ذرا اندر کی بات ۔۔۔سید عارف مصطفیٰ

سترہ جنوری کو ہماری آزادی کی 28 ویں برسی ہو گزری ہے جسے آپ میری شادی کی 28 ویں سالگرہ بھی کہہ سکتے ہیں، تاہم کل صبح کو میری بڑی بیٹی نے اس دن کے حوالے سے مبارکباد کچھ اس طرح دی

Happy 28th anniversary of tolerance for each other …
یعنی ایک دوسرے کو برداشت کرتے 28 برس ہوجانے  پر مبارکباد

درحقیقت اس نے ایک بڑی سچائی کو بہت آسانی سے تہنیتی پیغام میں سمودیا ۔ بلاشبہ یہ پیغام اس حقیقت کا عکاس ہے کہ جوڑے کبھی کبھی آسمانوں ہی میں نہیں بنتے، خلاؤں میں بھی بنتے ہیں ۔۔۔ یہ الگ بات کہ ایسے کئی جوڑوں کی تو ساری عمر فرار کا پیرا شوٹ ڈھونڈنے ہی میں گزر جاتی ہے۔ چونکہ اب اس بات سے کوئی مزید فائدہ یا نقصان ہونے والا نہیں چنانچہ بہتر ہے کہ میں یہ اعتراف کرلوں کہ میں اور میری بیگم مزاجاً اور عادتاً ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں، اتنے مختلف کہ  ہمیں بطور مثال برتا جاسکتا ہے ۔ اس مختلف  مزاجی کا سائز سمجھانے کے لیے پولز اے پارٹ والی مثال تو ذرا بڑی ہوجائے گی بس ذرا چھوٹے لیول پہ لیہ سے لندن کے فرق جتنا باور کرلیجیے ۔۔۔۔ لیکن الحمدللہ جیسا کہ سارے وطن عزیز میں کامل انہماک سے ہوتا چلا آرہا ہے یعنی پوری شوریدہ سری و تضادات سے پُر ازدواجی حقائق کے باوجود ہمارے آنگن میں بھی پھول مہکے ہیں اور وہ بھی چھ ۔۔۔

ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ کسی بڑے تنازعے اور ضابطہء فوجداری والے باضابطہ فساد کے بغیر ہی ہماری ازدواجی زندگی کی یہ تیسری دہائی مکمل ہونے کے قریب آن پہنچی ہے اب ہم دونوں میں سے یہ کس کے لیے صبر کا مقام ہے اور کس کے لیے شکر کا ،اس کا تعین دونوں جانب سے شاید کبھی منصفانہ طور پہ نہ ہوسکے گا – گو بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھ جیسے عجیب و غریب بندے کو یوں بھگت پانا بس اسی شیرنی کا حوصلہ تھا لیکن یہاں آپ مجھے بھی داد سے محروم نہ کریں کیونکہ مجھے برداشت کرنے کی اس تپسیا کے عیوض میں نے ان کے جنت میں داخلے کا استحقاق بھی تو پیدا کردیا ہے ۔۔۔

مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ میں شاید معمولی بندہ سہی ،لیکن میرے معمولات بہت غیرمعمولی ہیں اور شاید عادات بھی، جنہیں سمجھ پانے کے لیے کوئی جوڈیشل کمیشن ہی کچھ کرپائے تو کرپائے ورنہ کسی چھوٹی موٹی سی خاندانی یا معاشرتی جے آئی ٹی کے بس کی بات نہیں ۔اب اسی کو لے لیجیے کہ میں پڑھنے لکھنے کی شدید ‘ لت’ کے باعث شادی کے ایک ہفتے بعد ہی اپنا ازدواجی کمرہ چھوڑ کے دوسرے کمرے میں منتقل ہوگیا تھا اور گو کہ میرا اس ازدواجی سبیل المعروف حجلہء عروسی میں کبھی کبھار حسب ضرورت آنا جانا تو ضرور لگا رہا لیکن بیگم کے پاس بہت تفصیل سے تادیر جم کے بیٹھ پانا اور افواہوں کے تبادلےکرپانا بہت ہی کم ممکن ہوا اور یوں بہت سی داستانیں َان کہی رہ گئیں اور اسی وجہ سے ان کئی برسوں میں میری زوجہ محترمہ ایک ایسی شدید گھٹن کا شکار رہی ہیں کہ جس کی اذیت کا اندازہ کوئی برصغیر کی خاتون ہی کرسکتی ہے۔

مجھے یہاں یہ تسلیم کرلینے میں کوئی حرج نہیں کہ میری زوجہ محترمہ متعدد ایسی صفات عالیہ سے پُر ہیں کہ جن کی توصیف بیان نہ کرنا بڑی زیادتی ہوگی ۔۔۔ معاملہ فہمی سلیقہ اور ذمہ داری جیسی خوبیاں تو سمجھیے کہ میری بیگم پہ بس ختم ہی ہیں اور رہی میری اپنی ذات تو ، معاملہ فہمی اور سلیقے کی موجودگی کی مقدار بس اسی تناسب سے ہے کہ جس قدر تھر میں پانی اور وطن عزیز میں قانون کی حکمرانی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ میرا پکا ارادہ ہے کہ جب کبھی اپنی زوجہ کو تفصیل سے جان اور سمجھ سکا تو ان کے بارے میں زیادہ تفصیل سے لکھوں‌ گا کیونکہ وہ اب بھی اکثر اپنے کسی نہ کسی نئے پہلو سے مجھے حیران کرڈالتی ہیں اور بلاشبہ اس صلاحیت سے وہ پوری طرح لبریز ہیں اور رہا میں ، تو یہ عاجز تو عرصے سے ایک ایسی کھلی کتاب کی مانند ہوگیا ہے کہ مسلسل کھلا رہنے سے شاید جس کے بیشتر ورق تو پھٹ ہی گئے ہیں اور جو چند بچے کھچے رہ گئے ہیں ان کو تند ہوائیں اڑا لے جانے پہ تلی ہیں ۔۔۔۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ جب میں پہلی بار شادی کی آزمائش سے دوچار ہوا تھا ( ویسے دوسری بارکی تو کی نوبت ہی نہیں آئی ، لیکن پھر بھی ایسا مغالطہ پیدا کرنا بھی کتنا خوشگوار لگتا ہے ) تو آس پاس کے ازدواجی سانحات کی روشنی میں بخوبی جانتا تھا کہ کوئی زوجہ دراصل کسی بندے کی اوقات درست طور پہ ناپنے مگر غلط طور پہ بتانے کا ایک خودکار قدرتی آلہ ہے جو کہ آ بیل مجھے مار کے اصول پہ خود ہی بڑے اہتمام سے گھر لایا جاتا ہے اور پھر یہ ہر وقت کام کرتا رہتا ہے۔

اسی حقیقت سے واقفیت ہی کا اعجاز تھا کہ کامیاب شوہروں کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے میں نے خود سے کبھی تیس مار خان بننے کی کوشش ہی نہیں کی کیونکہ اس معاملے میں کسی بیگم کی گنتی تیس مار خاں کو تیس تک نہیں بلکہ بارہ پندرہ یا بہت ہوا تو اٹھارہ  بیس تک ہی محدود رکھتی ہے اور اسی باعث 28 برس کی شادی کے بعد میرا عملی مشورہ یہ ہے کہ کسی بھی شوہر کو اولوالعزمی کا مطلب وہی مراد لینا چاہیے جو بیگم سمجھے اور خواہ مخواہ کے ٹو کی چوٹی سر کرنے کا خناس ہرگز نہیں پالنا چاہیے خصوصاً جبکہ اس کی بیگم کےٹو کو بھی کٹی پہاڑی جتلانا بخوبی جانتی ہو ۔۔ آخر میں بس یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ گو میں نے زندگی میں کافی من مانی بھی کی ہے لیکن اب شادی کے 28 برس بعد مستقبل میں میرا کسی حد تک زرّیں شمار کیے جانے لائق قول یہ ہے کہ جس کسی کے سر میں اگر خود مختاری کا سودا سمایا ہوا ہے یا نہایت باعاتماد نظر آنے کا ذوق ہے تو اسے نکاح خواں‌ کے سائے سے بھی دور رہنا چاہیے، ورنہ تو بندہء صحرائی کے بھی سرمایہء انا اور متاع پندار کو بیگم کا مال مقبوضہ بنتے دیر نہیں لگتی اور دو تین برس کی ازدواجی ناکہ بندی کے بعد تو ہر قسم کا نوشہ پالتو بن ہی جاتا ہے اور لاریب کہ اگر دفتر میں ناک پہ مکھی بھی نہ بیٹھنے دینے والے طرم خان و پھنے خان کے گھر میں بھی بہت رازداری و احتیاط سے جھانک کے دیکھا جاسکے تو وہ بھی بڑی فرمانبرداری سے چھٹی والے دن بیگم کے ساتھ بیٹھا لوکی کدویا توری وغیرہ وغیرہ چھیلتا دیکھا جاسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply