کیا گویَن گن نے پاکستان پر بھی حملہ کردیا ہے؟۔۔حبیب شیخ

گویَن گن کون ہیں ؟ یہ چینی زبان کی ایک اصطلاح ہے۔ اس کی پرانے زمانے میں مراد اُن مردوں سے تھی جو پیسہ, ہنر یا کسی اور کمی کی وجہ سے شادی نہیں کر پاتے تھے۔ اس اصطلاح کا استعمال مذاق اڑانے یا کسی کا درجہ کم کرنے کے لئے کیا جاتا تھا۔ لیکن آج کل اس کا مطلب محض کنوارا ہے اور اس میں کوئی منفی معنی پنہاں نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب کئی لڑکے اور لڑکیاں اپنی مرضی سے شادی نہیں کرتے ہیں یا اس میں تاخیر کرتے ہیں۔ جب گیارہ نومبر کو یورپ اور شمالی امریکہ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست دینے کا دن مناتے ہیں اور اپنے سابق فوجیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں یہ دن چین میں کنواروں کے  دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کنوارے لوگ بڑے پیمانے پر اپنے لئے خریداری کرتے ہیں، خوب پارٹیاں کرتے ہیں اور کچھ تو اسی دن شادی بھی کرتے ہیں۔

چین میں ایک بچے کی جبراً پالیسی جو کہ اب ترک کی جا چکی ہے، کی وجہ سے مردوں کا  تناسب عورتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ بہت لوگ یہ چاہتے تھے کہ یہ اکلوتے بچے کی جنس نر ہو اس لئے وہ مادہ جنس کی پیدائش کو روکنے کے لئے اسقاط حمل کروا دیتے تھے۔ اسی لئے اب مردوں کو شادی کے لئے مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں کی نئی نسل بھی مادہ پرستی اور سیلبریٹی کلچر کا شکار ہے ،تو غریب یا غیر ہنرمند مردوں کے لئے شادی  کرنا اور مشکل ہو گیا ہے۔ اسی لئے کئی چینی مرد شادی کے لئے ویتنام کا  ُرخ کرتے ہیں۔ وہاں کی لڑکیاں یا ان کے والدین تقریباً آٹھ دس ہزار امریکی ڈالرز میں شادی کا سودا کر لیتے ہیں۔ ان مردوں کو ویت نام میں بھی گویَن گن ہی کہتے ہیں۔ یہ سلسلہ کچھ عرصے سے جاری ہے البتہ اس کام میں بھی دھوکا بازی شروع ہو گئی ہے۔ کئی لوگ ویت نام میں ان گویَن گن کو بیوقوف بنا کر لوٹ لیتے ہیں۔

یہ کوئی عجب  بات نہیں کہ کئی چینی گویَن گن پاکستانی لڑکیوں سے بھی شادیاں کر رہے ہیں۔ اس طرح لڑکی کے غریب والدین جو جہیز اور دوسرے اخراجات کی وجہ سے اپنی بیٹی کی شادی نہیں کر سکتے کچھ پیسے لے کر بیٹی کو چین رخصت کر دیتے ہیں۔ گویَن گن کی دلہن جب چین پہنچتی ہے تو اسے بے حد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زبان، طور طریقے، خوراک بلکہ پوری ثقافت ہی مختلف، وہ اتنے بڑے ملک میں بالکل تنہا ہو کے رہ جاتی ہے۔ اس کی زندگی کا سو فیصد انحصار اپنے شوہر پر ہوتا ہے۔ کئی ایک کے ساتھ استحصال، تشدد اور جسم فروشی کی بھی خبریں آئی ہیں۔ یقیناً کئی شادیاں کامیاب بھی ہوتی ہوں گی۔ اس بارے میں کوئی اعداد و شمار سامنے نہیں آئے ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو اس بارے میں فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ چین میں زیرِ استحصال قوم کی بیٹیوں کی آہ و بکا اُن تک پہنچ سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply