں کو سنائے اور انہوں نے میری تائید بھی کی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ تاریخ کا وہ دھارا جو تین چار صدیوں تک ایک جانب بہہ چکا ہے، لوٹایا نہیں جا سکتا۔امیر خسرو کے حوالے سے کئی اور باتیں ہوئیں اور تاریخ کی اس بے رحم روش پر کئی بار رونا بھی آیا، لیکن ہو بھی کیا سکتا تھا، اس لیے دل مسوس کر رہ گیا۔
چونکہ میں ان دنوں اردو کی آزاد نظم میں طبع آزمائی کر رہا تھا اور ن۔م۔راشد، میرا جی کے علاوہ دیگر اردو شعرا کا بغور مطالعہ کر رہا تھا۔ ڈاکٹر زور ؔکے توسط سے جامعہ عثمانیہ کے کتب خانے سے مجھے کتابیں مل سکتی تھیں، اس لیے میں نے اس موضوع پر اپنے نوٹس سے ایک پوری ڈائری بھر دی۔
ایک خاص موضوع جس پر میں نے عرق ریزی کی حد تک کام کیا ، وہ اردو میں صنف غزل کے منفی اثرات کی وجہ سے آزاد نظم (یعنی بلینک ورس۔۔فری ورس نہیں ، جسے آج کل نثری نظم کہا جاتا ہے ) میں رن ، آن سطروں سے لا تعلقی کا رویّہ تھا۔ طوالت یا اختصار کی بنا پر سطور کی قطع برید بہت پرانی بات نہیں ہے۔ یہاں تک کہ تصدق حسین خالدؔسے چل کر میرا ؔجی اور ن۔م۔راشدؔ تک پہنچ چکنے کے بعد تک، (بلکہ مجید امجدؔ اور اخترؔ الایمان تک) شیوہ یہ رہا کہ اگر ایک سطر بہت طویل ہو گئی ہے اور صفحے کی چوڑائی اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ شاعر اس کو قطع کیے بغیر لکھ سکے، تو ـرن۔آن لائنز کے قاعدے کواس شرط پر بروئے کار لایا جائے کہ باقی کا متن پیوستہ سطر کے وسط سے شروع کیا جائے۔ ایک مثال دے کر اپنی بات واضح کرتا ہوں۔
اے سمندر! پیکر ِ شب، جسم، آوازیں
رگوں میں دوڑتا پھرتا لہو
پتھروں پر سے گزرتے، رقص کی خاطر
اذاں دیتے گئے۔
(ن۔م۔راشد: ’’اے سمندر‘‘)
یہ بحر رمل (فاعلاتن) کی تکرار ہے۔ غور فرمایئے: اے سمندر (فاعلاتن)، پیکر شب (فاعلاتن)، جسم آوا (فاعلاتن)۔۔۔۔[ یہاںاب ’’زیں‘‘ کو رن۔آن کر کے پیوستہ سطر کے ’’رگوں میں‘‘ سے ملا دیا گیا ہے]یعنی ۔۔زیں رگوں میں (فاعلاتن)، دوڑتا پھر (فاعلاتن)، تا لہو (فاعلن) ۔۔گویا سطر کی برید اس لیے کی گئی کہ چھ (۶) فاعلاتن کے بعد ’فاعلن‘ کا اختتامیہ آیا ہے،( جو کہ غزل کا وزن عام طور پر نہیں ہے)۔ لیکن راشد نے یہ تمیز روا رکھی ہے کہ اگررن۔آن لاین کا چلن ضروری ہو گیا ہے تو گذشتہ سے پیوستہ سطر کو بیچ میں سے شروع کیاجائے۔ اسی طرح : پتھروں پر (فاعلاتن)، سے گذرتے (فاعلاتن) رقص کی خا (فاعلاتن) ۔۔۔اب یہاں ’’طر‘‘ ، جو ’’خاطر‘‘ کا اختتامیہ ہے ، پیوسطہ سطر کے پہلے لفظ سے منسلک ہونا ضروری ہو گیا ہے، اس لیے دوسرا ٹکڑا سطر کے عین درمیان میں سے شروع کیا گیا۔ تر اذاں دے (فاعلاتن)، تے گئے (فاعلن)۔

ان شعرا نے رمل کے علاوہ ہزج (مفاعلین کی تکرار)، رجز (مستفعلن کی تکرار)، متدارک (فاعلن کی تکرار)، متدارک سالم (فعلن کی تکرار)، متقارب سالم (فعولن کی تکرار)، متقارب مقبوض (فعول فعلن) اور کامل (فاعلن کی تکرار) ۔۔۔یعنی لگ بھگ سبھی مروج بحور میں یہ چلن اختیار کیا۔
راقم الحروف نے 1960ئ کے لگ بھگ اس سے انحراف کیا تھا اور حیدر آباد (دکن) میں قیام کے دوران تک لگ بھگ پچاس نظموں میں نثری جملے کی منطقی ساخت کو برقرار رکھتے ہوئے (سبھی متعلقات فعل کو ان کی صحیح جگہ پر مستعدی سے کھڑا رکھتے ہوئے)، رن آن لاینز کو اس طور سے برید کیا تھا کہ نفس ِ مضمون گذشتہ سطر سے تجاوز کرتا ہوا، ما بعد سطر کے وسط یا آخر تک، اور بسا اوقات، ما بعد سطر سے بھی منسلک ہونے والی اگلی سطر تک flux and flow کے ناتے سے بہتا چلا جائے۔ اب یاد آتا ہے کہ حیدر آباد کا دقیانوسی ماحول اول تو آزاد نظم کو قبول کرنے کے لیے ہی تیار نہیں تھا، اس پر رن آن لاین کی ’زیادتی‘؟ ظاہر ہے کہ محفلوں میں تو کم کم، مگر مشاعروں میں مجھے ہوُٹ بھی کیا گیا اور کوسا بھی گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حیدر آباد (دکن) کے قیام کے بیس برسوں کے بعد جب ایک پراجیکٹ کے تحت میری تحریر کردہ ایک سو نظموں کا مجموعہ ’’دست برگ‘‘ چھپا تو اس پر ایک ذاتی خط میں ڈاکٹر کالیداس گپتا رضاؔ نے لکھا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ فارسی عروض کی قربانی دئیے بغیر، اردو میں بلینک ورس کے لیے ’رن آن لائنز ‘ کی یہ سہولیت ، وقت کی ایک بہت بڑی ضرورت تھی، جسے آپ نے پورا کیا ہے۔ آنے والا مورخ جب اس کا لیکھا جوکھا کرے گا تو اردو کی آزاد نظم پر آپ کے اس احسان کو سراہا جائے گا۔‘‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے کتاب کے ’’اختتامیہ‘‘ میں بھی یہ رائے ظاہر کی کہ اگر اس چلن پر اردو کی آزاد نظم چل سکی تو یہ قدم مستحن قرار پائے گا۔ ‘‘ ڈاکٹر وزیر آغا نے پنے ایک مکتوب میں ایک نہایت دلچسپ انکشاف کیا۔ انہوں نے لکھا۔ ’’آپ کے کہنے پر میں نے ایک آدھ گھنٹہ اس بات پر صرف کیا کہ 1970  سے پہلے کی اپنی نظموں کو نکال کر آٹھویں یا نویں دہائی یا اس کے بعد میں لکھی گئی نظموں کے مد مقابل رکھ کر دیکھا تو واقعی یہ معلوم ہوا کہ میں نے بھی کوئی شعوری فیصلہ کیے بغیر (یعنی کلیتاً لا شعوری طور پر) اپنی نئی نظموں میں رن آن لائنز کا چلن اپنا لیا تھا، لیکن یہ بات مجھے آپ کے استفسار کے بعد معلوم ہوئی اب میں خود سے پوچھ رہا ہوں۔ ستیہ پال آنند صاحب کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے یا نہیں؟‘‘ میرے دیگر نظم گو دوستوں میں احمد ندیم ؔقاسمی،(مرحوم) ضیا ؔجالندھری(مرحوم)، بلراج کوملؔ، علی محمد فرشی ؔ اور کئی دیگر احباب نے بھی اس رویے پر مجھ سے اتفاق کیا اور اپنی نظموں میں اس چلن پر صاد کیا۔
ماہنامہ ’’صریر‘‘ کراچی میں شامل ہوئے میرے ایک مضمون پر رد عمل کے طور پر ایک صاحب نے (نام بھول گیا ہوں، کیونکہ میں اپنی اس برس کی ڈائری سے یہاں نقل کر رہا ہوں) ماہنامہ ’’ صریر ‘‘کے ہی فروری 2004 کے شمارے میں ان نکتوں کی شیرازہ بندی اان الفاظ میں کی۔ ’’ان تفصیلات پر بحث کے لیے کچھ اہم نکات کو دہرا دینا مناسب ہے [۱] مروج عام بحور جو سالم ارکان پر مشتمل ہوں آزاد  موشح (ان کا مطلب تھا ’’آزاد نظم‘‘)کی تخلیق کے لیے موزوں ہیں یا ایسی مزاحف بحریں جن کے دو ارکان کے درمیان تین متحرک حروف مل کی ایک یونٹ بنا دیں، بھی جائز و موزوں ہیں۔ [۲] آزاد نظم کے مصرع کو سطر کہنا چاہیے [۳] آزاد نظم کا کوئی مصرع خود کفیل نہیں ہونا چاہیے۔ اور [۴] صوتی اعتبار سے ما قبل مصرع کا اگلے مصرع میں انضمام ضروری ہے۔ ‘‘
اس زمانے میں بھی اور آج بھی کئی بار خود سے یہ سوال پوچھنے کی جرات کرتا رہا ہوں کہ آج تک ، یعنی اکیسویں صدی کی ایک دہائی گذرنے کے بعد بھی، اردو کا نظم گو شاعر غزل کی روایت کے اس مکروہ اثر سے کیوں آزاد نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی سطروں کی تراش خراش میں رن آن لائنز کے چلن کو روا رکھ سکے۔اور نظم کی’ سطر‘ کو سطر ہی سمجھے، ’ مصرع‘نہیں۔ ان دو باتوں کو الگ الگ پلڑوں میں رکھ کر بھی تولنے کی  اہلیت مجھ میں ہے ۔
(الف) کیا مقفیٰ اور مسجع نظموں کی غنائیت اور نغمگی، حسن قافیہ کی سحر کاری اور بندش الفاظ نگینوں میں جڑی ہوئی شوکت و رعنائی اس صنف کو ’’آزاد نظم‘‘ یا ’’نظم معرا‘‘ سے ممتاز بناتی ہے؟
(ب) کیا غزل کے روایتی ـ’’فارمیٹـ‘‘ سے مستعار اردو شاعروں کی یہ عادت ِ ثانیہ کہ وہ نظم کی ’سطر‘ کو بھی ’مصرع‘ سمجھتے ہیں اور ایسا کرنے سے وہ نظم کی آزادی، یعنی اس کے مضمون اور اس کے شعری اظہار کی لسّانی اور اسلوبیاتی تازہ کاری کی قربانی نہیں دیتے؟ اور ۔۔۔
(ج) کیا مقفیٰ اور یکساں طوالت کی سطروں پر مشتمل پابند نظموں میں یا ان آزاد اور معرا نظموں میں جن میں ’سطر‘ مصرع کی صورت میں وارد ہوتی ہے، اور رن آن لائنز کا التزام اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ’سطر‘ کے بیچ میں ایک جملے کے مکمل ہونے سے حسن شاعری کو ضرب پہنچتی ہے، ان امیجز images کی قربانی نہیں دینی پڑتی، جو رمز و ایمایت کی جمالیات سے عبارت ہوتے ہیں اور علامت و استعارہ کے حسین جھالروں والے پردے کے پیچھے سے نیمے دروں نیمے بروں حالت میں پوشیدہ یا آشکارہ ہوتے ہیں۔
آخری بات فارسی عروض کے بارے میں ہے جو اردو کے گلے میں ایک مردہ قادوس Albatross کی شکل میں لٹک رہا ہے۔ ( استعارے کو سمجھنے کے لیے کالریج کی نظم Ancient Mariner دیکھنی پڑے گی)۔۔۔مجھ جیسے کم فہم اردو دان کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ صوتی محاکات کے حوالے سے یہ عروض اردو کی جملہ سازی کے لیے ناقص ترین ہے۔ کیونکہ عربی اور فارسی کی نسبت اردو کی جملہ سازی واحد و یگانہ ہے۔ غالب کے صرف ایک مصرعے کی تقطیع سے اس بات کا اندازہ ہو سکتا ہے
سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں ۔(فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن فاعلن ۔ بحر رمل)
پہلے صوتی محاکات دیکھیں اور پھر تقطیع کا جوکھم اٹھائیں۔ ’’سب کہاں‘‘ (انحرافی استہفامیہ ) یعنی ’’سب نہیں‘‘۔ ’’سب کہاں ؟‘‘ (بشمولیت سوالیہ نشان )کے بعد اردو قواعد کی رو سے سکون ، یعنی ساکن حرف کی علامت، جزم کا ہونا مسّلم ہے۔ اب تقطیع کرتے ہوئے مجھے بہت کوفت ہوئی۔ سب کہاں کچھ (فاعلاتن) یعنی (سب=فا ؍ کہاں = علا ؍ کچھ = تن) اگر نثر میں لکھا گیا ہوتا تو یہ جملہ یوں
ہوتا، سب کہاں؟ کچھ۔۔۔ ’کچھ‘ ہندوی ہے اور صفت کے طور پر تعداد میں ’چند‘ کے معنی میں آتا ہے۔ ’’سب کہاں کچھ‘‘ کو ’فاعلاتن‘ کی ایک ہی بریکٹ میں اکٹھا کرنے سے ا یک پیہم، لگاتار، دوڑ لگاتا ہوا جملہ، ’’سب کہاں کچھ؟‘‘ بن گیا ،’ اور ’ یعنی اردو قواعد کی رو سے سکون ، یعنی ساکن حرف کی علامت، جزم کا ہونا مسّلم ہے۔ اب تقطیع کرتے ہوئے مجھے بہت کوفت ہوئی۔ سب کہاں کچھ (فاعلاتن) یعنی (سب=فا ؍ کہاں = علا ؍ کچھ = تن) اگر نثر میں لکھا گیا ہوتا تو یہ جملہ یوں ہوتا، سب کہاں؟ کچھ۔۔۔ ’کچھ‘ ہندوی ہے اور صفت کے طور پر تعداد میں ’چند‘ کے معنی میں آتا ہے۔ ’’سب کہاں کچھ‘‘ کو ’فاعلاتن‘ کی ایک ہی بریکٹ میں اکٹھا کرنے سے  ایک پیہم، لگاتار، دوڑ لگاتا ہوا جملہ، ’’سب کہاں کچھ؟‘‘ بن گیا ،’ اور ’ یعنی ‘‘سے ’’لا یعنی ‘‘ ہو گیا۔ جملے کا باقی حصہ یہ ہے۔ ’’لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں‘‘۔ اس جملے میں ’’لالہ و گل‘‘ کے بعد کا لفظ یعنی ’’میں‘ ‘ گرائمر کی زبان میں ، ہمیشہ (ظرف مکان ہو، یا ظرف زمان)، مفعول فیہ کے بعد آتا ہے۔ یعنی ’’میں ‘‘ کا تعلق مابعد کے  لفظ سے نہیں ، بلکہ ما قبل کے لفظ سے ہے۔ گویا ’’لالہ و گل میں‘‘ ایک قابل فہم جزو ہے، نہ کہ ’’میں نمایاں‘‘ جو کہ لا یعنی ہے۔ لیکن، اب پھر ایک بار تقطیع کریں۔ لالہ و گل (فاعلاتن) میں نمایاں (فاعلاتن) ہو گئیں (فاعلن)۔۔۔گویا جس بدعت کا ڈر تھا، وہی ہوئی۔ عروض کے اعتبار سے ہم نے مفعول فیہ کے بعد آنے والے اور اس سے منسلک لفظ ’’میں‘‘ کو اس سے اگلے لفظ کے گلے میں باندھ دیا۔ عروض کی ضرورت تو پوری ہو گئی لیکن جملے کا خون ناحق ہو گیا اور اس قتل عمد کی ذمہ داری ان سب پر ہے جنہوں نے ہندوی چھند اور پِنگل سے منہ موڑکر فارسی عروض کواپنایا۔
جاری ہے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply