مسلک۔۔سلیم مرزا

مقدر کی خرابی کہ مجھے زندگی میں دو رانے ملے اور میری سمجھ میں دونوں ہی نہیں آئے، حالانکہ میرے علاقےمیں ہر سال اتنی چاولوِِں کی فصل نہیں ہوتی جتنے رانے ہو جاتے ہیں۔۔
توبات ہو رہی تھی دو رانوں کی
(دو رانیں سمجھنے والوں سے معذرت)

ان میں ایک انعام رانا، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے میرا فیس بک فرینڈ ہے  ،قریبا ً چون بار مجھے بلاک کر چکا ہے ،دوبار تو فیس بک والوں نے آفر کی کہ تیس بار بلا ک کے بعد ہلاک کی سہولت فری ہے ،
مگر اس کا کہنا ہے جو بلاک کا مزہ ہے وہ ہلاک میں کہاں۔۔۔

دوسری ران ،میرا مطلب رانا ،لیاقت ہے!
یہ مصیبت والدہ کی وفات پہ افسوس کرنے آئی اور میں نے فرط غم سے مغلوب ہو کر گلے لگا لی  اور ابھی تک جپھی ختم نہیں ہوئی۔سیانے سچ کہتے ہیں، ماں کی دعائیں انسان کو کئی بلاؤں سے محفوظ رکھتی ہیں۔

اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف، یہ دونوں اشخاص انتہائی  ماڈریٹ اور یار باش ہیں ،دونوں کا تعلق انگلینڈ سے ہے ،اور دونوں کا دین کے بارے میں وژن اتنا شاندار ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔دونوں کے اندر ایک ایک مولوی چھپا ہوا ہے۔جو اپنے دین کی سر بلندی اور بہتری کیلئے ہمہ وقت چوکس رہتا ہے ،جہاں کوئی بدعقیدتی ،مسلکی بے راہروی ہو ان کا مولوی ،مولاجٹ بن جاتا ہے۔

یہ واقعہ مجھے رانا لیاقت علی نے سنایا۔۔۔
پچھلے دونوں ایک شادی پہ جانا ہوا، قریبی گاؤں کے چوہدری کے بیٹے کی شادی تھی، دولہا کو سلامیوں کیلئے لا کر بٹھایا گیا تو، میرے ساتھ ہی ایک باریش شخص براجمان تھا۔اب میرے گن مینوں کی موجودگی میں کوئی اجنبی قریب نہیں بیٹھتا پھر بھی وہ باریش میرے ساتھ کافی بےتکلفی ظاہر کررہا تھا۔
میرے استسفار پہ اس نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ شادی والے گھر کے ساتھ جڑی ہوئی مسجد کا  امام و خطیب ہے۔
اور چوہدری کے ساتھ خاندانی مراسم بھائیوں سے بھی زیادہ ہیں،مجھے بھی اچھا لگا۔۔۔ہم دونوں ٹھوڑی ہی دیر میں اردگرد کے ماحول سے بے نیاز، اسلام کے مختلف پہلوؤں پہ بات کرتے رہے
اچانک شور ہوا کہ سب روانگی بارات کیلئے اٹھ رہے ہیں تو میں بھی مولوی صاحب کے ہمراہ چل پڑا ،تھوڑی دور بارات کے ساتھ چلنے کے بعد احساس ہوا کہ بارات جہاں گاڑیاں کھڑی ہیں اس کے مخالف سمت میں جارہی ہے اور کم ازکم کلومیٹر دور آچکی ہے۔۔میں نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ” یہ جا کدھر رہے ہیں؟”
“مسجد میں شکرانے کے نفل پڑھنے “مولوی نے اطمینان سے جواب دیا
“مگر مسجد کی اور ان کی دیوار سانجھی ہے، اتنی دور آنے کی کیا تک ہے؟ ” میں نے حیرانگی سے پوچھا
“وہ جی دوسرے مسلک کی ہے ” مولوی صاحب کا مطمئن لہجہ دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا
“آپ بھی تو اسی مسجد کے امام ہو، آپ بھی تو دوسرے مسلک کے ہو، مگر آپ تو بارات کے بھی ساتھ ہو؟ ”
“میں تو جی ان کے گاؤں کا ہوں، ان کا پڑوسی ہوں
مسجد دوسرے مسلک کی ہے ”

Advertisements
julia rana solicitors

رانا لیاقت علی خاں یہ بات بحیثیت لطیفہ نہیں سناتا۔۔۔اور نہ میں نے مزاح کیلئے گھڑی ہے، یہ ایک المیہ ہے ہم سب مسلمانوں کیلئے۔رانا لیاقت علی اور انعام رانا ایسے کتنے واقعات کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں
اور میں اپنے کندھوں پہ ان دونوں رانوں کا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply