لٹکتا لنگر۔۔۔علی اختر

راقم نے اردو پڑھنا دوسری جماعت ہی میں سیکھ لیا تھا ۔ اب اس زمانے میں موبائلز، ٹیبل یا کیبل وغیرہ تو ہوتے نہیں تھے سو بچوں کو ٹائم پاس کے لیے کہانیوں کی کتابیں یا بچوں کے رسالے وغیرہ دلا دیے جاتے تھے جنہیں پڑھ کر وہ دن گزارتے ، آپس میں ان کتابوں کے تبادلے کرتے اور  سکول میں ان کہانیوں کے کرداروں یعنی ٹارزن اور عمر و عیار وغیرہ کو ڈسکس بھی کیا کرتے ۔

ایسے ہی سنہرے دور میں راقم کو والد محترم نے ایک کتاب عنایت فرمائی  نام تھا “سند باد جہازی کے سات سنہری سفر” ۔ راقم نے پڑھنا شروع کیا تو اس کتاب کے سحر میں گرفتار ہو گیا ۔ ایڈونچر، مصائب و آفات سے بھرے سمندری سفر اور ان سب کا بہادری سے مقابلہ کرتا سندباد میرے بچپن کا ہیرو تھا ۔ بس ایک خلش تھی اور وہ یہ کہ اس کتاب میں ایک لفظ “لنگر” جابجا نظر آتا تھا اور راقم معصوم اس لفظ سے نا آشنا تھا ۔ کہیں لکھا ہوتا جہاز لنگر انداز ہو گیا تو کہیں لنگر اٹھا لیا گیا ۔ اب راقم کے ننھے سے دماغ میں یہ لنگر نما سوالات لٹکے رہتے ۔ یہ لنگر کیا بلا ہے؟ ۔ کہیں یہ وہی لنگر تو نہیں جو ہم گندے بچے پتنگ لوٹنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ؟ جب جہاز رکتا ہے تبھی اسے کیوں لٹکایا جاتا ہے ؟ خیر اب بات سند باد کی ہو رہی ہے تو مجھے اس کتاب کا ایک قصہ یاد آگیا ۔

ہوا کچھ یوں کہ سندباد ایک بحری سفر پر روانہ ہوا اور حسب معمول اس کا جہاز تباہ ہو گیا، جہاز کے اکثر و بیشتر یا شاید سندباد کے علاوہ سبھی افراد سمندری موجوں کی نظر ہو گئے اور حسب معمول سندباد ایک تختے کے سہارے تیرتا کئی  دن بعد ایک ویران جزیرے پر پہنچ گیا ۔ اب دیکھتا کیا ہے کہ وہاں ایک بوڑھے معصوم سے نورانی صورت بابا جی پہلے سے موجود ہیں ۔ سندباد عقیدت میں آگے بڑھتا ہے تو بابا جی منہ سے کچھ نہیں کہتے اور اشاروں سے فرماتے ہیں کے مجھے کندھوں پر سوار کرلو ۔ سندباد عقیدت میں یہ بات بھی مان جاتا ہے لیکن جناب جیسے ہی بابا جی کندھے پر سوار ہوتے ہیں تو سندباد کی گردن کے گرد اپنی پتلی پتلی ٹانگوں کی مدد سے شکنجہ  سا بنا لیتے ہیں اور کسنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اب سند باد حیران کہ بابا جی ! میرا کیا قصور ہے ؟ تو جواب میں بابا جی منہ سے کچھ نہیں کہتے بس اشاروں سے بتاتے ہیں کہ اب تو وہ کرے گا جو میں کہوں گا ۔

بہر حال اب بابا جی کئی  دنوں تک چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے حتیٰ کہ سوتے ہوئے بھی بیچارے سندباد کے کندھوں پر سوار رہتے ہیں اور اسے ہر جائز و ناجائز کام، ناصرف کرنے پر مجبور بھی کرتے ہیں بلکہ کام کے بعد سرزنش کے طور پر وہی ٹانگوں سے گلا بھی دباتے ہیں کہ تو نے یہ کیا کر دیا ۔

خیر کہانی میں تو سندباد ایک دن انگور کی شراب بنا کر بابا جی کو پلاتا ہے ۔ بابا نشے میں اپنی گرفت کچھ کمزور کرتے ہیں تو انہیں کندھوں سے نیچے گرا کر بھاری پتھر سے سر کچل دیتا ہے اور خس کم جہاں پاک کا نعرہ لگاتا اپنی راہ لیتا ہے لیکن یہ سب کہانی ہی میں ہوتا ہے حقیقت میں تو اکثر بابا جی ایک کے بعد ایک سند باد بدلتے رہتے ہیں اور ویران جزیرے پر اپنی بادشاہت قائم رکھتے ہیں ۔ پرانی کہانیوں میں بھی عقل والوں کے لیئے  کافی نشانیاں موجود ہیں ۔

تو بات لنگر کی ہو رہی تھی سو راقم کی مشکل اس وقت آسان ہو گئی  جب اس نے والد محترم کے ساتھ پہلی بار نیٹی جیٹی پر کھڑے ہو کر سامنے سے بحری جہاز گزرتے دیکھا ۔ یہ جیم سے جہاز والے قاعدے میں موجود جہاز سے کافی بڑا تھا اور ساتھ زنجیر کی مدد سے ایک بہت بڑا فولادی آنکڑاسا لٹک رہا تھا ۔ راقم کو پتا چلا کہ  یہ لنگر ہوتا ہے جو اس وقت جہاز سے سمندر میں گرایا جاتا ہے جب اسے روکنا ہو ۔ اگر یہ نہ گرایا جائے تو جہاز کو سمندر   لہروں کے زور پر کہیں سے کہیں لے جائے اور آخر کا ر ڈبو دے ۔ راقم نے حیرت سے پوچھا کہ  اتنا بڑا جہاز بھی ڈوب سکتا ہے کیا ؟ ۔ تو جواب ملا کہ ” ہاں اس سے بھی بڑے بڑے جہاز ،یہ بظاہر پر سکون نظر آنے والا سمندر غرق کر چکا ہے۔ باوجود اسکے کہ  وہ لٹکتا لنگر سمندر میں گرا چکے تھے ” ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ویسے راقم نے اسی سندباد والے دور یعنی کم و بیش قبل مسیح میں ایک جملہ کہیں پڑھا تھا ۔ وہ یہ کہ “بھوکے کو روز مچھلی دینے کے بجائے اسے مچھلی پکڑنا سکھا دیا جائے تو معاشرہ اور خود بھوکے کے لیے بہتر ہے ” ۔ بات اچھی تھی ۔ ۔یاد کرلی ۔ عمل بھی کیا اور تلقین بھی، پھر جدید دور آیا ۔ پرانا  وقت اور کہاوتیں ماضی کی داستان ہو گئیں ۔ اب سنا ہے کہ  لوگوں کو بٹھا کر روٹی کھلانے سے غربت دور کرنے میں مدد ملا کرتی ہے ۔ ذہن میں سوالات کے لنگر تو بہت لٹکتے ہیں لیکن پوچھنے کا کوئی  فائدہ نہیں کہ تبدیلی کا دور ہے مبادا محنت کشوں کے بجائے مانگ کر کھانے والے پیدا کرنے کا نام ہی تبدیلی ہو ۔ راقم کم عقل کیا کہہ  سکتا ہے ،ہاں کہنا بس یہ تھا کہ  لنگر اس وقت لٹکایا جاتا ہے جب جہاز رک چکا ہو آگے آپ خود سمجھدار ہیں ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply