پلاسٹک کی آلودگی؛ماحول کیلئے سنگین خطرہ/اورنگزیب نادر

پلاسٹک آلودگی ماحول کے لئے ایک خطرہ ہے کیونکہ پلاسٹک کو گلنے میں برسوں لگتے ہیں اور اسی طرح پلاسٹک کا زیادہ تر فضلہ یا تو جلا دیا جاتا ہے یا لینڈ فلز میں بھیجا جاتا ہے، یوں بالآخر ہماری ہوا، زمین اور سمندر آلودہ ہو جاتے ہیں۔ دور حاضر میں پلاسٹک ہر جگہ استعمال ہورہاہے اس کی وجہ پلاسٹک کی کم قیمت، استحکام، اور استعداد ہے۔ دنیا بھر میں سالانہ تقریباً 500 بلین پلاسٹک کے تھیلے استعمال ہوتے ہیں۔ ہر منٹ میں دس لاکھ سے زیادہ پلاسٹک کے تھیلے استعمال ہوتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق ہر سال، دنیا بھر میں تقریباً 350 ملین میٹرک ٹن پلاسٹک کا فضلہ پیدا ہوتا ہے  اور یہ 10 ملین سے زیادہ مکمل طور پر بھرے کچرے کے ٹرکوں کے برابر ہے ۔

یوں ہی آہستہ آہستہ پلاسٹک ماحول کو ابتر کرنے میں کلیدی کرادر ادا کررہاہے۔ پلاسٹک نہ صرف ماحول کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ انسانی صحت اور آبی حیات کی بقاء کے لیے بھی بہت خطرناک  ہے۔ یہ سب انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے، انسانی سرگرمیوں نے ماحول کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق دنیا بھر کے سمندروں میں 171 کھرب سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے تیر رہے ہیں۔ پلاسٹک نہ صرف مچھلیوں اور دیگر سمندری حیات کو ہلاک کر دیتا ہے بلکہ اس کے نقصان دہ اجزا کو کم نقصان دہ ہونے میں سینکڑوں سال لگتے ہیں۔ سائنسدانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر سمندری آلودگی پر قابو پانے کے لیے فوری اور جامع اقدامات نہ کیے گئے تو 2040 تک اس میں تین گنا اضافہ ہوسکتاہے۔

پاکستان کا شمار دنیا کے آلودہ ترین ممالک میں ہوتاہے خواہ وہ فضائی ، آبی یا زمینی ہو۔ دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی پلاسٹک آلودگی کا  شدت سے سامناہے۔پلاسٹک ویسٹ پیدا کرنے میں پاکستان دنیا میں چھٹے اور ایشیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریباً 20 ملین ٹن ٹھوس فضلہ پیدا ہوتا ہے جس میں سے 5 سے 10 فیصد پلاسٹک کا کچرا ہے۔ مزید برآں، ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (WWF) کی جانب سے 2018 میں کی گئی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ پاکستان پلاسٹک آلودگی کے حوالے سے دنیا کے 10 سرفہرست ممالک میں سے ایک ہے، جہاں ایک اندازے کے مطابق 90 فیصد پلاسٹک کے فضلے کو غلط طریقے سے ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔رپورٹ میں پاکستان کے دریائے سندھ کو سمندروں میں پلاسٹک آلودگی کا دوسرا سب سے بڑا شراکت دار قرار دیا گیا ہے۔ دریائے سندھ سالانہ 164,332 ٹن پلاسٹک فضلہ (سمندر میں) ڈالتا ہے۔ پاکستان میں پلاسٹک کو پھینکنے یا گلنے کا کوئی منظم طریقہ نہیں ہے۔ منصفانہ انتظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے ملک کو مختلف ماحولیاتی بحرانوں کا سامنا ہے۔ پاکستان میں آپ جہاں بھی جائیں، آپ کو ہر گلی میں پلاسٹک یا کچرا نظر آئے گا۔

پلاسٹک آلودگی کے  زیادہ تر اثرات آبی حیات پر مرتب ہورہےہیں کیونکہ آبی حیات پلاسٹک کو اپنی خوارک سمجھ کر کھاجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ سمندر میں کچرے کو ڈمپ کرنے کی بدانتظامی کی وجہ سے ہر سال 100 ملین آبی حیات کی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں اور سمندر کا ماحولیاتی نظام تباہ ہو جاتا ہے۔ آبی حیات کی تقریباً 1,000 اقسام سمندری آلودگی سے متاثر ہوتی ہیں، 500 ایسے مقامات کو ڈیڈ زون کے طور پر ریکارڈ کیا جاتا ہے جہاں سمندری حیات موجود نہیں ہوتیں ۔

ظریف بلوچ اپنی کتاب ساحل مکران میں شعیب کیانی(اسسٹنٹ پروفیسر انسٹیوٹ آف میرین سائنس جامعہ کراچی) کا حوالہ دیتے ہیں کہ پلاسٹ کے تھیلے آبی پرندوں، کچھوے، ڈولفن اور شارک وصیل کے لیے بھی خطرے کا  باعث ہیں۔ جوان پلاسٹک کے تھیلوں کو جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں اور ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کے بعض ممالک میں ریسرچ کرنے سے ڈولفن اور شارک وہیل کے پیٹ سے سات سے آٹھ کلو وزنی پلاسٹک کے بیگ نکلے ہیں۔ ان کی موت کی  وجہ کا  تعین کرنے سے معلوم ہوا کہ پلا سٹک کے تھیلوں نے معدے کو بلاک کر دیا اور اسی طرح پلاسٹک کے ذخیروں میں آبی پرندے پھنس جاتے ہیں۔

پلاسٹک نہ صرف آبی حیات کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے بلکہ انسانی صحت پر اس کے منفی اثرات ہیں۔ حال ہی میں ایک رپورٹ سے یہ ثابت ہوا   کہ پلاسٹک انسانی صحت کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ مغربی سائنسدانوں نے تحقیق میں انسانی خون کے نمونے لئے گئے ان نمونوں کے اندر حیرت میں ڈالنے والے انکشافات ہوئے۔ اس تحقیق کے مطابق انسانی خون میں 80 فیصد سے زائد پلاسٹک کے خطرناک ذرات پائے گئے ہیں۔ اور یہ ذرات انسانی خون کے بہاؤ کے ساتھ کسی بھی اعضاء میں جاکر کئی سنگین مسائل کا سبب بن سکتےہیں۔

ایریک لینڈے برگ کے مطابق ماہی گیری بھی سمندری آلودگی کی ایک وجہ سمجھا جاتی  ہے ۔ پلاسٹک سستا ہونے کی وجہ سے آئے دن پلاسٹک کے  اِستعمال  میں ہوشربا اضافہ ہورہاہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ماہر ایریک لینڈے برگ مزید کہتےہیں اگر صورتحال میں تبدیلی نہ لائی گئی تو ایکوسسٹم تباہ ہوسکتاہے۔ہماری لاپرواہی سے آبی حیات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بہت سے لوگ ساحل سمندر پر پکنک منانے جاتے ہیں اور وہاں پر پلاسٹک ودیگر حل نہ ہونے والی اشیاء پھینک دیتےہیں جو بالآخر سمندر کی نذر ہوجاتے ہیں جس سے آبی حیات کی بقاء کو خطرہ لاحق ہوتا  ہے۔

کیا  پلاسٹک آلودگی کو کم یا ختم کیاجاسکتاہے؟ جی ہاں بالکل ممکن ہے اگر ہم عزم کریں اور سب مل کر اس سے مقابلہ  کریں تو جلد ہم پلاسٹک آلودگی میں نمایاں کمی لاسکتے ہیں پلاسٹک آلودگی کو کم کرنے کے کئی موثر طریقےہیں۔

1- پلاسٹک کے تنکے کا استعمال بند کریں کیونکہ صرف امریکہ اور برطانیہ میں روزانہ 550 ملین سے زیادہ پھینکے جاتے ہیں۔

2- دوبارہ قابل استعمال بوتلوں یا مگوں سے مشروبات پئیں کیونکہ عالمی سطح پر ہر سال 500 بلین پلاسٹک کی بوتلیں استعمال ہوتی ہیں۔

3- اپنے گروسری کو دوبارہ استعمال کے قابل تھیلوں میں گھر لے جائیں پلاسٹک کی نہیں کیونکہ ہر سال 1 ٹریلین سے زیادہ پلاسٹک کے تھیلے ضائع ہو جاتے ہیں۔

4- ڈسپوزایبل کے بجائے کپڑے کے لنگوٹ کا استعمال کریں کیونکہ امریکہ میں ہر سال 27.4 بلین ڈسپوزایبل پھینکے جاتے ہیں۔

5- تمباکو نوشی بند کرو کیونکہ 2018 میں ساحلی صفائی کے بین الاقوامی دن کے موقع پر 2.4 ملین سے زیادہ سگریٹ فلٹرز ملے۔ سب سے اہم امر یہ ہے   کہ حکومت اور متعلقہ حکام کو پلاسٹک کے استعمال پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے اور اس کے متبادل (کپڑے یا دوبارہ استعمال کے قابل بیگ) متعارف کرانے کی ضرورت ہے جو ماحول کے لیے فائدہ مند ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تھوڑی سی کوشش کرکے ہم بہت بڑا فرق لاسکتےہیں۔ اس لیے آج سے عزم کیجیے اور پلاسٹک کی آلودگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیجیے۔ لوگوں کو پلاسٹک آلودگی کے اثرات سے آگاہ کرنے کے لیے آگاہی پروگرام منعقد کرنے کی کوشش کیجیے تاکہ لوگوں میں شعور بیدار ہوجائے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیات کے پروگرام کی ایک نئی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہم 2040 تک پلاسٹک کی آلودگی کو 80 فیصد تک کم کر سکتے ہیں اگر ہم پلاسٹک کو دوبارہ استعمال کرنے، ری سائیکل کرنے اور دوبارہ ترتیب دینے اور متنوع بنانے کے لیے ابھی سے عمل کریں۔ تو آج سے عمل کرنا شروع کیجیے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply