جہاں کیلاشا بستے ہیں ۔۔جاوید خان/12

باباسرائے:
بابا سرائے چار منزلہ عمارت ہے۔اس کی چوڑی راہ داریاں سرخ ٹائیلوں سے سجی ہیں۔راہ داریاں کیاہیں،دو طرفہ کمروں کے بیچ پورے پورے ہال ہیں۔اس کی چاروں منزلیں ایک ہی نقشے پربنی ہوئی ہیں۔مَیں ہال میں لگی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا،ایک لمبا میز ان درجن بھر کرسیوں کے درمیان لگا تھا۔سبز،سفید،سرخ،نیلے اور پیلے رنگوں کے قمقمے اس کی چھت سے روشنی بکھیر رہے تھے۔مختلف رنگوں کے آمیزے سے بنی روشنی کا تاثر مدہم تھااوراچھا تھا۔سب سے خوب صورت منظرچھت سے لٹکے فانوس کا تھا۔جس کے نیچے میز اور کرسیاں آمنے سامنے لگی تھیں۔مَیں رات گئے تک یہاں بیٹھا دریا اور سڑک کنارے بہتے پانیوں کو سنتا رہا۔

رَت جگا:
رات کو ہی ایک چھوٹی سی میٹنگ ہوئی تھی۔پانچ لوگوں کی خفیہ کونسل،خداتعالی ٰ کے نیک بندوں نے اگلے پڑاؤ کے لیے منصوبہ بندی کی۔پھر سب اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لیے چلے گئے۔میرا پلنگ کھڑکی کے ساتھ تھااور کھڑکی باہر ہال میں کھلتی تھی۔ ایک فولادی جالی نے صرف ہوا کے لیے راستہ رکھا تھا۔رات بھر نیند مجھ سے دور رہی۔مَیں کروٹیں بدلتا رہا،منصور اسماعیل نے کئی مرتبہ جاگ کر پوچھا،سوتے کیوں نہیں ہو۔؟کمرے میں پنکھے اور باہر پانیوں کی آوازیں تھیں۔چترال کی گرم رات نے مجھ سے نیند کی نعمت چھین لی تھی۔رات بھر گرم رات نے سونے نہ دیا۔

یہ بھی پڑھیں :جہاں کیلاشا بستے ہیں ۔۔جاوید خان/11
صبح:
صبح شفقت نے دروازہ کھولا اورکہا باہر کا موسم بہت اچھا ہے۔پانیوں کی آواز سے کچھ دیر کے لیے یوں لگا جیسے باہر بارش ہورہی ہو۔وقاص نے بھی دوسری مرتبہ دروازہ کھٹکھٹایا کہ نماز کی تیاری کرو۔کچھ صاحبان غسل خانے میں چلے گئے اور کچھ باہر کرسیوں پر براجمان ہوگئے۔دُھندلی صبح میں مناظر بھی دھندلے تھے۔دھنک نے رخصت لی ،تو دائیں جانب نیچے دریا کنارے کھیت تھے اور ان کے سرے پر گھنے چناروں کاخوب صورت نظارہ۔منصور اسماعیل نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا واہ۔۔ یہ چناروں کی دھرتی لگ رہی ہے۔
نماز کے بعد ہم باہر آکر بیٹھ گئے۔سامنے پہاڑ فلک کو اٹھائے ہوئے لگتے تھے۔شاہی بازار جس میں ہماری سرائے تھی،شنواری ہوٹل ہے۔اسی کے موڑ پر شاہی قلعہ اور شاہی مسجد ہے۔قلعہ چناروں کے پیچھے نظر نہیں آرہا تھا۔ گدلا،مٹیالا دریائے چترال رواں تھا۔دریا کنارے پار شہر کادوسراحصہ نظر آرہا تھا۔
ہمارے منصور اسماعیل چترالی ٹوپی کے لیے مرے جارہے تھے۔ رات کو بھی اس تلاش میں رہے۔مقصود ہاتھ نہ آیا۔ صبح سویرے ہی ٹوپیوں کے کاریگر اپنی دکانیں کھول لیتے ہیں۔ٹوپیوں کے دام ایک جیسے تھے۔کسی طرح ٹوپی خریدی گئی۔ناشتہ  ہم نے آگے کرنا تھا۔ہوٹل ابھی نہیں کھلے تھے۔ مشر قی پہاڑ کے پیچھے سے کرنوں کا راجا آہستہ آہستہ اوپر آرہا تھا۔
فوجی چھاونی اَورچترال میوزیم ابھی تک خوابیدہ تھے۔اِن کے ساتھ ساتھ چترال کاپولو گراؤنڈ بھی۔چترال آتے ہوئے رات تھی۔اَب دن تھااَو ر اس کی وہ وادیاں،جو چھپی ہوئی تھیں، اب ہمارے سامنے تھیں۔
آٹھ بجنے کو تھے،ناشتے کے لیے ایک جگہ رُکے۔یہ ہوٹل سّیاحوں کے لیے بنایا گیاتھا۔ سڑک کنارے ایک وسیع صحن کے ساتھ،جس میں پھول کھلے تھے۔ہم نے یہاں تصاویر لیں اور آگے چل دیے۔یہی کہیں پر،ایک کتبہ لگا تھا۔جس میں مارخور ٹرافی کاذکر تھا۔اشاروں میں سمجھایا گیاتھا کہ اس طرح ملکی معیشت بہتر ہوگی۔اس طرح کی ٹرافیاں دنیا کے کئی ملکوں خصوصاً افریقہ میں عام ہیں۔مغربی ملکوں میں شیروں کو پنجروں میں پالا جاتا ہے اورشکار کے شوقین لوگوں کے لیے،جو زیادہ جوکھم نہیں اٹھا سکتے، ان کے لیے مصنوعی پارک بنائے گئے ہیں۔لوگ ان پارکوں میں فارموں کے پالے ہوئے شیروں کو شکار کرتے ہیں۔حال ہی میں اس سلسلے کو بند کردیا گیا ہے۔مراد اس طرح کے شکار پر پابندی لگ گئی ہے۔مغربی ملکوں میں خوب صورت غزال سر عام سڑکوں پر پھرتے ہیں۔اک ہم ہیں۔جنھوں نے انھیں ان کی کمین گاہوں سے پکڑ پکڑ کر،شکاریوں کے حوالے کر دیا ہے۔

پھر سے لواری سرنگ:
لواری سرنگ پرکام ہورہا تھا۔سرنگ نمبر ایک پرہمیں رکنا پڑا۔دن ہوگیا تھااور گاڑیوں کی ایک بڑی قطار انتظار میں تھی۔سرنگ نمبر ایک کے آخری دہانے پر پُل سے آگے جاکھڑے ہوں تو سامنے آخری پہاڑی کی تین کھڑی نوکیں نظر آتی ہیں۔یہ دیوداروں سے ڈھکی ہوئی ہیں۔آخری نوک یوں لگتی ہے،جیسے آسمان کو چڑھتا ہوا رستہ ہو۔اس پر کھڑے دیار کے درخت بھی قطار میں ایک دوسرے کے پیچھے رکے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔جیسے چڑھائی چڑھتے چڑھتے ان کے قدم اچانک رک گئے ہوں۔سرنگ کے دہانے کے اُوپر کھڑی چٹان پرسورج،ٹھہرا ہوا لگ رہا تھا۔بادلوں نے یہاں اسے چھپا دیاتھا۔آخر کار راستہ  کھلا،سرنگ پار کی،اور نیچے اترنے لگے۔نماز ظہر نیچے ایک وادی کی مسجد میں ادا کی۔

سبز ملاؤں میں سرخ مُلا:
دِیر بازار میں گہما گہمی تھی۔شہرمیں 14 اگست منایا رہا تھا۔جابجا پاکستان کا قومی پرچم لہرا رہا تھا۔پرچم کی ٹوپیاں پہنے،بیج سینوں پر سجائے لوگ بازار میں پھر رہے تھے۔کچھ نے لباس ہی قومی پرچم کا پہنا ہوا تھا۔لمبی لمبی داڑھیاں اور سز ہلالی فرغل پہنے ملاؤں میں اچانک ایک سرخ مُلا نمودار ہوا۔سرپر سرخ ٹوپی،سر سے پاؤں تک کھلا سرخ کرتا،سرخ عینک،ہاتھ میں سرخ تسبیح اور سینے پر پاکستانی پرچم کا بیج سجائے یہ سرخ مولا نا صاحب،سبز مولویوں سے ہنس ہنس کر لگے مل رہے تھے۔ماضی میں ایشیا ایک دن سرخ اور دوسرے دن سبز ہوتا رہا۔یہاں تک کہ ایسا سرخ ہوا،کہ ایشیا تو ایشیا پوری صدی ہی سرخ ہوگئی۔ لاکھوں انسان سرخ و سبز کی جدوجہد میں اپنا سیال انڈیلتے رہے۔اتنا خون خرچ ہونے کے بعد بھی،ایشیا ک کچھ بھی نہ ہوا۔وہی بدامنی،کشت وخون،بارُود،دُھواں۔سرخ اَور سبز فوجی اس بیچ اپنی اپنی بیرکوں سے ایک دوسرے کو گھورنے کے بعداَب مسکرانے لگے ۔

کمراٹ:
بالائی دِیر بازار سے اتر ے تو کچھ نیچے ایک برساتی نالا آیا۔مرکزی سڑک پر ایک چوکی ہے۔اس چوکی سے دائیں طرف ایک سڑک ٹھیک 78 کلومیٹر سفر کے بعد خوب صورت وادی کمراٹ تک جاتی ہے۔وقاص نے یہاں گاڑی روکی،عرفان اشرف کو ایک طرف لے جا کر،کان میں کچھ کہا،سنا، سر ہلایا پھر گاڑی میں بیٹھے اور رخ کمراٹ کی طرف موڑ دیا۔پہلے پہل واسطہ نیم کچے راستے او راس کے موڑوں سے پڑا۔چڑھائی اور موڑوں سے بھرے اس راستے کے اطراف میں بے رونق وادی کانظارہ ہے۔جوں جوں اوپر چڑھتے جاتے ہیں تو ناشپاتیوں او رپھلوں کی زمین آتی جاتی ہے۔وقاص نے رفتار بڑھا لی،راستہ  قدرے بہتر ہو گیاتھا۔سڑک ویران تھی،کسی اکا دُکا گاڑی کا سامنا ہو جاتا۔سڑک کے دونوں اطراف مکی کے کھیتوں سے گزرکر ہم ”جٹ کوٹ“ جا پہنچے۔خیبر پختون خوا   کے اس علاقے کا یہ نام عجیب ہے۔یہاں جاٹ نا م کی کسی آریائی نسل کی کوئی تاریخ نہیں۔
ایک پہاڑی ندی جو ہمارے دائیں بہہ رہی تھی۔اب بائیں ہو گئی تھی۔چلغوزہ نما خودروجنگل دور اطراف کے پہاڑوں پر اُگے ہوئے ہیں۔سکولوں میں یوم پاکستان منایا جارہا تھا۔شہید بے نظیر بھٹو یونی ورسٹی سڑک کنارے بنی ہے۔اس کا پورا نظار ہ چلتی گاڑی سے ممکن نہیں۔یہاں انہی دنوں ایک کتاب میلے کاانعقاد طے ہو کر منسوخ ہوگیا۔سڑک بیچ بکریوں کے ریوڑ آگئے تھے۔گڈریوں نے سیٹیاں بجائیں،توریوڑوں نے راستہ  چھوڑ دیا۔
ایک چھوٹے سے بازار میں گنے کا رس بِک رہا تھا۔ہم نے ایک ایک گلاس پیا،لمبے بالوں والا ایک دبلا،لمباشخص بالوں میں پاکستانی پرچم رنگ کیے ہوئے گھوم رہاتھا۔پرچم ہوا میں لہرا رہا تھا اور وہ پرچم سے زیادہ۔پگ ڈنڈیوں،ندیوں اور کھیتوں کو پار کرتے ہوئے ایک خوب صورت وادی میں جا پہنچے۔

کل کوٹ:
سبزیوں،پھلوں اور لہلہاتی فصلوں کی وادی کل کوٹ ہمارے سامنے تھی۔یہاں پہنچتے ہی گھٹاؤں نے ہمیں گھیرے میں لے لیا۔ہم اس وادی میں سے گزرتے،راستے پر چلتے رہے او ردیکھتے رہے۔وادی،پہاڑ،جنگل اور ندی۔کل کوٹ سے نکلے تو آگے تھل تھا۔

وادی تھل:
تھل زندہ اناج کی گودی ہے۔یہاں چھوٹے چھوٹے کھیتوں میں زرخیزی ہر وقت جوان رہتی ہے۔اس کے دم پر فصلیں جوان رہتی ہیں۔یہاں کی زمین آلو اور گوبھی پیدا کرنے کے لیے خاص ہے۔پانی کی فراوانی ہے۔شفاف اُجلا پانی کھیتوں کے کنارے بنی نالیوں میں بہتا رہتا ہے۔جیسے اور جب ضرورت ہو کھیتوں کو سیراب کرتا ہے۔ہلکی ہلکی پھواریں پڑنے لگیں تھیں۔کسان کھیتوں میں کام کررہے تھے۔عورتیں ان کے ساتھ ہاتھ بٹا رہی تھیں۔تھل سبزے سے رچی وادی ہے۔سڑ ک اس کے بیچ سے گزرتی ہے۔یوں لگتا ہے کہ قرینے سے سجے کھیت کسی نے تہ در تہ اس وادی میں خود رکھے ہیں۔یہاں کسان بستے ہیں۔نیلگوں پانی کی ایک ندی اس کے درمیان میں بہتی ہے۔
اطراف میں بلند وبالا پہاڑ ہیں،جن پر بلند قامت دیار ہیں۔ہزاروں سال پہلے گندھارن دیوی نے یہاں کی خوب صورت وادیوں میں بیٹھ کر اپنے بال سنوارے تھے۔ اس پورے علاقے سے اس کے حسن کی مہک آج بھی آتی ہے۔ہر تہذیب صدیوں پلنے کے بعد جوان ہوتی ہے۔پھر اس کے شباب کے چرچے چار دانگ عالم پھیلتے ہیں۔ صدیوں تک وہ اپنے حسن سے زمانوں کو گرویدہ کیے رکھتی ہے۔پھر اس پر بڑھاپا آتا ہے۔جب ہڈیاں خاک میں مل کر بوسیدہ ہو جاتی ہیں تو ان کھنڈرات کو آئینہ بنا بنا کر، اَگلے زمانے اس تاب ناک ماضی کو دیکھتے رہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

 

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply