وہی بات ہو گئی( طنزو مزاح ) ۔۔۔۔۔۔کے ایم خالد 

سندھ کے نامزد گورنر عمران اسماعیل کی تعلیم میٹرک ۔۔۔جامعات کے چانسلر ہونگے 
تعلیم کا منصب کے ساتھ کیا تعلق۔۔۔؟
ایک اچھی بھلی گریجویٹ اسمبلی کے خواب کو شرمندہ تعبیر ایک جرنیلی صدر نے کر دیا تھا جسے شرمندگی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار جعلی ڈگریوں کے انبار تلے دبے پائے جانے لگے اور عدلیہ کے وقت کا بڑا حصہ انہی جعلی ڈگریوں کے کیسوں کو بھگتانے میں گزرنے لگا ۔ مطالعہ پاکستان میں اچھا بھلا پڑھتے آئے تھے ’’صدر پینتالیس کا ہوتا ہے ،صدر مسلمان ہوتا ہے اور صدر کی تعلیم بی اے ہوتی ہے ‘‘گرایجویٹ اسمبلی شاید برقرار رہ پاتی مگر ایک جیالے صدر کو صدارتی محل میں داخلے کے لئے اس شق میں ترمیم کی ضرورت پیش آ گئی اور یوں گریجویٹ اسمبلی جہاں سے چلی تھی اسی اسٹاپ پر واپس آگئی ۔پاکستان میں انٹر تک تعلیم کم نہیں ہوتی یہ ان نوجوانوں سے پوچھیں جو صرف انٹرانگلش میں بار بار فیل ہونے کی وجہ سے بی اے نہیں ہو سکے۔عمران اسماعیل کی پروفائل میں صرف انٹر ہی نہیں بلکہ ’’تبدیلی آئی رے ‘‘ جیسا ’’قومی نغمہ ‘‘ بھی ہے ۔ پاکستان نے تو چٹے ان پڑھ وزیر بھگتائے ہیں ۔1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں فیصل آباد سے ایک صوبائی رکن اسمبلی وزیر بنا دیئے گئے مبینہ طور پر وہ پہلے دن اپنے آفس میں پہنچے تو سیکریٹری صاحبان نے ان کا فائلوں کے ساتھ استقبال کیا انہوں نے سیکریٹری سے پوچھا ’’ان کا کیا کرنا ہے میں تو پڑھا لکھا نہیں ‘‘۔
’’سر! آپ آخری صفحے پر سین لکھ دیا کریں صرف ضابطے کی کاروائی باقی میں سنبھال لوں گا ‘‘۔سیکریڑی نے ان کی میز پر فائلیں رکھتے ہوئے کہا ۔
دوسرے دن سیکریٹری نے ایک فائل کھولی تو انہوں نے دیکھا وزیر موصوف نے اردو کا لفظ ’’س‘‘ لکھ کر نیچے انگوٹھا لگا دیا تھا۔

Facebook Comments

کے ایم خالد
کے ایم خالد کا شمار ملک کے معروف مزاح نگاروں اور فکاہیہ کالم نویسوں میں ہوتا ہے ،قومی اخبارارات ’’امن‘‘ ،’’جناح‘‘ ’’پاکستان ‘‘،خبریں،الشرق انٹرنیشنل ، ’’نئی بات ‘‘،’’’’ سرکار ‘‘ ’’ اوصاف ‘‘، ’’اساس ‘‘ سمیت روزنامہ ’’جنگ ‘‘ میں بھی ان کے کالم شائع ہو چکے ہیں روزنامہ ’’طاقت ‘‘ میں ہفتہ وار فکاہیہ کالم ’’مزاح مت ‘‘ شائع ہوتا ہے۔ایکسپریس نیوز ،اردو پوائنٹ کی ویب سائٹس سمیت بہت سی دیگر ویب سائٹ پران کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔پی ٹی وی سمیت نجی چینلز پر ان کے کامیڈی ڈارمے آن ائیر ہو چکے ہیں ۔روزنامہ ’’جہان پاکستان ‘‘ میں ان کی سو لفظی کہانی روزانہ شائع ہو رہی ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply