گھر کا وہ کمرہ یا لاؤنج جو آج کل ٹیلیویژن کے لئے مخصوص ہو جاتا ہے اور جہاں دن رات رنگ برنگی تصویریں بلند آوازوں کے ساتھ تیزی سے بدلتی رہتی ہیں، اس کے نزدیک ایک الماری میں کچھ کتابیں پڑی ہوئی ہیں ۔ ان کتابوں کو دیکھ کر مجھے ایک عجیب سا سکون ملتا ہے اور اگر کبھی ان میں سے ایک کو اٹھا کر کچھ صفحات پڑھ لیتی ہوں تو میرے وجود میں ایک انہونی خوشی سرائیت کر جاتی ہے۔ میں ان ہی لمحات میں بہتی ہوئی کتاب کے بارے میں کچھ کہنا چاہوں گی۔
کتاب کیا ہے؟
دیکھنے میں توکتاب صرف حروف اور الفاظ کا مجموعہ ہے ۔کتاب کے ہر صفحے پر بےشمار حروف اور الفاظ بکھرے نظر آتے ہیں لیکن اس میں کئی پیغامات، معلومات اور دلچسپ واقعات ملتے ہیں۔ کتاب کی حیثیت ایک استاد ،شفیق دوست اور رہنما سے کسی طور کم نہیں۔ کتاب علم اور ادب کا ایک قیمتی خزانہ ہے اور اس خزانے سے فائدہ اٹھاناہر شخص کا فرض ہے۔
کتاب کی اشاعت کیسے شروع ہوئی؟
زمانہ قدیم میں کتابیں درختوں کے پتوں، چھال، اور سوتی ریشمی کپڑوں پر لکھی جاتی تھیں ۔ قدیم بابل اور شام میں کتاب ایک اینٹ یا تختی کو کہتے تھے جس پر کچھ علامات یا نشانات کندہ ہوتی تھیں ۔ قدیم زمانے میں مصر،روم اور یونان میں تحریر کے لئے و یلم، پیپیرس، یا دیگر مواد کی چادریں استعمال کی جاتی تھیں۔ کاغذ کی ایجاد کے بعد تحریر کے علم میں بے انتہا اضافہ ہوا مگر ہر کتاب ہاتھ سے لکھی جاتی تھی اس لئے علم کی پہنچ بہت ہی محدود تھی۔ کتاب کی کاپیاں بنانے پر چین، کوریا اور جرمنی میں تحقیق کی گئی اور کتاب کی کاپی بنانے کے طریقے ایجاد کئے گئے۔ اس ضمن میں جرمنی کی مشین یعنی چھاپہ خانہ کافی مقبول ہوئی اور یورپ میں ہزاروں کی تعداد میں کتابوں کی کاپیاں چھپنے لگیں جس سے بڑی تعداد میں لوگوں کو تعلیم کی رسائی ممکن ہوئی اور یورپ کی ترقی کا پیش خیمہ بنی۔ اس کے مدِّ مقابل جب جرمنی کے تاجر چھاپہ خانے کی مشین بیچنے کے لئے مغل بادشاہوں اور سلطنتِ عثمانیہ کے سلطانوں کے درباروں میں پہنچے تو انہوں نے یہ مشین خریدنے سے انکار کردیا۔ ان کی سوچ تعلیم کو عام کرنے کے بارے میں نہیں تھی بلکہ انہیں یہ فکر تھی کہ چھاپے خانے کی مشین کے استعمال سے کاتب بے روزگار ہو جایئں گے۔ اس کم فہمی کی وجہ سے مسلمان علم کی تحصیل میں صدیوں پیچھے رہ گئے۔
کتاب کا کردار کیا ہے؟
آج دنیا ترقی کے جس مرحلے پر ہے اس میں کتاب نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر کتاب دنیا میں نہ آتی تو انسان میں کبھی اتنا شعور پیدا نہ ہوتا ۔کتاب ہی کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کے حالات سے باخبر ہوئے۔ کتاب لوگوں کو دنیا کے بارے میں آگاہ کرتی ہے ، معاشرے کو بہتر بنانے کے طریقے بتاتی ہے، خطرات و مشکلات سے خبردار کر کے ان سے محفوظ رہنے کے طریقے بتاتی ہے۔ کتاب کی حیثیت کئی لوگوں کے لئے ایک دوست کی سی ہے اور کئی کے لئے ایک عالم کی طرح ہے۔ دن ہو یا رات، سفر ہو یاسکوت کتاب ہر وقت ہر جگہ لوگوں کا ساتھ دیتی ہے ۔ تجارت ہو یا صنعت و حرفت، مذہب ہو یا سیاست یا دنیا کا کوئی اور مسئلہ ہر معاملے میں لوگ کتاب سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔
کیا کتاب چراغِ راہ ہے؟
علما اور اہل ِدانش نے کتاب کو ستارہ نور اور چراغ ہدایت کہا ہے کیونکہ تعلیم و تحقیق کی بدولت ہی قوموں کی تاریخ بدل سکتی ہے اور سلطنتوں کو عروج حاصل ہوتے ہیں۔ کتاب کی بدولت ہی دنیا جدید سائنسی ا دوار سے روشناس ہوئی ہے ۔ اگر مفید کتب نہ لکھی جاتیں تو دنیا کمپیوٹر ،انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی میں کیسے مہارت حاصل کرتی! کتاب کا مطالعہ کر کے مؤرخین اپنی رائے قائم کرتے ہیں کہ دنیا ترقی کےمختلف مراحل طے کر کے موجودہ دور تک کیسے پہنچی۔ کتابوں کے مطالعہ سے دوسرے نظریات اور طور طریقوں کے بارے میں پتا چلتا ہے۔ اس طرح مزاج میں شگفتگی اور خیالات میں وسعت پیدا ہوتی ہے ۔
کتاب کا انتخاب کیسے کریں؟
ایک اور حقیقت یہ ہے کہ کتابوں کے انتخاب کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے ۔کتابوں کے انتخاب میں نہایت احتیاط اور غور و خوض سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہےکیونکہ کتاب کے مطالعے کا اثر براہ راست علم اور اخلاق پر ہوتا ہے ۔بعض کتابوں کا مطالعہ اخلاقی پستی کی صورت میں سامنے آتا ہے، بعض سائنسی نظریات کے خلاف ہیں اور کتابوں کی بڑی تعداد تاریخ کو مسخ کر کے پیش کرتی ہے۔ اسی لئے کسی بھی کتاب (ماسوائے الہامی کتابوں میں ) میں بیان کئے ہوئے نظریات اور واقعات پر سو فیصد یقین نہیں کیا جا سکتا۔ کتاب کے لکھاری عمومی طور پہ اپنی تحریر کے بارے میں غیر جانبدار نہیں ہوتے، یا تو اُن کا کوئی ذاتی ایجنڈا ہوتا ہے یا پھر ان پہ سیاسی، سماجی، معاشی، یا مذہبی دباؤ ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ کتاب کے انتخاب سے پہلے لکھاری کا انتخاب کیا جائے۔ البتہ کہانی یا ناول میں لکھاری تصواراتی کردار اور واقعات پیش کرتا ہے جن کا حقیقت سے تعلق ہونا ضروری نہیں۔
کیا کاغذی کتاب کا کوئی مستقبل ہے؟
آج سے بیس تیس سال قبل تک لوگ کوئی دن اور وقت چن لیا کرتے تھے اور اس دن وہ سب مل بیٹھتے اور کوئی ایک شخص کتاب پڑھتا اور باقی سب لوگ بیٹھ کے خاموشی سے اس کو سنا کرتے تھے۔ اسی طرح طلبا جو کہ سکولوں میں پڑھنے جایا کرتے تھے وہ بھی اکٹھے مل جل کر اپنے کورس کی کتابوں کا مطالعہ کرتے۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ رواج ماند پڑتا گیا بلکہ یہی نہیں انفرادی طور پر بھی کتاب پڑھنے کا شوق ختم ہو گیا اور صرف عام طور پہ بڑی عمر کے کچھ لوگ کتابوں کے مطالعہ میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ان چند سالوں میں ایک ایسی لہر آئی ہے جس نے بہت کچھ بہت تیزی سےبدل کر رکھ دیا اور لوگ کتاب سے دور ہوتے چلےگئے۔ اس بات کی ایک وجہ یہ ہے کہ الیکٹرونک میڈیا نے دنیا پر راج کرنا شروع کر دیا اورمعلومات حاصل کرنے کے لیے نت نئے جدید طریقے سامنے آتے گئے۔ اب کتابیں بغیر کاغذ کے استعمال سے لکھی جارہی ہیں اور الیکٹرونک میڈیا پہ شائع ہو جاتی ہیں مثلاً اب کمپیوٹر یا فون پہ کتاب پڑھی جا سکتی ہے۔ ایک اہم پیش رفت آڈیو کتاب کی اشاعت ہے جسے بینائی سے معزور لوگ اب کتاب کو پڑھنے کے بجائے سن سکتے ہیں۔ لیکن کاغذی کتاب کو پڑھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے اور یہ ایک خوبصورت جلد میں من کو کتنی بھاتی ہے۔ کاغذی کتاب کو اگر کسی الماری میں سجا دیا جائے تو پھر یہ نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتی اور ہمیں اپنے ہاتھوں میں لے کر ورق گردانی کرنے پہ اکساتی ہے۔ اس لئے ہر گھر میں ایک الماری یا الماری کا کچھ حصہ کتابوں کے لئے وقف ہونا چاہئے۔ اس طرح ہم دوسرے لوگوں اور خاص طور پہ اگلی نسل کو کاغذی کتاب پڑھنے کے شوق سے روشناس کرا سکتے ہیں اور کاغذی کتابوں کے فن کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں