• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شیخ المشائخ حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔حافظ کریم اللہ چشتی

شیخ المشائخ حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔حافظ کریم اللہ چشتی

شیخ المشائخ حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے متقی اورمشہورولی اللہ گزرے ہیں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ طریقت کے بہادر،شریعت کے کان،ایک بلندہمت اورقابل قدربزرگ تھے۔اہل زمانہ میں آپ کی قدرومنزلت بہت تھی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کی پرہیزگاری کایہ عالم تھاکہ ایک کنیزبیس سال تک آپ کے پاس خدمت کے لئے رہی لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کبھی اسکاچہرہ نہیں دیکھا۔اورایک دن اُسی کنیزسے فرمایاذرامیری کنیزکوآوازدے دو۔اس نے عرض کیاکہ حضور!میں ہی توآپ کی کنیزہوں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاتیس برس میں میراخیال سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اورطرف نہیں گیا۔یہی وجہ ہے کہ میں تم کوپہچان نہ سکا۔جسوقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت ہوتی تومضطرب ہوکرگریہ زاری کرنے لگتے۔ایک دن کسی نے سوال کیاکہ آپ قرآن مجید کامفہوم کس طرح سمجھ لیتے ہو؟ جبکہ یہ قرآن مجید توعربی زبان میں ہے اورآپ عجمی ہیں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ گویا میری زبان عجمی ہے لیکن میراقلب عربی ہے۔

سببِ توبہ
آپ رحمۃ اللہ علیہ کاشمارپہلی صدی ہجری کے مشائخ تصوف میں ہوتاہے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت فارس میں ہوئی۔کنیت”ابومحمد“ تھی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ شروع میں بڑے مال دارتھے۔اوراہل بصرہ کوسودپرقرض دیاکرتے۔ہرروزکایہ معمول تھاکہ اپنے لین دین کے تقاضے کے لئے مقروضوں کے پاس جایاکرتے تھے۔اوراسوقت تک واپس نہ آتے جب تک قرض وصول نہ ہوجاتااوراگرکسی مجبوری سے قرض وصول نہ ہوتاتواپنے وقت کے ضائع ہونے کامقروض سے ہرجانہ وصول کیا کرتے تھے اوراس رقم سے زندگی بسرکرتے تھے۔ایک دن اپنے مال کی طلب کے لئے ایک گھرمیں گئے وہ قرض دارگھرمیں نہ تھا۔اسکی بیوی نے کہاکہ میراخاوندگھرمیں نہیں ہے۔اورمیرے پاس تمہارے دینے کے لئے کچھ نہیں۔البتہ!آج میں نے ایک بھیڑذبح کی تھی۔جس کاگوشت تو ختم ہوگیاہے۔البتہ!باقی سررہ گیاہے اگروہ آپ چاہیں تومیں بھیڑکی سری آپ کودے دیتی ہوں وہ آپ اپنے ساتھ لے جائیں۔آپ نے کہاکہ اچھاوہ سری مجھے دے دو۔اس عورت نے وہ سری آپ کے حوالے کردی۔چنانچہ آپ وہ سری لیکرگھرپہنچ گئے اوراپنی بیوی سے کہاکہ یہ بھیڑکی سری سودمیں آئی ہے اسے پکاؤ۔بیوی نے کہاکہ گھرمیں نہ لکڑی ہے،اورنہ آٹا،بھلامیں کھاناکسطرح تیارکروں۔آپ نے کہاکہ میں ان دونوں چیزوں کابھی انتظام مقروض لوگوں سے لے کرکرتاہوں۔آپ اسی طرح گھرسے نکل پڑے اورکسی قرض دارسے روٹیاں اورلکڑیاں لے آئے۔بیوی نے ہانڈی چڑھائی جب ہانڈی پک گئی توچاہاکہ پیالے میں نکالے۔اسی اثناء میں ایک سائل نے آکردروازے پردستک دی اورسوال کرتے ہوئے راہ خدامیں کچھ مانگا۔حبیب عجمی کہنے لگاواپس جاؤاس لئے کہ تجھے جوکچھ ہم دینگے تواس سے توامیرنہ ہوجائے گا۔مگر!ہم فقیرہوجائیں گے۔سائل جب اس دروازے سے مایوس ہوکرواپس لوٹ گیا۔توحبیب عجمی کی بیوی نے سالن نکالناچاہا۔لیکن وہ ہنڈیاسالن کی بجائے خون سے بھرچکی تھی۔بیوی نے شوہرکوآوازدیکرکہاکہ دیکھوتمہاری کنجوسی اوربدبختی سے یہ کیاہوگیاہے؟آپ نے جب یہ حال دیکھاتودل پرایسا اثرہواکہ آپ کے دل کی حالت بدل گئی اورکہنے لگے اے میری بیوی!توگواہ رہ کہ میں نے آج ہربرے کام سے توبہ کرلی ہے پھرآپ گھرسے باہرنکلے تاکہ قرض داروں کوتلاش کرکے اپنامال وزران سے واپس لیں اورپھراس مال وزرکوسودپرنہ چلائیں۔جمعۃ المبارک کامقدس دن تھاراستہ میں کچھ لڑکے کھیل رہے تھے۔ان لڑکوں نے جب حضرت حبیب عجمی کودیکھاتوکہنے لگے دیکھو”سودخور“ آرہاہے۔ الگ ہوجاؤایسانہ ہوکہ اس کے پاؤں کی گردہم پرپڑے۔اورہم بھی اسی طرح بدبخت ہوجائیں۔جب یہ آوازحضرت حبیب عجمی کے کانوں پرپہنچی توبڑے رنجیدہ ہوئے اورسیدھے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں جا پہنچے۔حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کوایسی نصیحت فرمائی کہ دل کی دنیابدل گئی۔ آپ نے بے چین ہوکردوبارہ توبہ کی۔حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی محفل میں آپ خطاکاربن کرگئے لیکن جب وہاں سے نکلے تواللہ کے محبوب بن کرنکلے۔ واپس آتے ہوئے ایک مقروض آپ کودیکھ کربھاگنے لگا۔توآپ نے اس مقروض کو آوازدی اورفرمایاپیارے بھائی!اب تُومجھ سے نہ بھاگ،اب تومجھے تجھ سے بھاگناچاہیے۔یہ کہااورگھرکی طرف چل پڑے۔راستے میں پھروہی لڑکے کھیلتے ہوئے ملے توانہوں نے جب حضرت حبیب عجمی کودیکھاتوآپس میں کہنے لگے الگ ہوجاؤحبیب توبہ کرکے آرہاہے۔اب جوہماری گرداُس پرپڑگئی توایسانہ ہوکہ ہم گنہگارہوجائیں۔حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ جملہ سناتوکہنے لگے۔اے گناہوں کوبخشنے والے میرے رب!عجب تیری رحمت ہے کہ ابھی میں نے تجھ سے صلح کی ہے۔اے رب غفور!تونے اس کااثرمخلوق کے دلوں میں بھی پہنچادیاہے اورمیری نیک نامی مشہورفرمادی ہے۔پھرآپ نے آوازدی کہ جس نے حبیب عجمی کاکچھ دیناہووہ آئے اوراپنی دستاویزواپس لے جائے۔یہ آوازسن کرسب مقروض جمع ہوگئے۔اورآپ نے جومال جمع کیاتھا۔وہ لوگوں میں بانٹ دیایہاں تک کہ آپ کے پاس باقی کچھ نہ رہا۔حتیٰ کہ ایک سائل کواپناکرتہ تک اتارکردے دیا۔اوردوسرے سائل کے سوال پراپنی بیوی کی چادرتک دیدی۔پھرزندگی بسرکرنے کایہ معمول بنالیاکہ دن کوحصولِ علم کی خاطرحضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس چلے جایاکرتے اوررات کوعبادت میں مشغول رہاکرتے تھے۔(تذکرۃ الاولیاء)

جنت میں گھرکی ضمانت
ایک شخص خراسان سے بصرہ آیا اور اس نے حضرت سیدناحبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس دس ہزار درہم بطورِ امانت رکھے اور عرض کی کہ آپ میرے لئے بصرہ میں ایک گھر خریدیں تاکہ جب میں مکہ مکرمہ سے واپس آؤں تو اس گھر میں رہوں۔ اسی دوران لوگوں کو آٹے کی مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا تو حضرت سیدناحبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے ان درہموں سے آٹا خرید کر صدقہ کردیا۔لوگوں نے حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں عرض کیا۔اے حبیب عجمی! اس شخص نے تو آپ سے گھر خریدنے کے لئے کہا تھا۔اورآپ رحمۃ اللہ علیہ نے اسکی رقم سے آٹاخریدکرلوگوں میں تقسیم کردیاہے۔یہ کیامعاملہ ہے۔حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا!میں نے اس کے لئے جنت میں گھر لے لیا ہے! اگر وہ اس پر راضی ہوگا تو ٹھیک، ورنہ میں اُسے دس ہزار درہم واپس دے دوں گا۔ کچھ عرصہ بعد جب وہ واپس لوٹا تو پوچھااے ابو محمد! کیا آپ نے گھر خریدلیا؟ حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا، ہاں! محلّات، نہروں اور درختوں کے ساتھ۔ وہ شخص بہت خوش ہوا پھرکہنے لگامیں اس گھرمیں رہنا چاہتا ہوں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا میں نے وہ گھر اللہ تعالیٰ سے جنت میں خریدا ہے! یہ سن کراس شخص کی خوشی مزید بڑھ گئی۔ اس کی بیوی بولی ان سے کہو کہ اپنی ضمانت کی ایک دستاویز لکھ دیں تو حضرت سیدناحبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا”بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، جو گھر حبیب عجمی نے محلات، نہروں اور درختوں سمیت دس ہزار درہم میں اللہ تعالیٰ سے فلاں بن فلاں کے لئے جنت میں خریدا ہے یہ اس کی دستاویز ہے۔ اب اللہ عز وجل کے ذمہ کرم پر ہے کہ وہ حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کی ضمان کوپورا فرمادے“۔کچھ عرصہ بعد اس شخص کا انتقال ہوگیا۔ اس نے یہ وصیت کی تھی کہ میرے کفن میں یہ رقعہ ڈال دینا۔(تدفین کے بعد) جب صبح ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ اس شخص کی قبر پرایک رقعہ پڑاہے جس میں لکھا تھا کہ یہ حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے اس مکان سے براء ت نامہ ہے جوانہوں نے فلاں شخص کے لئے خریدا تھااللہ عز وجل نے اس شخص کووہ مکان عطا فرمادیاہے۔ اس مکتوب کو حضرت سیدناحبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے لے لیا اور بہت روئے اور فرمایایہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے میرے لئے براء ت نامہ ہے۔(نزہتہ المجالس)

بیوی کی بے صبری
ایک مرتبہ حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی نے تنگدستی اورفقروفاقہ کی شکایت کی اورمشورہ دیاکہ گوشہ نشینی کی بجائے کچھ کمائے۔ حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے کہاکہ آپ فکرنہ کریں میں صبح مزدوری پرجاؤں گا۔اورتمہارے لئے بہت کچھ کماکرلاؤں گا۔چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ مزدوری کرنے کے لئے گھرسے نکلے۔اورسارادن عبادت میں گزاردیا۔جب گھرپہنچے توبیوی نے سوال کیاکہ کیاکماکرلائے ہو۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کہاکہ جس کی میں مزدوری کرتاہوں وہ بہت کرم والاہے۔اس کے کرم کی وجہ سے آج میں اجرت طلب نہیں کرسکاہوں۔وہ ایسی ذات ہے جوبے طلب مزدوری اداکردیاکرتاہے۔مجھے روزانہ طلب سے شرم محسوس ہوتی ہے۔اب میں دس دن بعداپنی مزدوری طلب کرونگا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی نے بڑی مشکل سے دس دن گزارے۔ دسویں دن جب آپ رحمۃ اللہ علیہ گھرکوآرہے تھے اوردل میں شرمارہے تھے۔کہ گھرمیں بیوی نے پوچھاکیاکماکرلائے ہوتوکیاجواب دوں گا۔ایک طرف تواپنے تصورمیں غرق چلے جارہے تھے۔اوردوسری طرف اللہ تعالیٰ نے ایک بوری آٹا،ذبح شدہ بکری،گھی،شہداورتین سودرہم ایک غیبی شخص کے ذریعے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے گھرپہنچادیے۔وہ شخص آپ رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی سے کہنالگاآپ کاخاوندجس شخص کے گھرمزدوری کرتاہے یہ ساری چیزیں اسی نے بھیجی ہیں۔اپنے خاوندسے کہہ دیجیے گاکہ اگروہ زیادہ محنت سے کام کریگاتواُسے زیادہ مزدوری دی جائے گی۔چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ گھرکے دروازے پرپہنچے توگھرمیں کھانے کی خوشبوآرہی تھی۔اندرجاکربیوی سے صورتحال دریافت کی تواس نے پوراواقعہ اورپیغام آپ تک پہنچادیا۔یہ سنتے ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھوں میں آنسوآگئے۔اوردل میں خیال آیاکہ جب دس دن کی بے توجہ ریاضت کااللہ تعالیٰ نے نعم البدل عطاکیاہے۔اگرمیں زیادہ دلجمعی کیساتھ عبادت کروں گاتونہ جانے کتنے انعامات سے نوازاجاؤں گا۔اسی دن سے عبادت میں غرق ایسے ہوگئے کہ مستجاب الدعوات کے درجہ تک جاپہنچے اوران کی دعاؤں سے مخلوق کوبہت فائدہ ہوا۔

حب دنیاکوقلب سے نکالنا
ایک مرتبہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ دریادجلہ کے کنارے حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوگئی۔حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا،اے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ آج کہاں جانے کاارادہ ہے؟حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے کہاکہ دریادجلہ کے پارجاناچاہتاہو ں اورکشتی کامنتظرہوں۔حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ”بغض اورحب دنیاکوقلب سے نکال کرمصائب کوغنیمت تصورکرواوراللہ تعالیٰ پراعتمادکرکے پانی کے اوپرروانہ ہوجاؤ“۔حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ یہ کہتے ہوئے خودپانی کے اوپرچلتے ہوئے دوسرے کنارے پرجاپہنچے۔یہ کیفیت دیکھ کرحضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ پرغشی طاری ہوگئی۔ اورہوش میں آنے کے بعدجب لوگوں نے غشی کاسبب پوچھاتوفرمایا”حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کوعلم میں نے سمجھایااوراس وقت وہ مجھ کونصیحت کرکے خودپانی پرروانہ ہوگئے اوراسی دہشت سے مجھ پرغشی طاری ہوگئی۔کہ جب روزمحشرپُل صراط پرچلنے کاحکم دیاجائے گا۔ اوراگرمیں اسوقت بھی محروم رہ گیاتوکیاکیفیت ہوگی؟۔پھرآپ رحمۃ اللہ علیہ نے دوسری ملاقات میں حیرت سے حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھاکہ تمہیں یہ مرتبہ کیسے حاصل ہواہے؟حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاقلب کی سیاہی دھوتاہوں اورآپ کاغذسیاہ کرتے رہتے ہیں۔یہ سن کرحضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاصدحیف دوسروں نے تومیرے علم سے فائدہ اُٹھایالیکن مجھ کوکچھ نہ مل سکا۔حضرت شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگرکسی کوشک ہوکہ حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کامقام حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے بلندتھاتویہ اس کی غلطی ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے علم کوہرشے پرفضیلت عطافرمائی ہے۔اسی وجہ سے سرکارِمدینہ راحت قلب وسینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا”قل رب زدنی علما“اے نبی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم!آپ کہیں کہ اے میرے رب!میرے علم میں زیادتی عطاکر۔اورجیساکہ مشائخ کاقول ہے۔کہ طریقت میں چودھواں درجہ کرامت کاہے اوراٹھارھواں اسراررموزکا،کیونکہ کرامات کاحصول عبادت سے متعلق ہے۔اوراسراررموزکاعقل وفکرسے۔جیساکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت ہرشے پرتھی،لیکن اتباع حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کرتے تھے۔اورخودصاحب کتاب نبی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ انہیں کی کتاب پرعمل پیرارہے۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اورحضرت امام حنبل رحمۃ اللہ علیہ کسی جگہ تشریف فرماتھے۔کہ حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ بھی اتفاق سے وہاں پہنچ گئے۔حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کودیکھ کرحضرت امام حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے کہاکہ میں ان سے ایک سوال کرو ں گا۔لیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے منع کرتے ہوئے فرمایاکہ واصل باللہ لوگوں سے کیاسوال کروگے؟ان کامسلک ہی جداگانہ ہوتاہے۔لیکن منع کرنے کے باوجودانہوں نے سوال کرڈالا۔جس شخص کی پانچ نمازوں میں سے ایک نمازقضاہوگئی ہواوریہ بھول گیاہوکہ کونسی نمازقضاء ہوئی تواُسے کیاکرناچاہیے۔حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ سب نمازوں کی قضاء کرے۔اس لئے کہ وہ خداسے غافل ہوکراس قدربے ادبی کامرتکب کیوں ہوا؟یہ سن کرامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے کہاکہ میں نے اسی لیے منع کیاتھاکہ ان لوگوں سے کوئی سوال نہ کرو۔

مقام رضائے الٰہی
ایک مرتبہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ مغرب کی نمازِکے وقت حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچے۔لیکن حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نمازکے لئے کھڑے ہوچکے تھے۔اورحضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے جب یہ دیکھاکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ الحمدکی بجائے الھمدچھوٹی ھ سے قرات کررہے ہیں۔تویہ خیال کرکے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ چونکہ قرآن کاتلفظ صحیح ادانہیں کرسکتے۔اس لئے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے نمازنہ پڑھنی چاہیے۔چنانچہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے علیحدہ نمازپڑھی۔لیکن اُ سی رات کوخواب میں اللہ تعالیٰ کادیدارنصیب ہوا۔توآپ رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کی۔یااللہ!تیری رضاکاذریعہ کیاہے؟۔ارشادہواکہ تونے ہماری رضاپائی،لیکن اس کامقام نہیں سمجھا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھاوہ کونسی رضاتھی؟ارشادہواکہ اگرتونمازمیں حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کی اقتداء کرلیتاتوتیرے لئے تمام عمرکی نمازوں سے بہترتھا۔کیونکہ تونے اس کی ظاہری عبادت کاتصورتوکیالیکن اس کی نیت نہیں دیکھی۔جب کہ ولی کی نیت سے تلفظ کی صحت کم درجہ رکھتی ہے۔
ایک مرتبہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ حجاج بن یوسف کے سپاہیوں سے چھپتے ہوئے حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کی عبادت گاہ میں پہنچ گئے۔جب سپاہیوں نے حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا توانہوں نے صاف صاف بتادیاکہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ عبادت گاہ کے اندرہیں۔لیکن پورے عبادت خانے کی تلاشی کے باوجودبھی حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کاسراغ نہ مل سکا۔اورحضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سات مرتبہ سپاہیوں نے میرے اوپرہاتھ رکھا۔لیکن مجھے دیکھ نہ سکے۔پھرسپاہیوں نے حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ سے کہاکہ حجاج تم کوجھوٹ بولنے کی سزادے گا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ میرے سامنے عبادت گاہ میں داخل ہوئے تھے۔لیکن اگروہ تمہیں نظرنہیں آئے تواسمیں میراکیاقصورہے؟چنانچہ پھردوبارہ تلاشی لی لیکن ا ن کونہ پاکرواپس آگئے۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے باہرنکل کرحضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ سے کہاکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے تواستادی کے حق کابھی کچھ پاس نہیں کیااورصاف صاف انہیں میراپتابتادیا۔انہوں نے جواب دیاکہ چونکہ میں نے سچ سے کام لیااس لئے آپ رحمۃ اللہ علیہ محفوظ رہے۔اگرمیں جھوٹ سے کام لیتاتویقیناہم دونوں گرفتارکرلیے جاتے۔یہ سن کرحضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھاکہ آخرتم نے کیاپڑھ دیاتھاکہ جس کی وجہ سے سپاہیوں کونظرنہ آسکا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایادومرتبہ آیت الکرسی،دومرتبہ سورہ اخلاص (قل ہواللّٰہ احد)اوردومرتبہ سورۃالبقرہ کی آیت کریمہ آمن الرسول پڑھ کراللہ تعالیٰ سے عرض کی حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کوتیرے حوالے کیاتوہی ان کی حفاظت فرما۔(تذکرۃ الاولیاء)

توکل علی اللہ
حضرت سیدناحبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پرایک سائل نے صدادی۔اسوقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زوجہ محترمہ گندھاہواآٹارکھ کرپڑوس سے آگ لینے گئی ہوئی تھیں تاکہ روٹیاں پکائیں۔حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے وہی آٹااُٹھاکرسائل کودے دیا۔جب بیوی آگ لیکرآئی توآٹاغائب تھا۔حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے بیوی کوبتادیاکہ وہ آٹاسائل کوخیرات کردیاہے۔بیوی نے کہابہت اچھی بات ہے لیکن اب ہمیں بھی توکچھ کھانے کے لئے درکارہے۔اسی اثناء میں دروازے پردستک ہوئی ایک شخص گوشت اورروٹی لے آیا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایادیکھوکس قدرجلدلوٹادیاگیا۔گویاروٹی بھی پکی ہوئی مل گئی اورساتھ سالن بھی ہمیں بھیج دیاگیا۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تشریف لے گئے۔تواُسوقت ان کے پاس جَوکی ایک روٹی اورتھوڑاسانمک موجودتھا۔حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے وہی بطورِتواضع حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے رکھ دیا۔جب انہوں نے کھاناشروع کیاتوایک سائل آگیا۔حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے وہ روٹی حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے آگے سے اُٹھائی اورسائل کودے دی۔اس پرحضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔تم میں شائستگی توضرورہے لیکن علم نہیں۔کیاتمہیں یہ معلوم نہیں کہ مہمان کے سامنے سے اس طرح پوری روٹی اُٹھاکرنہیں دینی چاہیے؟بلکہ ایک ٹکڑاتوڑکردے دیتے ہیں۔تویہ سن کروہ خاموش رہے۔تھوڑی دیربعدایک غلام سرپرخوان نعمت رکھے ہوئے حاضرہوئے جس میں تمام قسم کے نفیس کھانے موجودتھے اوراس کے ساتھ پانچ سودرہم بھی موجودتھے۔حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے وہ درہم توغریبوں میں تقسیم کردیے اورکھانے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سامنے رکھ کرخودبھی کھانے بیٹھ گئے۔اورکھانے سے فراغت کے بعدحضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایاکہ آپ کاشمارنیک لوگوں میں توضرورہوتاہے لیکن کاش!یقین کادرجہ بھی حاصل ہوتاتوبہت بہترتھا۔(تذکرۃ الاولیاء)

Advertisements
julia rana solicitors

انتقال پُرملال
حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کاوقت جب قریب آیاتوبہت گھبرانے لگے۔کسی نے عرض کیاحضرت آپ تواللہ تعالیٰ کے”ولی“ ہیں آپ بھی اتناگھبراتے ہیں۔اس سے پہلے توآپ اتنے پریشان نہیں ہوتے تھے۔حضرت حبیب عجمی رحمتہ اللہ علیہ فرمانے لگے۔سفربہت لمباہے۔توشہ پاس نہیں ہے۔کبھی پہلے اس راستے پرسفرکرنے کااتفاق نہیں ہوا۔آقااورسردارکی زیارت کرنی ہے۔اس سے پہلے زیارت نہیں کی۔ایسے خوفناک مناظردیکھنے ہیں۔جوپہلے کبھی نہیں دیکھے۔مٹی کے نیچے قیامت تک اکیلے پڑے رہناہے۔وہاں کوئی غمخوارپاس نہیں ہوگا۔پھراللہ رب العزت کے حضورپیشی ہوگی۔مجھے ڈرلگ رہاہے کہ اگراللہ رب العزت نے پوچھ لیاکہ حبیب!ساٹھ سالوں میں ایک تسبیح توایسی پیش کردے جس میں شیطان کاکوئی داخل نہ ہوتومیں کیاجواب دوں گا۔(بحوالہ موت کی تیاری۸۴)
آپ رحمۃ اللہ علیہ کاوصال ہشام بن عبدالملک کے عہدمیں 3ربیع الثانی156ھجری کوہوااوربصرہ میں مدفون ہوئے۔
اللہ تعالیٰ کی ان پررحمت ہواوران کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین طٰہ ویٰسین

Facebook Comments

حافظ کریم اللہ چشتی پائ خیل
مصنف، کالم نگار، اسلامی سیاست کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply