جناب کمال احمد رضوی کی یاد میں/ڈاکٹر مجاہد مرزا

میں ایف ایس سی (پری میڈیکل) کرنے 1967 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا تھا۔ اقبال ہوسٹل کے کامن روم میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی سیٹ ہوتا تھا۔ جس روز پروگرام “الف نون” ہوتا تو کامن روم جو کوئی زیادہ بڑا نہیں تھا کھچا کھچ بھر جاتا تھا۔ سب طالبعلم نوجوان تھے۔ بیشتر طنز کو مزاح سمجھ کر خوب قہقہے لگاتے تھے مگر میں شاید ان چند میں سے ایک تھا جنہیں اس پروگرام نے سیاسی اور سماجی شعور دینے کی ابتداء کی تھی۔

میرے بڑے بھائی مرزا محمد شعیب صاحب کے ہم جماعت اور دوست مکتبہ عالیہ کے مالک جمیل احمد عالی صاحب تھے جنہیں انہوں نے ایک طرح سے میرا سرپرست مقرر کیا ہوا تھا۔ مجھے ان کے ہاں ہفتے دو ہفتے بعد حاضری دینی ہوتی تھی۔ مرحوم بہت خشک طبیعت انسان تھے، میں ان کے دفتر میں جو قطب الدین ایبک کے مزار کے سامنے تھا، جا کر بہت بور ہوا کرتا تھا لیکن جانا پڑتا تھا کیونکہ بڑے بھائی کا حکم تھا۔

پھر ایک روز بڑے بھائی نے پوچھا تھا،” ایکٹر بنو گے؟” میرے لیے ان کا یہ فقرہ بہت عجیب تھا کیونکہ وہ بہت روایت پسند انسان ہیں تاہم ادب و فن دوست ضرور ہیں بلکہ انہوں نے رسالہ لیل و نہار میں فیض احمد فیض صاحب کے ساتھ بطور سب ایڈیٹر کام بھی کیا ہوا تھا۔ اگرچہ انہیں ترقی پسندی کا کوئی لپکا نہیں تھا تاحتٰی کہ  جب فیض صاحب کا معروف شعر :
اک فرصتِ  گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

سنا تھا تو ان کے سامنے ہی برجستہ تضمین کی تھی:
جو جا سکیں نہ کوچہء  جاناں میں باوضو
وہ آزمائیں حوصلے پروردگار کے

ظاہر ہے فیض صاحب بلند حوصلہ انسان تھے انہوں نے داد ہی دی تھی۔ بہرحال ان کے سوال کا میں نے مثبت جواب دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا الحمرا جا کر کمال احمد رضوی سے مل لینا۔ میں ان سے تین بار ملا تھا۔ پہلی بار تو انہوں نے مجھ سے یہی پوچھا تھا ” کونسی جماعت میں ہو” اور ایسے ہی چند سوال۔ چائے پلائی تھی اور مجھے ان کے ساتھ چند اداکاروں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے ایک اور روز بلایا تھا۔ اس روز وہ الحمرا سے باہر ہی کھڑے ہوئے تھے اور اپنے مخصوص انداز میں گپ شپ لگا رہے تھے۔ ایک نوجوان اداکارہ قریب سے گذری تھی تو انہوں نے کہا تھا،”بھئی آج تو بڑی توپ لگ رہی ہو” مجھے لگا تھا کہ اس خاتون کے سرین جاذب نظر تھے اس لیے انہوں نے ایسا کہا تھا اور سچی بات ہے مجھے کچھ اچھا نہیں لگا تھا۔ وہ تو فنکار تھے انہوں نے میرے چہرے کے تاثرات بھانپ لیے ہونگے چنانچہ مجھے کہا تھا کہ کل جا کر آڈیشن دے دوں۔

آڈیشن دینے گیا تھا۔ اس زمانے میں ریڈیو کی عمارت کے ایک کمرے میں سٹوڈیو تھا۔ بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیاں آئے ہوئے تھے۔ سب کو وہاں پڑے ہوئے کاغذوں میں سے ایک ایک کاغذ اٹھانے کو کہا گیا تھا۔ کاغذوں پر مکالمے لکھے تھے۔ لوگ مشق کر رہے تھے۔ کوئی بوڑھا بن کر، کوئی آواز بدل کر۔ میں دیہات سے آیا ہوا نوجوان تھا، مجھے لگا کہ مجھ سے یہ “رام لیلا” نہیں ہوگی۔ میں ایک طرف بیٹھ کر آڈیشن دیکھتا رہا تھا۔

چند روز بعد بڑے بھائی صاحب پھر آئے تھے۔ میں نے انہیں سچ بتا دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ جاؤ رضوی صاحب کا شکریہ ادا کرکے آؤ۔ میں گیا تھا۔ انہوں نے میری شکل دیکھ کر کہا تھا، “آڈیشن میں فیل ہو گئے کیا؟ “جی میں نے آڈیشن دیا ہی نہیں” ،”تو پھر مجھ سے ملنے کیوں آئے ہو؟”، “جی شکریہ کہنے” “ارے میاں لگتا ہے شرمیلے ہو، شرمیلے پن پر قابو پا لو تو پھر آ جانا، جب کامیاب ہو جانا تو شکریہ کہہ لینا”۔ البتہ اس بار انہوں نے چائے نہیں پلائی تھی شاید اس لیے کہ بہت مصروف تھے۔ بہر حال وہ مجھے ہمیشہ اچھے لگے، یاد رہے، میں ان کا معترف ہوں اور مداح بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے ان کے ارتحال کی خبر بھی فون پر اقبال ہوسٹل کے ساتھی اور دوست الیاس احمد چوہدری نے دی تھی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply