• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • وہ خواب جو ہم سب نے مل کے دیکھا تھا۔۔محمود اصغر چوہدری

وہ خواب جو ہم سب نے مل کے دیکھا تھا۔۔محمود اصغر چوہدری

وہ خواب جو ہم سب نے مل کے دیکھا تھا۔۔محمود اصغر چوہدری/ پاکستان والے بھلے ہی اسے سیلکٹڈ وزیرا عظم کہتے رہے لیکن عمران خان سمندر پار پاکستانیوں میں ہر دلعزیز لیڈر تھے ۔ لوگ ان سے دیوانوں کی طر ح محبت کرتے ہیں ۔ وہ ہر اس شخص کے لئے سیاست میں ایک امید کی کرن بن کے چمکے تھے جو روایتی سیاست سے بیزا ر ہو کر کسی تبدیلی کے خواہشمند تھے ۔ وہ اوورسیز پاکستانی جو ان ممالک میں رہائش اختیار کرتے ہیں جہاں جمہوریت ایک تناور درخت کے طور پر موجود ہے جہاں آئین و قانون کی بالادستی اور امیر وغریب میں مساوات کو عملی شکل میں نافذ العمل دیکھتے ہیں وہ پاکستانی موروثیت زدہ جمہوریت اور آمریت زدہ ڈیموکریسی سے بد ظن تھے ان کی نظریں ایسے کسی تیسری قوت کی جانب دیکھ رہی تھیں جو ان کے خوابوں کی تعبیر بن کے سامنے آئے جو کئی دہائیوں سے پاکستان میں جاری مروج نظام کو تبدیل کرنے کا نعرہ بلند کرے اسی لئے عمران خان اور پی ٹی آئی کو جتنی پذیرائی یورپ ، برطانیہ اور امریکہ وغیرہ میں ملی وہ مثالی تھی ۔
خود مجھے عمران خان کی نظر میں ایک چینج نظر آتا تھا ۔ میرے چھپے ہوئے کالمز کی تعداد پانچ سوسے عبور کر چکی ہے اور میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ آج تک اس قلم سے کسی کو قصداگلیمرائز کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن عمران خان وہ شخصیت ہیں جن کی کامیابی کے لئے میں نےبھی کالمز لکھے کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ ہماری ملک سیاست کے ٹھہرے ہوئے جوہڑ میں کنکر بن کر ہلچل مچائے گا اورنوجوان نسل کو سیاست کی جانب لیکر آئے گا ۔ لیکن جب وہ عملی طور پر اس پوزیشن میں آئے تو انہوں نے وہی غلطیاں کی جن سے متنفر ہو کر نوجوان ایک مسیحا کی تلاش میں آئے تھے ۔ ٹکٹوں کی تقسیم سے لیکر ، اتحادیوں کی سلیکشن تک انہوں نے ہر وہ طریقہ اپنانا شروع کر دیا جو ماضی کی دیگر جماعتیں کرتی رہیں
ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کے وعدوں کو تو لوگ سیاسی نعرہ سمجھ کر بھول گئے لیکن جب تین سال میں تین تین وزرائے خزانہ تبدیل کرکے بھی ان سے معیشت قابو نہیں ہو پائی ۔ہر چھ ماہ بعد پولیس کےآئی جی تبدیل کروا کر بھی ان سے لا اینڈ آرڈر بھی ٹھیک نہ ہوسکا اور ملکی خارجہ پالیسی کا عالم یہ ہوگیا کہ ان کا کوئی فون بھی اٹینڈکرنے کو تیار نہیں تھا تو وہ سارے خواب جو ہم سب اوورسیز نے ملکر دیکھے تو وہ چکنا چور ہونا شروع ہوگئے ۔ عوام شو رمچا رہے تھے کہ مہنگائی ہے بد انتظامی ہے معیشت کی زبوں حالی ہے ۔ ڈالر کی اونچی پرواز ہے ۔ اسٹیٹ بنک آئی ایم ایف کو گروی ہوگیا ہے ، بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتیں آسمان پر پہنچ چکی ہیں تو ان کے پاس ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ میرے مخالفین چور ہیں ڈاکو ہے لٹیرے ہیں میں ان کو نہیں چھوڑوں گا ۔
وہ اپنی کارکردگی پر فوکس کرنے کی بجائے انتقامی سیاست کو تمام مسائل کا حل سمجھتے رہے ۔ وہ سمجھتے رہے کہ تقریروں سے سارے مسائل حل ہوجائیں گے ۔لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا ۔ پھر وہی اتحادی انہیں سب سے پہلے چھوڑ کر الگ ہوئے جن کے بارے ہم نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ جس عمارت کی بنیاد غلط رکھی جارہی ہے اس کا انجام غلط ہوگا توپی ٹی آئی کے دوست کبھی الیکٹیبلز کی مجبوری کا کہہ کر اور کبھی یہ طفل تسلی دیکر ہمیں چپ کروا دیتے تھے کہ اگر اوپر اچھا انسان بیٹھا ہو تو نیچے سب ٹھیک ہوجاتا ہے ۔عمران خان کے ارد گرد خوشامدی اور پیراشوٹر چاپلوس لوگوں کی موجودگی میں پی ٹی آئی کا نظریاتی ورکر ان سے کوسوں دور تھا جو انہیں حالات کی سنگینی سے آگاہ کرتا۔ پی ٹی آئی کا ہر وہ کارکن جس نے عملی طور پر پی ٹی آئی کی یورپ میں بنیاد رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا وہ نظر انداز کر دیا گیا لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ جب عمران خان کی سیاست کی کشتی ڈوبنا شروع ہوئی اور ان کے اتحادی بھاگنا شروع ہوئے تو اس وقت بھی خان صاحب کے ساتھ کھڑے ہونے والے یہی نظریاتی کارکن تھے ۔ عمران خان کے پاس ایک اور سنہری موقع آگیا تھا کہ وہ اس قوت کو استعمال کرتے گریس فل طریقے سے استعفی دیتے اور ایک بار پھر میدان میں اترتے لیکن انہوں نے آخری وقت میں وہی حربے استعمال کئے جو ماضی میں استعمال کئے جاتے رہے کبھی اتحادیوں کی منتیں اور کبھی آئین شکنی کے ذریعے آخر ی وقت تک کرسی سے چمٹے رہنے کی خواہش۔ اپنی کارکردگی پر بات کرنے کی بجائے مخالفین پر غداری کے سرٹیفیکیٹس بانٹنے کی گھسی پٹی روایت ۔
اس طرح ملکی مروج سیاست میں تبدیلی کی ایک ٹمٹاتی کرن بھی غائب ہوئی ۔ لیکن افسوس اس بات کے ہے کہ ان کے جانے کے بعد ہم پھر وہیں کھڑے ہیں جہاں سے ہم نے خواب دیکھنا شروع کئے تھے ۔ عمران خان کی ناکامی صرف ان کی تنہا ناکامی نہیں ہیں بلکہ ہر اس شخص کی ناکامی ہے جو پاکستانی سیاست میں تبدیلی کا خواہاں تھااس سارے منظر میں اگر پی ٹی آئی نے خود احتسابی پر سنجیدہ غور کیا تو شاید ان کی واپسی ممکن ہو سکے لیکن اگر اسی زعم میں مبتلا رہے کہ ان کو سازش سے ہرایا گیا ہے تو کبھی اس نتیجے پر پہنچ ہی نہیں پائیں گے کہ ان کے خلاف سب سے بڑی سازش ان کی اپنی بیڈ گورننس. منتقم مزاجی، رعونیت اور عقل کل کے خبط میں مبتلا سوچ تھی

وہی ہے خواب جسے مل کے سب نے دیکھا تھا

Advertisements
julia rana solicitors

اب اپنے اپنے قبیلوں میں بٹ کے دیکھتے ہیں

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply