رشوت یا پراسس  ۔۔۔عبدالغنی محمدی

آج صبح سے ایک کام کے سلسلے میں سرکاری آفس کے چکر کاٹ رہا تھا ۔ کوشش تھی کہ کام  کا تمام پراسس مکمل کروں ۔ کیونکہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ہم لوگ اپنی سستی اور نااہلی کی وجہ سے  کسی کام کا پراسس مکمل کرتے نہیں، شارٹ کٹ راستے ڈھونڈتےہیں اور دوسری طرف  بیٹھا آفیسر بھی  پیسوں  کو دیکھتے ہوئے بیچ بچاؤ کی را ہ پر آمادہ ہوجاتاہے ۔ اس طرح رشوت جیسی لعنت ناسور نہیں بلکہ ضرورت اور عام چیز دکھائی دیتی ہے اور اس کا سہارا  عام ہوجاتاہے ۔ اس  لئے آج اس بات کا تو پختہ عزم تھا کہ بیچ کا راستہ نہیں ڈھونڈنا بلکہ پراسس کو مکمل کرنا ہے ۔ پراسس کو مکمل کرتے ہوئے کافی دشواری ہوئی ، کئی جگہوں کے چکر لگانے پڑے اور ہر جگہ خود آنا جانا ، رش کا سامنا کرنا خاصہ مشکل اور صبر آزما کام تھا ۔ پراسس کو مکمل کرتے ہوئے   تقریباًًً  سارا دن گزرگیا  ، آخر میں  جب ایک آفیسر کے پاس فائنل رسید جمع کروانے لگا تو اس نے  پانچ سو کی رسید کا ہزار مانگا ۔ میں  نے کچھ احتجاج کرنا چاہا لیکن وہ اس قدر بہادر یا بے شرم واقع ہوا تھا کہ اس کو لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی ۔ اس نے اضافی پانچ سو اپنا حق قرار دیتے ہوئے یوں  مانگا کہ جیسے مجھ پر اس کو دینا ضروری ہو ۔ میں  نے جب بات زیادہ بڑھائی تو اس نے کام میں مزید تاخیر کی دھمکی دی اور کل  آنے  کا کہا ۔ روز مرہ کی مصروفیات میں پورا ایک دن آگے اس کام میں ضائع ہوچکا تھا ، مزید وقت نکالنا اور پھر اگلے دن بھی نہ جانے کیا ہو ؟ میں  نے اس کو اضافی پانچ سو دے کر  کام نکلوایا ۔ لیکن  اس پر احتجا ج اور ہائی اتھارٹیز  کو بات پہچانا ضروری سمجھا ۔ کیونکہ یہ میری ذمہ داری تھی کہ اس پر خاموش نہ رہوں ۔ جانتے بوجھتے میں خاموش رہنا ،  اس چیز کے چلن کو لازمی بات ہے مزید بڑھاوا دے گا ۔ اس لئے اپنی ذات کے لئے نہ سہی قومی مفاد کے لئے اس آفیسر کے خلاف کچھ نہ کچھ کرنا ضروری سمجھا  ۔ قومی مفاد اور آئندہ نسلوں کے مستقبل کی عظیم الشان ذمہ دار ی کو نبھانے کے لئے میں دفتر سے باہر نکلا اور سامنے ایک ہوٹل میں بیٹھ کر خود کو کافی کوسا، کہ ایک آفیسر دو منٹ میں اضافی پانچ سو ڈکار گیا اور تم صبح سے خوار ہورہے ہو لیکن کھانے پینے کی کسی چیز کی طرف کوئی دھیان ہی نہیں دیا ۔ میں نے تین چار سو روپے  اپنے پر  لگائے اور مطمئن ہوگیا کہ میں نے کرپشن کا کچھ نہ کچھ بدلہ لے لیا اور اس کے بعد سکون سے گھر چل دیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کے بعد جب گھر آیا تو ایک  دوست سے پتہ چلا  کہ اس نے وہی کام جس کا پراسس مکمل کرنے میں میں نے سارادن لگایا تھا   بغیر پراسس مکمل  کیے مجھ سے آدھے پیسوں میں کروالیا ۔ میں بہت حیران ہوا ، اور پراسس سسٹم سے توبہ کی ٹھانی ۔ لیکن کیا میں درست ہوں ؟ یقینا ًًً نہیں ، کیونکہ کسی بھی کام میں بیچ کی راہ کو چھوڑ کر اس کے پراسس کو مکمل کرنا نظام کو بہتر بنانے کی طرف ایک  قدم ہے ۔ نظام بلاشبہ کتنا ہی دیر سے بہتری کی طرف جائے لیکن جب ایک مرتبہ ہم قانون پر عمل در آمد کرنے کا پختہ عزم کرلیں گے تو وہ دن دور نہیں جب رشوت سسٹم ختم ہوگا اور قانون کی حکومت ہوگی ۔ نظام کو درست کرنے کے لئے کڑوا گھونٹ بہت ضروری ہے اور اس کا ہمیں عادی ہونا ہی ہوگا ۔ میں اپنی کمزور ی اور سستی کی وجہ سے  کرپشن کے خلاف کچھ نہیں کرسکا لیکن  آواز اٹھا سکتا  ہوں  ، سو وہ اٹھا دی اور  آپ تک پہنچا رہا ہوں ۔

Facebook Comments

عبدالغنی
پی ایچ ڈی اسکالر پنجاب یونیورسٹی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply