لاپتہ افراد کیس میں عدالت غائب۔۔اے وحید مراد

عدالت عظمی میں جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے چھ لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کی۔ برسوں سے لاپتہ ان افراد کے نام مدثر اقبال، نویدالرحمان، نسیم اقبال، عبدالرحمان، عمرحیات اور عمربخت ہیں۔
لاپتہ افراد کمیشن کے سیکرٹری اور ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور بتایاکہ تین ہزار لاپتہ افراد کے کیس نمٹا دیے گئے ہیں۔ پندرہ سو ستتر لاپتہ افراد کے مقدمات زیرالتواء ہیں ۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے کمیشن میں پیش ہوناہے مگر راستے میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ جو لوگ عدالت کو لاپتہ افراد کے لواحقین کی کسمپرسی سے آگاہ کرتے ہیں ان کو اگر کمیشن کی کارروائی تک رسائی نہیں دی جائے گی تو ہم حکم جاری کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہم ایسی ریاست میں رہتے ہیں جو اسلامی جمہوریہ کہلاتی ہے، یہ فرض ریاست کا ہے، اوراگر ریاست اپنے فرض کی ادائیگی میں ناکام ہوتی ہے اور اگر کوئی آگے آکر ریاست کو اس کے فرائض یاد دلاتا ہے تو اس کی ہمت افزائی کرنا چاہیے، اس شخص کی حوصلہ شکنی نہیں کرنا چاہیے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس نے بتایاکہ لاپتہ افراد کمیشن کے چیئرمین کو بتادیں گے ۔ آمنہ مسعود نے کہاکہ کمیشن کے چیئرمین ہوتے ہی نہیں تو کیاکریں،وہ نیب کے چیئرمین بن گئے ہیں، پانچ منٹ کیلئے کمیشن میں آتے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ جو کیس میں نے رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعے بھیجے تھے واپس کیوں کیے؟۔
کمیشن کے سیکرٹری نے بتایاکہ چیئرمین لاپتہ افراد کمیشن کے دفتر آتے رہتے ہیں، جب نیب میں چھٹی ہوتی ہے تب بھی آتے ہیں۔آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایا کہ جن لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے پیش ہوتی ہوں وہ زیادہ تر پڑھے لکھے نہیں،یہ لوگ اردو بھی نہیں لکھ سکتے، ہم کمیشن کی سہولت کا کام کررہے ہیں،یہ کمیشن برسوں سے کام کر رہا ہے۔
کمیشن کے سیکرٹری نے بتایاکہ ہم ایسا ادارہ ہیں جس کو خفیہ ایجنسیاں بھی جوابدہ ہیں، ہمارے پاس ایسے افراد بھی ہیں جو لاپتہ لوگوں کے خاندان والوں سے پشتو میں بھی گفتگو کرسکتے ہیں۔ آمنہ مسعود نے کہاکہ کمیشن نے جان بوجھ کر ہم پر دروازے بندکیے ہیں، رجسٹرڈ ڈاک سے بھیجے مقدمات واپس کیے۔ سرکاری وکیل نے کہاکہ کمیشن میں کوائف جمع کرانے کیلئے فارم بنایا گیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس کو بھرا جائے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ جن مقدمات کی ڈاک وصول نہیں کی گئی، ان کی تفصیلات عدالت کو فراہم کریں۔
اس دوران عدالت میں دولاپتہ بھائیوں عمرحیات اور عمربخت کے والدین روسٹرم پر کھڑے ہوگئے۔ ستر برس سے زائد عمر کے بوڑھے والدین پشتو میں بولتے رہے اور سب خاموش ہوگئے۔ (چونکہ پشتو سمجھ لیتاہوں اس لیے جو کچھ کہا گیا اس کا اردو ترجمہ پیش ہے)۔
بوڑھی ماں نے کانپتے ہوئے ججوں کو مخاطب کرکے کہاکہ جس رات ہمارے بیٹے کو اٹھایا گیا وہ قیامت کی رات تھی، ہم ناخواندہ پٹھان ہیں، لوگ ہمیں پاگل کہتے ہیں، ہم بے وقوف ہیں، مگر جج صاحب، ہمارے اور بچے نہیں ہیں۔ اللہ کیلئے اگر کچھ کرسکتے ہیں تو کریں، میں عورت ہوں عدالت میں کیسے کچھ پوچھ سکتی ہوں، وہ ارشد پولیس والاجو میرے بیٹے کو لے گیا تھا اس نے کہاتھاکہ اگر اس طرح کھلے آسمان تلے رات گزار سکتے ہو تو گزار دو۔ ہم ٹھنڈ سے مررہے تھے، کچھ لوگوں نے ہمیں اس حالت میں دیکھا تو مدد کی۔
جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ یہ عورت کیا کہہ رہی ہے؟ (جسٹس صاحب کا تعلق مانسہرہ سے ہے اور وہ ہندکو بولتے ہیں مگر کسی حد تک پشتو بھی سمجھتے ہیں، معلوم نہیں آج ان کو سمجھ کیوں نہیں آرہی تھی)۔ ان کے ساتھ جسٹس مقبول باقر اورجسٹس فیصل عرب براجمان تھے جن کا تعلق سندھ کراچی سے ہے۔
بوڑھی ماں بولتی رہی، میرے بچے کو لے آئیں،اس کا پتہ لگائیں، وہ بے گناہ اور بے خطا پکڑا گیاہے، ہم اللہ کے عاجز ومسکین لوگ ہیں۔ ہم سے آٹھ لاکھ روپے مانگ رہے تھے کہاں سے لاتے؟۔ اللہ کیلئے کچھ کریں، حیاآتی ہے عورت ہوتے ہوئے اس عدالت میں آنے اور یہاں بولنے سے۔عورت ہوں کسی بات اور چیز سے باخبر نہیں۔
اسی دوران بوڑنے باباجی بولنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی اہلیہ کو ڈانتے ہوئے خاموش کراتے رہے کہ مجھے بولنے دو، بس کرو۔بابا جی نے کہاکہ آٹھ لوگ پولیس والے نے اٹھائے تھے، افغانوں سے بارہ لاکھ روپے لے کر چھوڑ دیا، صرف میرے بیٹے کو واپس نہیں کیا۔ہم پر اور ہمارے بیٹے پر رحم کریں۔ یہ بات کرتے ہوئے زاروقطار روتے بوڑھے نے کاپنتے ہاتھوں سے اپنے سر سے ٹوپی اتاردی اور ججوں کے سامنے پھیلائی۔بوڑھے باپ نے کہاکہ مسلمانی نہیں ہے، اللہ ان کافروں سے ہمارے جان چھڑا دے۔
عدالت میں کئی افراد نے بوڑھی اماں کو بڑی مشکل سے روسٹرم سے ہٹایا اور کرسی پربٹھایا، بوڑھے باباجی کو بھی پیچھے لے آئے، اس کے باوجود ، دونوں بولتے رہے۔ کئی افراد بزرگ شہریوں کو خاموش کرانے کی کوشش کرتے رہے، باباجی نے کہاکہ اس زندگی موت بہترہے۔ ایک بندہ مجھے قتل کردے، سارے تو نہ ماریں۔
جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ملوث پولیس اہلکار کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، اس کو عدالت نے ریلیف دیا ہے تو ہائیکورٹ میں اپیل زیرالتواء ہے، اس کے بعد سپریم کورٹ میں بھی اپیل آسکتی ہے۔ایسی صورتحال میں کیاکریں؟۔ عدالتیں انتظامی نمائندوں اور لاء افسران پرانحصارکرتی ہیں اور عدالت کو یہی لوگ حقائق بتاتے ہیں جن پر فیصلے کرتے ہیں، اس وقت تک جب تک دوسری طرف سے کوئی ذریعہ اس کی تصدیق یا تردیدنہ کرے کہ جو کچھ لاء افسر کہہ رہاہے وہ درست نہیں۔
جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہم خود کو بے یارومددگار تصورکرتے ہیں جب فریق کے پاس عدالت کی مدد کیلئے کچھ نہ ہو۔ بوڑھے ماں باپ کیلئے کیا کریں؟۔ آمنہ جنجوعہ نے کہاکہ یہ لوگ سوات سے آتے ہیں، کم ازکم پانچ ہزار کا خرچہ ہے، مانگ تانگ کر یہاں تک پہنچتے ہیں۔ ہم ان کو بہت روکتے ہیں کہ ہرسماعت پر آنے کی ضرورت نہیں مگر یہ میاں بیوی اب اس عمر میں ہیں کہ کسی کی نہیں سنتے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ یہ لوگ اس ضعیفی میں اپنے آپ کو تکلیف پہنچاتے ہیں، اس کا ممکنہ حل کیا ہے، ان کو ہرپیشی پر آنے کی ضرورت نہیں۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ہم واضح کرچکے ہیں کہ اگر کسی کے خلاف کوئی مقدمہ ہے تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اوراگر نہیں ہے تو حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔عدالت کا طریقہ کار سب کو معلوم ہے، جب ہمارے سامنے کوئی چیز واضح طور پر موجود ہی نہ ہو تو عدالتیں کچھ نہیں کرسکتیں۔
آمنہ مسعود نے ایک اور لاپتہ شخص کے مقدمے کی بات کی تو جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ بہت سے لوگ افغانستان چلے گئے تھے، ایسی صورت میں کہاں سے معلومات آئیں گی۔ آمنہ مسعود نے کہاکہ وہ مسجد کا امام تھا، اگر وہ چلا بھی گیا ہوتا تو ماں باپ سے رابطہ کر سکتا تھا، اس نے ایسا کیوں نہ کیا اور اپنے والدین کو عذاب میں رکھا ہواہے۔ اس شخص کا شدت پسندی یا عسکریت سے کوئی تعلق ہی نہ تھا، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس معاملے کا تعلق سیاست سے بھی ہے اور ریاست سے بھی ۔افغان جہاد کیلئے لوگوں کو اکسایا گیا تھا۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ گزشتہ دنوں کسی نے کمنٹ کیاتھا کہ 1979 میں ہمارے پڑوسی ملک میں جو ہوا، امریکا نے جو کچھ کیا، پھر اس کے بعد ہمارے لیے جو کچھ راستے بچے۔اس نے ہماری معیشت اور معاشرے پر تباہ کن اثرات مرتب کیے، یہ نہیں کہتاکہ حکومت ذمہ دار نہ تھی، ہماری حکومت بھی ذمہ دارتھی ۔ مگر عدالت اس میں کیا کرسکتی ہے۔
آمنہ مسعود نے کہاکہ اس معاملے میں وزیرداخلہ کو آنا چاہیے، اعلی سطح پر معاملے کے حل کیلئے پالیسی دینی چاہیے۔اس دوران ایک لاپتہ تاسف ملک کے سسر نے کہاکہ میری درخواست آج سماعت کیلئے مقرر نہیں کی گئی۔ جسٹس اعجازافضل نے اسٹاف سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا گیا؟۔
عدالت میں لاء افسر کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے لاپتہ افراد کی جانب سے معروضات پیش کرنے کی اجازت چاہی تو سرکاری وکیل ساجد الیاس بھٹی نے اعتراض کیاکہ کرنل صاحب، آپ اس عدالت کے وکیل نہیں ہیں، لائسنس نہیں ملا۔جسٹس اعجازافضل نے سرکاری وکیل کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے انعام الرحیم کو بات کرنے کی اجازت دی تو انہوں نے بتایا کہ جن چار ہزار لاپتہ افراد کے مقدمات نمٹانے کی بات کی گئی ہے ان میں سے کسی ایک کا بھی مکمل ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا کہ ان پر الزامات کیاتھے، کیوں حراست میں لیاگیا، کہاں اورکب سے رکھا گیا۔ان کی حراست کی رپورٹ نہیں دی گئی، اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دو ہفتے بعد خبر آتی ہے کہ اتنے افراد کو فوجی عدالت نے سزائے موت سنادی ہے۔ ان کو سزا بغیر کوئی وکیل کیے دی جاتی ہے۔
جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ایسا نہیں ہے، ان کو وکیل دیاجاتاہے۔آپ آرمی افسر رہے ہیں جانتے ہیں کہ طریقہ کار موجود ہے۔انعام الرحیم نے کہاکہ ایسا نہیں کیا گیا، کسی ایک سزا پانے والے کو بھی وکیل فراہم نہیں کیاگیا،اگر ایسا ثابت ہواتو وکالت چھوڑ دوں گا ۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ایسے مقدمات کی تفصیل بتادیں توانعام الرحیم نے کہاکہ سپریم کورٹ میں ایسے مقدمات میں اپیلیں دائرکی جاچکی ہیں۔
آمنہ مسعود نے عدالت کوبتایاکہ سردارصدیق نے گزشتہ سماعت پر اپنے بیٹے سہیل کی گمشدگی کابتایاتھاجس پر اسے درخواست دینے کیلئے کہاگیاتھا، سپریم کورٹ کی وجہ سے پولیس نے اس کا مقدمہ درج کیا اس سے قبل اس کی درخواست وصول نہیں کی جارہی تھی، اب 45دن بعد سہیل واپس آگیاہے، سردار صدیق نے عدالت میں بیان حلفی جمع کرادیاہے اس کا کیس نمٹادیاجائے۔
جسٹس اعجازافضل نے سرکاری وکیل سے کہاکہ کوئی ٹھوس چیز بتائی جائے، سب سے حیران کن معاملہ یہ ہے کہ ایسی جگہ کھڑے ہیں جہاں کچھ نہیں ہورہا، کوئی مود ہمارے سامنے نہیں، دوسرا فریق بھی کوئی چیز فراہم نہیں کرپارہا۔ آمنہ مسعود نے کہاکہ عمرزادہ اور ضیاء الرحمان کی درخواست پر شروع کیے گئے مقدمات کا ریکارڈ کمیشن سے منگوایا جائے تو بہت سی چیزیں سامنے آجائیں گی۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ماتحت عدالتیں موجود ہیں،اپیل کورٹ بھی ہیں، اور جب ہمیں لگے گاکہ کمیشن میں کچھ نہیں ہو رہا تو پھر یہاں دیکھ لیں گے۔
آمنہ مسعود نے کہا کہ سر، میرے شوہر کا بھی کیس ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہمارے علم میں ہے۔ تینوں جج صاحبان اٹھ کر جانے لگے ، ہرکاروں نے کرسیاں کھنچ لیں، پس منظر میں دروازے کھل چکے تھے، بوڑھے والدین پھر سامنے آگئے، باباجی نے کہاکہ یہ عدالت ہے، یہ قرآن شریف ہے، اس پرفیصلہ کرلیں، ہمارے بیٹے کو لے آئیں۔
تینوں جج کچھ دیر کھڑے ہو کر بوڑھے میاں بیوی کو سنتے رہے (ایسا بہت کم ہوتاہے کہ جج کرسی سے اٹھنے کے بعد عدالت میں اتنی دیر تک کھڑے رہیں)۔ بوڑھے میاں بیوی کانپتے ہاتھوں اور لرزتے ہونٹوں سے پشتو میں بولتے رہے۔ اور پھر جج پچھلے دروازے سے رخصت ہوگئے۔ ان کے جانے کے بعد دروازے بند ہوئے اور لاپتہ افراد کے مقدمے میں عدالت غائب ہوگئی۔
عدالت کے باہر باباجی سے پشتو میں ان کی اہلیہ کے ساتھ تصویربنانے کی اجازت چاہی تو انہوں نے پشتو میں اپنی کہانی ایک بارپھر سنائی۔ بتانے لگے کہ ارشد پولیس والے نے مجھے کہا کہ تم تو مانگ مانگ کر یہاں تک پہنچتے ہو، تمہارے پاس کیا ہے، میں اگر اپنے پیسوں کو آگ لگاؤں تو کل تک جلتے رہیں گے، ختم نہیں ہوں گے۔
میرے پاس ستر برس کے دو بوڑھوں کو تسلی یا دلاسہ دینے کیلئے الفاظ نہیں تھے۔ پشتو میں ان کو فقط اتنا کہہ سکا کہ اللہ بہتر کارساز ہے۔
(پھر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے بال اتنی تیزی سے کیوں سفید ہو رہے ہیں، مجھے معلوم نہیں کہ اس ریاست کا خون کیوں سفید ہو گیا ہے)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ پاکستان 24!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply