​دریا در کوزہ سیر یز(1)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

مر زا غالب کے مصارع پر مبنی مختصر نظمیں جو تفسیر و تاویل
عقدہ کشائی اور معنی و مفتاح کی کلیدہیں۔

پردہ ء ساز
لے، سُر ، الاپ تھے، مگر “منہ بند” ہم بھی تھے
اخفا میں تھا سکوت بباطن خبر رساں
تسلیم و اعتراف تھے مستور و مستقر
دے گا کوئی دُہائی بقائے دوام کی؟
ہم نے بھی منہ کو سی لیا زیرِغیابِ اصل
لیکن معاملہ تو تھا کشف و شہود سے
اس واسطے کتمان سے ابلاغ وا ہوا
غالب نے بھی کہا تو تھا با معنی و جواز
“یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا”
————

پیمان ِ وفا
پیمان ِ وفا؟ عہد؟ قسم؟ قول یا اقرار؟
صادق تھا اپنے قول میں غالبؔ، خدا گواہ
لیکن یہ عہد نامہ نہیں تھا، کہ دو فریق
قول و قرار کے تھے بہ ایں شرط ہی پابند
وابستہ ء دامن تو بس عرضی گذار تھا
اور اس کی ضمانت تھی فقط کھوکھلے الفادریا در کوزہ سیر یز
————-
مر زا غالب کے مصارع پر مبنی مختصر نظمیں جو تفسیر و تاویل
عقدہ کشائی اور معنی و مفتاح کی کلیدہیں۔

پردہ ء ساز
لے، سُر ، الاپ تھے، مگر “منہ بند” ہم بھی تھے
اخفا میں تھا سکوت بباطن خبر رساں
تسلیم و اعتراف تھے مستور و مستقر
دے گا کوئی دُہائی بقائے دوام کی؟
ہم نے بھی منہ کو سی لیا زیرِغیابِ اصل
لیکن معاملہ تو تھا کشف و شہود سے
اس واسطے کتمان سے ابلاغ وا ہوا
غالب نے بھی کہا تو تھا با معنی و جواز
“یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا”
————

Advertisements
julia rana solicitors

پیمان ِ وفا
پیمان ِ وفا؟ عہد؟ قسم؟ قول یا اقرار؟
صادق تھا اپنے قول میں غالبؔ، خدا گواہ
لیکن یہ عہد نامہ نہیں تھا، کہ دو فریق
قول و قرار کے تھے بہ ایں شرط ہی پابند
وابستہ ء دامن تو بس عرضی گذار تھا
اور اس کی ضمانت تھی فقط کھوکھلے الفاظ
“دست تہ ِ سنگ آمدہ پیمان ، وفا ہے”

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply