اُمِّ فیصل (12،آخری قسط)-مرزا مدثر نواز

زبیدہ نے صرف چوتھی کلاس تک تعلیم حاصل کی لیکن جس عقلمندی و سمجھداری سے گھر چلایااور اپنے سب بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی‘ وہ لائقِ تحسین ہے۔ اپنی سلائی کی کمائی سے چار آنہ تک کی کمیٹیاں ڈالیں اور کمیٹیوں‘ یحییٰ کی ہاؤس ہائرنگ اور دوسری نوکری سے پیسے جمع کر کے تمام بڑے بڑے کام کیے۔ اپنے والد سے جو پلاٹ لیا‘ مارکیٹ ریٹ سے زیادہ رقم ادا کی‘ دونوں میاں بیوی نے پہلا حج 1999میں کیا‘ پھر 2004میں دفتر کی طرف سے حج کیا‘ 2010میں فیصل نے ہمشیرہ کے ہمراہ حج کیا اور 2018میں دونوں میاں بیوی نے اپنے دو چھوٹے بیٹوں کے ہمراہ حج کیا‘ اس کے علاوہ اپنے بچوں کو اچھی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم دلوائی‘ بڑی بیٹی نے ایم اے اسلامیات‘ بی ایڈ اور عالمہ کورس کیا‘ چھوٹی بیٹی نے ایم فل ایجوکیشن اور عالمہ کورس کیا‘ بڑے بیٹے نے ایم ایس سافٹ انجنئیرنگ‘ منجھلے نے بی ایس سی ایس اور چھوٹے بیٹے نے الیکٹریکل انجنئیرنگ کی۔
زبیدہ کی بیٹیاں خاندان کی پہلی بچیاں ہیں جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اس سے پہلے خواتین کے سکول جانے اور پڑھنے پر پابندی تھی۔ جب بڑی بیٹی کا کالج میں داخلہ ہوا تو زبیدہ کے چچا جرگہ لے کر اس کے گھر آئے کہ کالج میں لڑکیاں بے حیائی سیکھتی ہیں‘ لہٰذا اس کو کالج مت بھیجو‘ پہلے ہی بہت پڑھ لیا ہے۔ لیکن زبیدہ نے سب کی ناراضگی مول لے کر کالج بھیجا اور ساتھ عالمہ کا کورس کروایا۔ کچھ عرصہ بعد جرگہ لے کر آنے والے چچا کی بیٹیوں کا بھی زبیدہ کے انکار کی وجہ سے کالج جانا ممکن ہوا۔ زبیدہ کی دونوں بیٹیوں کی شادی ہاجرہ کے ماموں عبدالرّحمٰن کی بیٹی کے صاحبزادگان سے ہوئی جو کراچی میں مقیم ہیں‘ دونوں بہنیں بھی اپنے گھر کی سپورٹ کے لیے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں‘ بڑی بہن پاکستان سٹیل مل کے خواتین کے کالج میں لیکچرر جبکہ چھوٹی بہن سی بی سکول ملیر میں پڑھا رہی ہے۔ زبیدہ کے تینوں بیٹے اچھے اداروں میں ملازمت کر رہے ہیں اور شادی شدہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اگر آج موازنہ کیا جائے تو جائیداد و زمینوں کی وجہ سے گھر سے نکالے گئے ابراہیم کا خاندان ایک پر مسرت و خوشحال زندگی بسر کر رہا ہے جن کے پاس اعلیٰ تعلیم‘ مہنگے ترین گھر‘ اچھی سوسائٹیز میں پلاٹس اور بینک بیلنس ہے اور سب سے بڑی نعمت کہ انہوں نے کسی کا حق نہیں مارا اور کسی کی جائیداد پر قابض نہیں جبکہ دوسری طرف ابراہیم کے بھائیوں کا خاندان آج بھی زمینوں کو جپھا مارے ہوئے غربت کی چکی میں پسا‘ کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ ایک دفعہ فیصل اپنے والد کے خاندان میں کسی بیمار کا پتہ کرنے گاؤں گیا تو بیمار نے خوش و شکر گزار ہونے کی بجائے اسے کہا کہ ”اچھا پھر تم پرانا حساب کتاب کرنے آئے ہو گے“؟ فیصل نے بھی اپنی دادی والا جواب دیا کہ یہ پہاڑ و زمینیں تمہیں مبارک‘ ہم اپنی زندگی میں خوش ہیں اور صلہ رحمی کرتے رہیں گے۔آخر ہم کب سمجھیں گے کہ یہ خوش نما اور دل کو موہ لینے والی زمینیں‘ جائیدادیں‘ کوٹھیاں‘ بنگلے‘ محلات‘ کاریں‘ زیورات‘ سب کم مدتی و عارضی ہیں اور ایک دن سب نے انہیں چھوڑ کر چلے جانا ہے جبکہ حقیقی زندگی تو اصل میں آخرت کی زندگی ہے جس کے لیے سعی کرنا ہی اس دنیا میں کرنے والا اصل کام ہے۔
؎ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا سے میں اٹھ جاؤں گا
دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے (سیماب اکبر آبادی)
(ختم شد)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply