پاکستان ہمارا محسن۔۔سیّد عمران علی شاہ

پروردگارِ عالم نے انسان کو جس قدر نعمتیں عنایت فرمائیں، ان کا احاطہ کرنا ناممکن ہے، پوری کائنات کی تمام مخلوقات پر فضیلت عطا فرما کر انسان کو اشرف المخلوقات کا تاج پہنایا، انسان کو ہر ذی روح کی سرداری سے سرفراز کیا،انسان کے لیے اس  سے بڑا اعزاز کیا ہوگا کہ رب العالمین نے اسے اپنی نیابت دے دی، جس کو ایسا عروج دیا کہ، فرشتوں  سے  آدم علیہ السلام کو سجدہ کروایا۔

آدم کی اولاد سے رب کائنات نے ایسی محبت کی کہ اس کا پیٹ بھرنے کے لیے آسمانوں سے من و سلویٰ اتارا، انسان کو عقل سلیم عطا کرکے سوچ سمجھ کر روشنی سے مالا مال فرما دیا، انسان اگر اپنے رب کی بندہ نوازی کا شکر بجا لانے کے لیے  تمام عمر بھی سجدے میں پڑا رہے تو پھر بھی اپنے پاک پروردگار کا شکر ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔

انسان کو عطا کردہ نعمتوں میں سے اس کا اپنا وطن ایک بے مثال اور عظیم ترین نعت ہے، اپنے وطن کی آزاد اور خودمختار فضاؤں میں سانس لینے کا لطف و لذت ہی اور ہوتی ہے،دنیا کے نقشے پر اس وقت دو سو سے زائد آزاد ممالک موجود ہیں،مگر ان کے ساتھ ساتھ بہت ساری ایسی بھی اقوام ہیں جو کہ اپنی آزادی کے  لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
فلسطینی قوم، اسرائیل کی بربریت اور ظلم کا شکار ہے، اب تک لاکھوں فلسطینی اپنے وطن سے اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف برسرپیکار ہو کر جام شہادت نوش کر چکے ہیں،مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام اپنی جدوجہد آزادی تحریک میں گزشتہ 70 سالوں سے بھارتی قابض افواج کے انسانی تاریخ کے بدترین ظلم و ستم کا شکار ہورہے ہیں۔

بھارتی افواج کی درندگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ پوری دنیا میں  بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی شدید مذمت جاری ہے،بھارت کی بدترین بربریت مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کے جذبہ حریت کو دبانے میں مکمل ناکام دکھائی دیتی ہے، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حوصلے مزید بلند ہوتے جارہے ہیں،اپنا آزاد وطن اور آزادی کی نعمت کیا ہوتی  ہے،اس کی اہمیت کوئی ان اقوام سے پوچھے جو آج بھی اپنے آزاد وطن کے حصول کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔
بقولِ شاعر
عشق و آزادی بہار زیست کا سامان ہے
عشق میری جان،آزادی میرا ایمان ہے
عشق پر کردوں فداء میں اپنی ساری زندگی
لیکن آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے!

نسل نو کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ یہ عظیم ملک ایسے ہی نہیں مل گیا، ارض وطن پاکستان کا وجود ایک عظیم اور مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں ہوا ،قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہر ایک محاذ پر آزاد ملک کے حصول کے لیے اپنی صحت کو بالائے طاق رکھ کر شبانہ روز    محنت کی، آپ کو اندازہ تھا کہ مکار ہندو کبھی بھی اس بات کو ہضم نہیں کر پائیں گے برصغیر کی تقسیم ہو اور مسلمانوں کو الگ آزاد ملک میسر آئے، اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا ہندو راہنماؤں نے اپنی سر توڑ کوشش کی کہ کسی طرح سے انگریزوں سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم نہ ہو مگر قائداعظم کے تدبر، وقار اور بے پایاں صلاحیتوں کے سامنے ہندؤوں کی تمام سازشیں دم توڑ گئیں ،آزادی کے متوالوں نے تحریک پاکستان میں اپنے قائدین کی راہنمائی اور احکامات کو بجا لاتے ہوئے، اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

خواتین، بچوں اور بوڑھوں تک نے اپنی  جان و مال تحریک آزادی پر قربان کرنے سے دریغ نہ کیا، پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی مشتعل ہندؤوں اور سکھوں نے مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ دیے۔
آزادی کے وقت ہندوستان سے پاکستان پہنچنے والی ٹرینیں ظلم و علم کی داستانیں بیان کر رہی تھیں شاید ہی کوئی خوش نصیب ہوگا جس  کے کچھ اعضاء سلامت ہوں، بیشتر مہاجرین کو تو بے رحمی سے قتل کر کے بھیجا گیا تھا۔خاندانوں کے خاندان اجڑے لٹے ہوئے پاکستان پہنچے۔

ارض وطن کا معرض وجود میں آنا اتنا سہل نہیں تھا، یہ وطن جو کہ ہر ایک پاکستانی کے دل کی دھڑکن ہے، ہر پاکستانی کا محسن بھی ہے، پاکستان نے ہمیں نام، عزت اور قابلِ فخر پہچان عنایت کی ہے، اس پاک وطن نے ہمیں زندگی میں اپنی مرضی سے آگے بڑھنے کے  مواقع فراہم کیے ہیں، آپ دنیا کے کسی ملک میں بھی چلے جائیں، آپ وہاں کسی بھی عہدے پر فائز ہوجائیں آپ کو وہاں دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت بھی حاصل نہ ہوگی ، آپ وہ مقام حاصل نہیں کر سکتے جو آپ کو اپنے وطن، اپنے گھر پاکستان میں حاصل  ہے۔

پاکستان نے تو ہم سب کو بہت کچھ دیا، اب ایک سوال جشن آزادی کے موقع پر خود سے بھی کریں، کہ ہم نے بحیثیت پاکستانی شہری اپنے ملک کو کیا دیا ہے، ہم  نے وطن کی مٹی کا قرض اتارنے کی کتنی کوششیں کی ہیں، ہم نے  اپنی مادر وطن کے وقار کی سربلندی کے لیے کیا کارہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں؟
ہم جہاں جہاں جس جگہ اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں، ہم اپنے وطن کے ساتھ کتنے مخلص ہیں؟

اگر ہم منصف ہیں تو ہم کس قدر اپنے منصب کے تقاضے پورے کرکے ارض وطن میں نظام عدل کو مؤثر بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، اگر ہم صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں  تو ہم قومی اہمیت کے مسائل کو کس طرح اجاگر کر رہے ہیں کہ جس سے ملکی وقار پر آنچ بھی نہ آئے اور مسائل کا پائیدار حل بھی ہو۔

اگر ہم قانون ساز ہیں تو ہم نے قانون سازی کے عمل میں  کس قدر ذمہ داری مظاہرہ کیا کہ وہ قوانین ملک پاکستان کی عوام کے بہترین مفاد میں ہوں نہ کہ صرف مراعات یافتہ اشرافیہ کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوں۔

اگر آپ اساتذۂ کرام ہیں تو کیا آپ کا طریقہ تدریس اتنا مؤثر ہے کہ اپنے طلباء و طالبات کو آئین پاکستان اور نظریہ پاکستان کی اہمیت کا ادراک ہے۔

میرے وطن یہ عقیدتیں اور پیار تجھ پر نثار کردوں
محبتوں کے یہ سلسلے بے شمار تجھ پر نثار کردوں

آئیے اپنے محسن پاکستان کی ترقی اور اس کے وقار کو بڑھانے کے لیے، اپنا اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا عہد کیجیے۔پاکستان زندہ باد!

Advertisements
julia rana solicitors

ہم تو مٹ جائیں گے اے ارض وطن لیکن تم کو
زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک

 

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply