کامریڈ حسن ناصر:دوران حراست شہید ہونیوالے کمیونسٹ/قسط1

گورکنوں نے تازہ بنی ہوئی قبر کی مٹی ہٹائی تو نئی لکڑی کا بنا ہوا تابوت برآمد ہوا۔ اوپر کا ڈھکنا کھولا گیا اور اندر کفن میں لپٹی ایک میت برامد ہوئی۔ سر اور پاؤں سے کفن ہٹایا گیا تو معلوم ہوا کہ لاش بہت گل سڑ چکی تھی۔
لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں اس کارروائی کے دوران ایک بزرگ خاتون آگے بڑھیں، لاش کے بالوں کو ٹٹولا، ماتھے پر نگاہیں گاڑیں، دانتوں پر ایک ماہر دندساز کی طرح غور کیا اور پاؤں کی ساخت دیکھی۔ پھر نسبتاً بھرائی ہوئی آواز بلند ہوئی ’یہ میرے بیٹے کی لاش نہیں ہے۔ ظالموں نے میرے بیٹے کو مارا تھا، لاش تو دے دیتے۔‘
یہ بزرگ خاتون زہرہ علمبردار تھیں جو حیدرآباد دکن سے خصوصی طور پر اپنے بیٹے کی میت لینے لاہور آئی تھیں۔ ان کا بیٹا، حسن ناصر، پاکستان اور اس سے قبل مشترکہ انڈیا کا ایک نامور کمیونسٹ سٹوڈنٹ لیڈر تھا۔

حسن کے بارے میں پولیس کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے دورانِ تفتیش خودکشی کر لی، جبکہ ان کے ساتھیوں کا الزام تھا کہ ان کی ہلاکت کی وجہ تشدد بنی۔

حسن ناصر کون تھے؟
حسن ناصر کے والد سید علمبردار حیدرآباد دکن کے صدر مہاراجہ سرکشن پرشاد بہادر (جو خود ایک شاعر اور علامہ اقبال کے دوست بھی تھے) کے پرائیوٹ سیکریٹری تھے اور ان کے بعد کی حکومتوں میں بھی پرائیوٹ سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہے۔
حسن کی والدہ زہرہ علمبردار آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی اور سر سید احمد خان کے ساتھی سید مہدی علی المعروف نواب محسن الملک کی صاحبزادی تھیں۔ ان کے والد انسپیکٹر جنرل آف روینیو سمیت حیدرآباد ریاست میں کئی عہدوں پر تعینات رہے۔
دوی کمار نے روزنامہ آندھرا جوتی کی 28 نومبر 2004 کی اشاعت میں لکھا تھا کہ حسن ناصر کے ماموں میں قابل ذکر عابد حسن سفرانی ہیں جو سبھاش چندر بوس کے ان دنوں کے ساتھی تھے جب وہ انجنیئرنگ کی تعلیم کے دوران جرمنی میں مقیم تھے۔

آزاد ہند فوج کے ذریعے مشہور ہونے والا نعرہ ’جئے ہند‘ عابد حسن سفرانی ہی کی دین ہے اور وہ اسی پرواز میں سوار تھے جس کے دوران بوس کی موت ہوئی تاہم انھوں نے درمیان میں سفر منقطع کر لیا تھا جس کی وجہ سے وہ حادثے کا شکار ہونے سے بچ گئے۔
وہ برما اور سنگاپور میں قید رہے اور تقسیم ہند کے بعد دفتر خارجہ کی جانب سے مختلف ممالک میں تعینات رہے۔

دارالعلوم حیدرآباد کے سابق صدر نورالحسن لکھتے ہیں کہ حسن ناصر ان کے بڑے بھائی سید علمبردار کے دوسرے بڑے صاحبزادے تھے۔
ان کی پیدائش 1928 اگست میں ہوئی اور ابتدائی تعلیم گرامر سکول میں حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی سے ہی وہ بہت اچھے مقرر تھے اور انھیں انگریزی زبان پر خاصا عبور حاصل تھا۔
انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی جانا چاہا لیکن ان کے والد نے کمسنی میں انھیں برطانیہ بھیجنا مناسب نہیں سمجھا اور ان کو کہا کہ وہ بی اے کرنے کے بعد تعلیم حاصل کرنے بیرون ملک جا سکتے ہیں۔

مایوسی کے عالم میں حسن علی گڑھ انٹرمیڈیٹ کرنے چلے گئے جہاں سینئر کیمبرج کرنے والے کو سیکنڈ ایئر میں داخلہ مل جاتا تھا اور ایک سال بچ جاتا تھا۔ علی گڑہ کی دنیا ان کے لیے انوکھی رہی اور ان کا واسطہ بھانت بھانت کے لڑکوں سے پڑا۔ پھر وہ واپس آئے اور نظام کالج میں بی اے میں داخل ہوگئے۔

کمیونسٹ فلسفہ اپنا کر ناصر نے گھر چھوڑ دیا
دارالعلوم حیدرآباد کے سابق صدر نورالحسن لکھتے ہیں کہ حسن ناصر کے اپنے سگے خالہ زاد بھائی کوکب دری سے گہرے تعلقات پیدا ہوگئے۔
کوکب کمیونسٹ خیالات رکھنے جوشیلے جوان تھے۔ انھوں نے ناصر کو کارل مارکس کے نظریے سے متعارف کروایا اور کمیونسٹ کتب پڑھنے کا شوق پیدا کیا جس کے نتیجے میں ناصر نے کمیونسٹ فلسفہ اپنا لیا، تعلیم ترک کر دی اور گھر بار چھوڑ دیا۔

ڈاکٹر راج بہادر گوڑ ہفتہ وار نیا آدم حیدرآباد کے 13 اگست 1973 کے شمارے میں لکھتے ہیں کہ حسن ناصر حیدرآباد دکن سٹوڈنٹ یونین سے وابستہ تھے اور مارچ 1942 میں سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی کے رہنماوں کی رہائی کے مطالبہ پر طالب علموں کی ہڑتالوں میں آگے آگے تھا۔
دوی کمار کا کہنا ہے کہ انھوں نے آزاد ہند فوج کے سپاہیوں کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے جامعہ عمثانیہ میں زبردست احتجاج منظم کیا۔ ان کا خیال ہے کہ اس احتجاج کی وجہ شاید ان کے ماموں کی سنگاپور جیل میں قید بھی ہوسکتی ہے۔

حیدرآباد دکن کے ناظم کے خلاف احتجاج
حسن ناصر حیدرآباد دکن کے انقلابی شاعر اور تلنگانہ کے کسانوں کی مسلح جدوجہد میں شریک مخدوم محی الدین کھدری سے متاثر تھے جو عثمانیہ کالج میں استاد رہے اور حیدرآباد دکن میں طلبہ اور مزدوروں کی جدوجہد کے ایک اہم کردار سمجھے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر راج بہادر گوڑ لکھتے ہیں کہ 1947 سابقہ ریاست حیدرآباد میں زبردستی عوامی جمہوری جدوجہد کا سال تھا اور ’ہندوستان کہیں آزاد تھا اور کہیں غلام اور حیدرآباد اہم غلام چپہ تھا۔ 31 جولائی 1947 کو 25 ہزار سے زائد طالب علموں کا ایک جلوس صدر سٹیٹ کانگریس کے پاس پہنچا کہ عوامی جدوجہد شروع کی جائے۔ حسن ناصر بھی اس جلوس کے رہنماؤں میں شامل تھا۔ پھر اگست اور ستمبر میں طالب علموں کی زبردست ہڑتالیں اور لڑائیاں ہوئیں اور ہند سرکار نے نظام کے ساتھ شرمناک معاہدہ کر لیا۔‘

پاکستان ہجرت اور راولپنڈی سازش کیس
پھر حسن ناصر بمبئی منتقل ہوگئے جہاں وہ سجاد ظہیر سمیت دیگر کمیونسٹ قیادت کے ساتھ منسلک رہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد انڈین کمیونسٹ پارٹی کی تنظیمی قیادت اور اس نظریے کے زیر اثر لکھاری اور شعرا پاکستان آگئے تھے جن میں سجاد ظہیر، سبط حسن، ساحر لدھیانوی وغیرہ شامل تھے۔ سجاد ظہیر کے کہنے پر حسن ناصر پاکستان منتقل ہوگئے۔

پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کے سابق رہنما تنویر شیخ لکھتے ہیں کہ 1948 کے آخر اور 1949 کی ابتدا میں پورٹ ٹرسٹ اور ٹراموے کی ہڑتال کے سلسلے میں پارٹی قیادت کو گرفتار کر لیا گیا اور حسن ناصر کو پارٹی کی تنظیمی ذمہ داریاں اٹھانی پڑیں۔ انھوں نے روپوشی میں بھی سرگرمیاں جاری رکھیں اور وہ سندھ صوبائی کمیٹی کے سیکریٹری اور سینٹرل سیکریٹریٹ کے رکن بنا دیئے گئے۔
1948 میں کشمیر کے معاملے پر انڈیا سے جنگ کی قیادت کرنے والے پاکستان فوج کے میجر جنرل اکبر خان اور وزیراعظم لیاقت علی خان کے درمیان اختلافات ہوگئے۔ اکبر خان کمیونسٹ رہنما سجاد ظہیر اور شاعر فیض احمد فیض کے دوست تھے۔
جنرل اکبر پر ان کمیونسٹ رہنماؤں کے ساتھ مل کر حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام عائد ہوا اور اسے ’راولپنڈی سازش کیس‘ قرار دیا گیا جس میں جنرل اکبر، ان کی بیوی، سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض کے ساتھ حسن ناصر کو گرفتار کر لیا گیا اور کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی۔

پاکستان سے انڈیا ملک بدری
سنہ 1952 میں رہا ہونے کے بعد حسن ناصر پھر جماعت کی تنظیم سازی میں لگ گئے اور انھیں ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا اور 1954 میں ملک بدر کر دیا گیا۔
استاد اور کالم نویس پروفیسر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ حسن ناصر کی والدہ انھیں کراچی لینے آئیں اور انہوں نے فخرالدین جی ابراہیم سے ملاقات کی، جن کا حسن پر کچھ اثر تھا۔ پھر ان کے کہنے پر وہ والدہ کے ہمراہ انڈیا جانے پر راضی ہوگئے۔

حسن ناصر کے سیاسی ساتھی اور وکیل میجر اسحاق محمد کتاب ’حسن ناصر کی شہادت‘ میں ان کی والدہ زہرہ علمبردار سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں زہرہ علمبردار نے انھیں بتایا کہ حسن ناصر کو پاکستان بہت عزیز تھا۔ جب جلاوطنی کے بعد وہ حیدرآباد دکن واپس پہنچے تو ان کے عزیز و اقارب نے تمام کوششیں کر لیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح وہیں ٹکے رہیں یا تعلیم کے لیے انگلینڈ، یورپ یا امریکہ چلے جائیں۔ حتیٰ کہ آندھرا پردیش کمیونسٹ پارٹی تک سے کہلوایا گیا۔ تاہم ان کی والدہ نے خود ناصر کو پاکستان لوٹنے سے نہیں روکا کیونکہ وہ بھانپ چکی تھیں کہ حسن نہیں رکے گا۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ وہ چلا بھی جائے اور ماں کی نافرمانی کا بوجھ اٹھاتا پھرے۔

تنویر شیخ لکھتے ہیں کہ 1956 میں تمام مشوروں کے باوجود حسن جلاوطنی کی مدت ختم ہوتے ہی پاکستان واپس آ گئے اور پارٹی کے فیصلے کے مطابق کُل پاکستان نیشنل عوامی پارٹی کے آفس سیکریٹری بن گے۔
جب 1956 میں مارشل لا لگا تو حسن ناصر کو روپوش ہونا پڑا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply