• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بلوچستان یونیورسٹی سکینڈل اور پاکستانی فیمنزم کا بیانیہ۔۔۔انور بلوچ

بلوچستان یونیورسٹی سکینڈل اور پاکستانی فیمنزم کا بیانیہ۔۔۔انور بلوچ

میں فیمینزم کے خلاف نہیں بلکہ کوشش کی ہے کہ ہر فورم پر فیمینزم اور فیمینسٹس کو جتنا ہو سکے، سپورٹ کیا جائے تاکہ پدرشاہی عورت کے وجود، عورت کی سیاسی و سماجی، تعلیمی اور دیگر حقوق کو تسلیم کریں کیونکہ تمام انسان پیدائشی طور پر آزاد ہیں چاہیے وہ مرد ہیں یا عورت۔

سب جانتے ہیں کہ عورتوں کے آزادی مارچ میں ایک نعرہ لگایا گیا تھا کہ “میرا جسم میری مرضی”۔ بہرحال ہم نے اس رائے کا بھی احترام کیا۔

لیکن اب پاکستانی فیمینسٹس کی فیمینزم کا پرچار کرنے والی خواتین کا جامعہ بلوچستان میں طالبات کو ہراساں کرنے کے خلاف مذمتی بیان تک نہ دینا لمحہِ فکریہ ہے۔

پہلے شک تھا مگر اب یقین ہوگیا ہے کہ پاکستانی فیمینزم طبقاتی نظام کا شکار ہے۔ جہاں ایلیٹ، مڈل اور لوئر کلاس سمیت صوبائی اور لسانی شناخت کو پرکھ کر رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس پسند اور ناپسندیدگی کا شکار فیمینزم خواتین کے حقوق تو کجا وجود تک کو مسمار کرنے پہ بضد ہیں۔ اس بیانیہ کو درست کرنا چاہیے۔

ملک بھر میں اگرچہ خواتین کی استحصال ہو رہا ہے جو قابلِ مذمت ہے۔ لیکن مندرجہ بالا معاشی، سیاسی، نسلی و لسانی اور دیگر تعصبات سے بالاتر ہو کر آئینی و جمہوری حق کے لیے آواز بلند کی اشد ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر پدرشاہی سے جان چھڑانا مشکل تو کیا ناممکن ثابت ہوگا۔

دوسری طرف بلوچستان کی بیٹی بجائے پنجاب، سندھ اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والی فیمینسٹس سے سوال، گلہ کرتیں کہ اس مسئلے پہ خاموشی کس لیے؟۔ مگر وہ بھی ان کے ساتھ مل کر شہر لاہور میں عاصمہ جہانگیر پہ ہونے والے سیمینار میں شریک ہونے کے بعد عورتوں کا ترانہ گنگنا رہی ہیں۔

مگر یہاں بلوچستان کی بیٹیاں، بہنیں ہراسمنٹ کی اذیتوں میں مبتلا ہو کر ذہنی پریشانی کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن گئی ہیں اور تعلیم کو خیرباد کہہ رہی ہیں جو کسی سانحے سے کم نہیں۔

اب تک پاکستانی فیمینسٹوں کا قومی سطح پر اخباری بیان اور نہ ہی احتجاج کا اعلان کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

دوسری طرف متاثرہ طالبات کے ساتھ اظہارِ یکہجتی اور اس ظلم کے خلاف پرامن احتجاجی مظاہروں میں شریک ہونے والی طالبات کو سردار بہادر خان وویمن یونیورسٹی میں خاتون معلمہ دھمکی آمیز بیانات جاری کر رہی ہیں کہ جامعہ بلوچستان کے بارے میں بولنے یا لکھنے کی کوشش تو انھیں جامعہ سے بے دخل کیا جائے گا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستانی فیمینسٹ اور بلوچ فیمینسٹ اس مشکل وقت میں متاثرہ طالبات کے ساتھ مل کر انصاف کا مطالبہ کرتے مگر دھڑوں میں تقسیم پاکستانی فیمینسٹوں کا مذمتی بیان اور پرامن احتجاج تک نہ کرنا افسوس ناک ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستانی فیمینسٹوں کو مین اسٹریم بیانیہ درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر پدرشاہی نظام کے ساتھ دیگر ظالم حقوق پہ وار کرتے رہیں گے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply