سکیم۔۔۔۔ جاوید خان

اُردو میں اسے ”مَنصوبہ بندی“کہتے ہیں۔صحیح طرح معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ مونث ہے یامذکر۔اگرچہ تذکیر و تانیث کی کتابوں میں اس پر بحث ضروری نہیں سمجھی گئی۔ بس اُردو کادو حرفی ”منصوبہ بندی“ انگریزی میں مختصر ہو کر ”سکیم“ ہو گیاہے۔اختصار کی خوبیوں کے پیش نظر اسے یورپ سے ہمارے ہاں خاص طور پر برآمد کیا گیا ہے۔ یورپ والوں کے ہاں اختصار کی افراط ہے۔ پورے یورپ کو اختصار کامرض لاحق ہو گیاہے اور ہم وہاں سے سارا اختصار اٹھا اٹھا کر لا رہے ہیں۔ہمارے ہاں منصوبے کے ساتھ ساتھ ”بندی“ اس لیے لگتاہے کہ اس سے اس کا مفہوم واضح تر ہو جاتا۔اسے اندازہ ہو تا ہے کے کِسی بھی منصوبے کو ویسے ہی راستے سے نہیں پکڑا گیا بلکہ اس کے بارے میں ہر طرح کی باریکیوں کو بڑی باریک بینی سے کھنگالا گیا ہے۔کسی بھی منصوبے کے ساتھ”بندی“ لگناضروری ہے۔اس کے بغیر منصوبہ مکمل نہیں ہوتا۔ایک مکمل منصوبہ وہ ہوتا ہے جو ہمیشہ یعنی ہر زمانے میں مکمل ہو۔

منصوبہ بندی میں یوں سمجھیے کہ  ایک زبردست قسم کا منصوبہ مکمل ہو کر بند ہو جاتا ہے۔پھر وہ آہستہ آہستہ بہت دھیمے دھیمے کھُلتا جاتا ہے اَور کچھ بنتا جاتاہے۔بعض منصوبے بند ہوتے ہیں۔پھر ہمالیہ کے بھورے ریچھ کی طرح لمبی نیند سو جاتے ہیں۔کہیں تو صدیوں تک سوئے رہتے ہیں۔کچھ بھلے مانس ایسے بھی ہیں جو کبھی اُٹھنے کانام ہی نہیں لیتے۔بس بند ہوتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔مجال ہے کیوں اُن کو جگانے کی زحمت کر سکے۔ہرمنصوبہ خالصتاً فائدے کے پیش نظر بنا کر بند کیا جاتا ہے۔ہمارے پڑوس میں ہندی بھاشا میں ”بندی بنانا“ قید کرنے کے معنوں میں لیا جاتاہے۔یوں ہمارے بے شمار منصوبوں سے اُنھیں خوامخواہ شک ہُونے لگا کہ ہم نے نجانے اندر ہی اندر کتنے ہی منصوبوں کو باندی بنا کر رکھا ہوا ہے۔ پڑوسیوں کی ناراضگی کے پیش نظر ہم نے فوراً انگریزی کایک حرفی ”سکیم“ خرید لیا۔اسی کی برکت سے ہم کے اُن بڑے خریدار بن گئے۔آ ج بھی ہم اُن کے اچھے خریداروں میں ہیں۔اگرچہ یہ ایک بڑی سفارتی کوشش تھی مگر پڑوسیوں کے شکوک بہ دستور شافی نہ ہوئے۔ماہر ین نفسیات کا کہنا ہے کہ شکوک چاہے ادھر اُدھر یا جدھر کے بھی ہوں وہ ہمیشہ قابل علاج ہوتے ہیں۔انھیں فوراً انتہائی نگہداشت (وارڈ) میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔حالانکہ  کہ ہم نے بے شمار منصوبے بنائے مگر بیچ آدھ پڑوسیوں کی غرض سے کھٹائی میں پڑ گئے۔مثلاً بے شمار قسم کے پانچ سالا منصوبے،ڈیموں کے منصوبے،معاشی منصوبے،ذاتی معاشی منصوبے،انفرادی منصوبے،اجتماعی منصوبے وغیر ہ وغیرہ۔

تحلیل لفظی کے ماہر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ”منصوبہ“ میں ”لفظ مَن“چھپا ہے۔لِہٰذا یہ لفظ کسی طرح کی سازش کاشکار نہیں ہو سکتا۔بَس مَن کے ہاتھوں مجبوراً اس لفظ کے ساتھ کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہو تی رہی ہے اور آگے بھی ہوتی رہے گی۔مقامی پڑھے لکھے لوگ کئی   بار خبردار کر چکے ہیں کہ ”منصوبہ“میں من قصور وار ہے یا نہیں مگر ”صوبہ“کانام مت لیا جائے۔ان بہت سارے جھمیلوں کے درمیان انگریزی یک حرفی ”سکیم“ نے سارے ملکی وغیر ملکی مسائل حل کردئیے ہیں۔اس طرح اَب ہم سکیم سے خوش ہیں۔اب صرف وصرف سکیم ہوتی ہے یا پھر اُس کی ڈھیر ساری سہیلیاں (سکیمیں) ہوتی ہیں۔کوئی اکیلی سکیم بھی ہو تب بھی خوب صورت ہوتی ہے۔پھر وہی ہوتی ہے۔اگر چہ تذکیر و تانیث کے ماہرین خطرے کاالارم بجا چکے ہیں۔کیوں کہ وہاں سائنس دانوں کی نِت نئی سکیموں سے تذکیر و تانیث کی دنیاسخت خطرے میں ہے۔کئی یورپی مرد،خواتین اور کئی خواتین،مردوں کاکردار نبھا چکے ہیں۔فی الحال اس ساری سرگرمی کاہمارے علما ء نے بُرا نہیں منایاصرف اَن پڑھ لوگ“ کہہ کر خاموش ہوگئے۔البتہ یورپ والے خوش ہیں کہ اُن کی ہرسکیم کامیاب ہو رہی ہے۔پڑوسی لوگوں کاکہنا ہے کہ یورپ میں کسی کو خوامخواہ ”بندی“ نہیں بنایا جاتا آزادی ہی آزادی ہے لِہٰذا کسی غلط فہمی کی گنجائش ہی نہیں۔

ہاں ہمارے ہاں سکیم نے آکر کافی ترقی کی ہے۔ہماری بے شمار ہاؤنگ سکیمیں اسی ترقی کامنہ بولتا ثبوت ہیں۔یو ں بہت سی سکیموں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔منصوبہ بندی کی جگہ سکیم آنے کے بعد ہر جگہ تعمیر ہی تعمیر ہے۔کنکریٹ کی عمارتیں کھیت کھیلیانوں اور کسانوں کی فرسودگی کوروند راند کر آسمان چھور ہی ہیں۔سکیم میں ایک طرح کی زرخیزی اور خالصتاً تخلیقی زرخیزی ہے۔ہمارے علما کاخیال ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی نامی بدنام زمانہ منصوبہ دراصل خاندان کو بندی بنا کر رکھنے کاسخت آمرانہ فیصلہ تھا۔اُدھر پڑوس کے لوگوں نے ہمارے علما کے اس منصوبے کے راز کو یوں فاش کرنے پر،بھر پور تحسین بجائی۔بل کہ زلفیں لہرالہرا کر،بَل کھاکھاکر اور گاگا کر خوشیاں منائیں۔یہاں تک کہ ایک شاعر کو کہنا پڑا۔ ؎
عشق جھوٹا ہے لوگ سچے ہیں۔
ایک بیوی ہے چار بچے ہیں۔

بہت پہلے ایک بھارتی ٹی۔وی چینل نے بتایا تھا کہ اُن کے ہاں گاؤں میں دو خواتین کی پانی بھرتے لڑائی ہوگئی۔وجہ تنازعہ بس یہ تھی کہ ایک خاتون جس کے پورے دس بچے تھے،دوسری عورت جس کے صرف سات تھے طعنہ دیا تھا۔اورچونکہ سات بچوں والی طعنہ برداشت نہ کر سکی تو اس نے بھرپور اور زناٹے دار تھپڑ دس والی کے ٹھیک منہ پر جڑ دیا۔
یوں ہمارے علما کے بروقت جاگنے اور پڑوس والوں کی خواتین کاہمارے حق میں بازو چڑھا کر نکل آنے سے محکمہ ”خاندانی منصوبہ بندی“والے مع  اپنے اشتہاروں کے زیر زمین چلے گئے۔سناہے یہ لوگ اپنی شیطانی حرکتوں سے کسی طرح بھی باز نہیں آنے والے،یہ زیر زمین اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔شنید ہے جیسے ہی ہمیں سکیموں سے فرصت ملے گی۔ان گھس بیٹھیوں کو نکال نکال کر مارا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک خفیہ اطلاع یہ بھی ہے کہ لاتعداد ہاوسنگ سکیموں کی بڑھوتری اور ترقی سے گٹر اور ان کے حامی گندے نالے سر عام دھندناتے پھرنے لگے ہیں۔بلکہ  یہ ریاست کے خلاف سرکشی پہ اتر آئے ہیں۔ان گندے لوگوں نے بھی اپنے طور پر ایک سکیم بنا رکھی ہے کہ جیسے ہی بارشیں ہوں گی۔یہ یک بارگی دھاوابول دیں گے اور پورے ملک پر اپنا قبضہ جمالیں گے۔گٹروں اور نالوں کی اس سازش کے بعد آسمان نے ہمارے حق میں رہ کر بارشیں بند کر دی ہیں۔فی الحال بارشیں بند ہیں،دریاؤں میں وہ زور نہیں رہا، زمین سے پانی نیچے چلا گیا ہے۔مگر نالے اور گٹراپنی سکیم پر ڈٹے ہوئے ہیں اور تاک میں بیٹھے ہیں۔انھیں لگتا ہے کہ یہ کامیاب ہو جائیں گے۔ بے چارے۔۔۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply