شہادتِ حسینؑ کے مقاصد۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

شاہ است حسینؑ،پادشاہ است حسینؑ
دین است حسینؑ،دین پناہ است حسینؑ
سر داد،نہ داد دست در دستِ یزید
ؑ حقا کہ بنائے لا الہٰ است حسینؑ
محرم آ گیا ہے،آج آل رسول ؐ پہ پانی بند کر دیا گیا۔یومِ عاشور کوئی عام دن نہیں،حق و باطل کی تمیز کا دن۔دنیابھر کے عدل پسند انسان امام عالی مقامؑ کی لازوال قربانی کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔حسینیتؑ صبحِ قیامت تک دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے امید کا استعارہ ہے۔یزیدیت،ظلم،جبر،استحصال اور جفاو زبردستی کا ایک قابلِ نفرت نشان۔جوں جوں انسانیت بیدار ہوتی چلی جا رہی ہے ،توں توں کربلا سے اس کا رشتہ گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔جوش ملیح آبادی نے بالکل درست فرمایا تھا کہ
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امام عالی مقامؑ کی عظیم قربانی کے مقاصد میں سے یہ بھی تھا کہ نہ صرف اسلام بلکہ پوری انسانیت کو طاغوتی اور ظالم قوتوں کے شر سے بچایا جائے۔لاریب حسین ابنِ علیؑ نے جو فرمایا تھا وہ بالکل درست ہے۔آپؑ نے یزید کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ’’ذلت ہم سے دور ہے‘‘ گویا یزید کی بیعت کرنے کو آپؑ نے ذلت قبول کرنے کے مترادف قرار دیا۔امام عالی مقامؑ نے فرمایا کہ’’ یا اللہ اس قوم نے مجھے دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کر دیا ،یا میں یزید کی بیعت کی ذلت قبول کروں اور یا پھر موت۔پردردگارا! مجھے ذلت قبول نہیں‘‘۔سچائی اور حق کی خاطر اپنی اور اپنے رفقا کی جان کا نذرانہ پیش کر کے امام حسینؑ نے انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ جب ذلت کی زندگی اور عزت کی موت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو مردانِ خدا عزت کی موت کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
امام عالی مقامؑ کا یہ جملہ بھی اپنے اندر معنی کا ایک جہاں رکھتا ہے،آپؑ نے فوجِ اشقیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا!’’ اگر تم خدا کی عبودیت اور غلامی قبول نہیں کرتے تو پھر ابو سفیان کے پوتے کی بھی غلامی قبول نہ کرو‘‘معرکہء کرب و بلا پیش آئے تو چودہ سو سال کا عرصہ بیت چکا ہے ۔حق آشکار ہے، مگر دیکھا جائے تو آج بھی ہوا و حرص کے بندے اپنے گلے میں یزیدانِ عصر کی غلامی کا طوق ڈالے ہوئے ہیں،جبکہ حسینیتؑ آج بھی ان ہی قوتوں کے خلاف بر سرِ پیکار ہے۔قربانیوں کا جو سلسلہ کربلا سے چلا تھا وہ آج بھی جاری ہے۔ہمارے اردگردکربلا بپا ہے۔ہمیں حسینیؑ قافلے کا حصہ بنتے ہوئے انسانیت کو نہ صرف جبر کے پنجوں سے آزاد کرانا ہے بلکہ اس سوچ سے بھی آزادی دلانی ہے جو یزیدی فکر کی حمایت میں معصوم انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کر رہی ہے۔شہادتِ حسینؑ کا مقصد اگر کوئی یہ سمجھتا ہےکہ حصولِ جنت تھا تو وہ غلطی پر ہے،جنت تو میرے حسینؑ کی اپنی جاگیر ہے،حدیثِ رسولﷺ اس پر شاہد ہے۔موضوع یہ ہے کہ آپؑ نے شہادت کے راستے کا انتخاب کیوں کیا؟حضرت معین الدین چشتی اجمیری کے اشعار شہادتِ حسینؑ کے مقاصد کو خوب بیان کرتے ہیں۔استاد شہید مرتضیٰ مطہری فرماتے ہیں کہ’’ امام حسینؑ کی تحریک تاریخِ اسلام کا ایک اہم موڑ ہے۔حسینؑ ابنِ علیؑ نے اپنے قیام کے ذریعے تاریخِ اسلام میں ایک تغیر پیدا کیا۔آپؑ نے لوگوں کو بیدار کیا اور انھیں بتایا کہ اسلام وہ نہیں جو بنی امیہ والے بتاتے ہیں،یہ اسلام کا ظاہر ہے باطن نہیں،آٹھ ذی الحجہ کو جب لوگ حج کی طرف آ رہے تھے،تو امام عالی مقامؑ عین اسی وقت مکہ سے رخ موڑ کر کربلا کی طرف کر لیتے ہیں‘‘ بلا شبہ امام حسینؑ کا قیام انسانی بیداری کی ایک عظیم تحریک ہے۔پیر نصیر الدین نصیر کہتے ہیں کہ
کوئی شبیرؑ سا خالق کا پرستار نہیں
امتِ احمدِ مرسل کا وفادار نہیں
لب پہ دعوے ہیں،مگر عظمتِ کردار نہیں
جرات و عزم و عزیمت نہیں،ایثار نہیں
کودتا کون ہے؟امڈے ہوئے طوفانوں میں
کون گھر بار لٹاتا ہے بیابانوں میں؟
آج عالمِ اسلام اور پوری انسانیت کو واقعہ ء کربلا سے درسِ جراٗت و حریت لینے کی ضرورت ہے۔بے شک اسلام انسانیت کے لیے عزت اور وقار کا پیغام لایا۔ انسان کو آج کے یزید کو پہچاننے کی بھی اشد ضرورت ہے،انسانیت یزیدِ عصر کے پنجوں میں جکڑی ہوئی ہے،کئی شمر یزیدی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے حسینیتؑ کا راستہ روکنے کی کوششوں میں مصروفِ کار ہیں۔ مگر انھیں خبر نہیں کہ جو عزت کی موت کا راستہ اختیار کرتے ہیں،کامرانی ان کے قوموں پہ نثار ہو جایا کرتی ہے۔بے شک انبیاء کی تحریک اور توحید کا عقیدہ انسانوں کو انسانوں کی عبودیت سے نکالنے کے لیے ہے اور امام حسینؑ اسی تحریک کے محافظ اور اسی عقیدے کے ترجمان ہیں۔صبر کی تاریخ کے وارثوں کو امام عالی مقامؑ سے سبق لیتے ہوئے یزیدی قوتوں کے خلاف میدانِ عمل میں نکلنا ہو گا کہ اسی جذبے اور تحریک سے ہی انسانیت اور عالمِ اسلام کی بقا ہے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply