کرونا وبا کی اصلیت(قسط 1)۔۔مونا شہزاد

30 اکتوبر 2019 کی ایک ٹھٹھرتی ہوئی شام تھی۔ ملٹی سٹوری بلڈنگ خالی ہوچکی تھی۔ سکیورٹی گارڈز بھی جانے کی تیاریوں میں تھے۔ اچانک سٹیو کے فون پر ایک میسج آیا ۔اس نے باقی سکیورٹی گارڈز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
“چھ بڑوں کے استقبال کی تیاری کرو۔”
اس کے نیچے متعین چار سکیورٹی گارڈز نے حیرت سے اسے دیکھا۔ اسمتھ نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا:
“اتنے طویل عرصے کے بعد آج بڑوں کو ملنے کا خیال کیسے آگیا؟”
سٹیو نے اسے خشمگیں نگاہوں سے گھورا۔ وہ سب تیزی سے پروٹوکول کے مطابق تیاری میں مصروف ہوگئے ۔اسمتھ نے زبان دانتوں تلے دبا لی وہ جانتا تھا کہ یہاں مزید سوال کرنے پر جواب میں ایک بلٹ کھوپڑی میں اتار دیا جاتا تھا ۔
کمرے میں نیم تاریکی چھائی ہوئی تھی ۔ میز کے اردگرد بیٹھے چھ بڑوں کے چہروں پر نقاب تھے۔ ان کی شناخت ایک دوسرے سے پوشیدہ تھی۔ وہ ایک دوسرے کے لئے یکسر انجان تھے مگر درحقیقت ایک ہی مقصد کے حصول کے لئے کوشاں تھے۔ اجلاس اپنے اختتام کو پہنچنے والا تھا ۔وہ پچھلے ایک گھنٹے سے ایک دوسرے کو بریفنگ دے رہے تھے ۔امریکن لہجے میں انگریزی بولتے ہوئے ایک بڑے سیاہ نقاب پوش نے کہا:
“جینٹل مین! کیا آپ سب میری تجویز سے متفق ہیں؟”
دوسرے بڑے سرخ نقاب پوش نے برطانوی لہجے میں انگریزی بولتے ہوئے کہا:
“نیو ورلڈ آرڈر کے لئے ضروری ہے کہ تمام مناسب اقدامات اٹھائے جائیں ۔”
تیسرے بڑے نے سر اٹھایا اور دبی زبان میں بولا:
“کیا اتنی جانوں کا ضیاع اس نئے ورلڈ آرڈر کے قیام کے لئے ضروری ہے؟”
ایک لمحے کے لئے کمرے میں خاموشی چھا گئی۔سب نے جواب طلب نظروں سے میز کے اختتام ہر بیٹھے بڑے کی جانب دیکھا ،جو سب کا سرغنہ محسوس ہوتا تھا۔ وہ دبنگ لہجے میں بولا:
“ایک اعلی و ارفع مقصد کے حصول کے لئے چند لاکھ جانوں کا نذرانہ کچھ بھی نہیں ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر جنگ اپنے سپاہیوں کے خون پر ہی جیتی جاتی ہے۔ وہی قومیں سرفراز رہتی ہیں جو جانوں کا نذرانہ دینے سے نہیں گھبراتی نہیں ہیں ۔”
چوتھے سفید نقاب پوش بڑے نے دبی آواز میں کہا:
“مگر جنگ کے اصول و قوانین کا اطلاق ہم عام جنتا پر کیسے کرسکتے ہیں ؟
اس نئی جنگی حربے سے بے شمار بوڑھے، بچے ، عورتیں ، مرد اس کی زد میں آئیں گے۔ بے شمار بے گناہ لوگ مارے جائیں گے۔”
سرغنہ نے غراتے ہوئے بولا:
“تمھیں ہماری کمیٹی کے فیصلوں پر شک ہے؟”
چوتھا نقاب پوش دبک سا گیا۔ وہ دبی آواز میں بولا:
“ہرگز نہیں ۔مجھے کسی بات پر شک نہیں ۔”
سرغنہ نے ایک خوفناک قہقہہ لگایا اور بولا:
“ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کے حملے سے ہی جنگی قواعد و ضوابط بدل گئے تھے ۔ ابھی تک جاپانیوں کی نسلیں اپاہج پیدا ہورہی ہیں ۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ چین کو مفلوج کردیا جائے۔”
پانچواں زرد نقاب پوش نفرت سے بولا:
“مجھے دنیا بھر کے بوڑھوں سے نفرت ہے۔ یہ بوڑھے اپنی بھرپور زندگیاں بسر کر بیٹھے ہیں مگر ابھی تک مرنے پر تیار نہیں ۔ہمارے ملکوں میں life expectancy نوے سال تک پہنچ گئی ہے جس کے نیتجے میں یہ بوڑھے جونکیں بن کر ہمارے وسائل کو چوس رہے ہیں ۔ ہماری حکومتوں کو فلاحی ریاستیں ہونے کے باعث اپنے وسائل کا بڑا حصہ ان پر خرچ کرنا پڑتا ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ لگے ہاتھوں ان خون چوسنے والی جونکوں سے پیچھا چھڑوا لیا جائے۔”
کمرے میں خاموشی سی چھا گئی۔ سیاہ نقاب پوش نے پھر ٹھہری ہوئی آواز میں کہا:
“تو طے پایا کہ ہم یکم نومبر سے آپریشن نومبر کا آغاز کریں گے۔”
سب نے مل کر ایک قہقہہ لگایا اور یک زبان ہو کر بولے:
“نیو ورلڈ آرڈر کے نام۔”
کمرے میں موجود نادیدہ ابلیس میز پر آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا اس نے بہت فخر سے اپنے نقاب پوش حواریوں کو دیکھا اور زور و شور سے تالیاں پیٹنے لگا۔اس نے اپنے فربہ پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:
“میرے بچو! تم جیسے انسانوں کی موجودگی میں مجھے محنت نہیں کرنی پڑتی۔ آرام کر کر میری فٹنس متاثر ہونے لگی ہے ۔ میں نے تو صرف تم لوگوں کو ایک راستہ دکھایا تھا تم لوگ کس قدر عمدگی سے راستہ اختیار کرچکے ہو۔”
نقاب پوش مختلف دروازوں سے میٹنگ روم سے نکل چکے تھے ۔ صرف ابلیس اکیلا میز پر تھرکنے میں مصروف تھا۔ سٹیو نے میٹنگ کے اختتام کے بعد میٹنگ روم میں جھانکا، اسے میٹنگ روم کا سناٹا بہت کچھ بولتا ہوا محسوس ہوا۔ اس کی روح پر خوف نے پنجے گاڑ لیے۔ اس نے تیزی سے دروازہ بند کیا اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
____________________
وہ ہوائی جہاز میں بیٹھا درزیدہ نظروں سے اپنے ہمسفروں کو دیکھ رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس کا ہر ہمسفر اسے ملامتی نگاہوں سے گھور رہا تھا۔ اس نے اپنی پیشانی پر آئے پسینے کو رومال سے صاف کیا۔ اچانک چینی فضائی میزبان اس کے قریب آئی اور کچھ کہنے لگی۔ اسے لگا جیسے اس نے اس کے دل کے چور کو بھانپ لیا تھا۔اس کا جسم پسینے سے شرابور ہوگیا۔ اس کی رنگت زرد ہوگئی۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔فضائی میزبان نے مسکراتے ہوئے اسے پیپسی پکڑائی تو اس کے تن بدن میں جان آئی۔اس نے پیپسی کا ٹن لیا اور چسکیاں بھرنے لگا۔ اس نے سوچا :
“اس وقت میرے جیسے جیتے جاگتے کئی ٹائم بم کتنے ہوائی جہازوں میں سفر کررہے ہوں گے اور کتنے ائیر پورٹس  پر بیٹھے ہوں گے ۔ اسے وہ تمام احتیاطی تدابیر یاد آئیں جو اسے چھوٹی سی نیلے رنگ کی وائل دیتے ہوئے اس کے باس نے اسے بتائی تھیں ۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ وائل چینی حکام نے پکڑ لی تو اسے سرعام پھانسی لگا دی جائے گی۔
اس نے جیب سے دو ولیم کی گولیاں نکال کر پھانکیں اور کھڑکی سے سر ٹکا کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ جلد ہی وہ نیند کی آغوش میں کھو گیا۔ جہاں وہ ہر فکر سے بے بہرہ تھا۔
اس کی آنکھ پائلٹ کی اناؤنسمنٹ سے کھلی کہ جہاز جلد ہی بیجنگ ائیر پورٹ اترنے والا تھا۔ اس کے ساتھی اس کی دلی واردت سے بے خبر ایک دوسرے سے ہنسی مذاق میں مصروف تھے۔اس نے لمبا سانس لیا وہ جانتا تھا کہ بیجنگ سے اگلی فلائیٹ کہاں کی تھی۔
وہ جانتا تھا کہ اسے چین تک پہنچانے کے لئے یہ ڈرامہ رچایا گیا تھا ۔ اس نے مصمم ارادہ کیا کہ وہ اپنے دلی جذبات کو فرض کی راہ میں ہرگز حائل نہیں ہونے دے گا ۔ اس کے ضمیر نے ایک آخری کوشش کرتے ہوئے اسے جھنجھوڑا:
“کیا ایسی چیز اس نیلی وائل میں بند ہے جو چین جیسے ملک کو اس کے نادیدہ آقاؤ ں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گی؟”
اس کی آنکھوں کے سامنے نیلی آنکھوں والی اس کی خوبصورت بیوی اور معصوم بیٹی کی شبیہہ لہرا گئی۔ جنھیں وہ تسلی دے کر آیا تھا کہ دورہ مکمل ہوتے ہی وہ واپس ان کے پاس آپہنچے گا۔اس نے ہونٹ چباتے ہوئے اپنے سر کو جھٹکا اور جہاز کی لینڈنگ کا انتظار کرنے لگا۔اس کا فرض اس کے ضمیر پر بھاری تھا۔ اس نے اپنی نوکری قبول کرتے وقت عہد کیا تھا کہ وہ اپنے ملک و قوم کے مفادات کی راہ میں ہر چیز قربان کردے گا ۔ پھر یہ تو صرف اس کا ضمیر تھا جس کا قتل آج اس نے کند چھری سے کردیا تھا۔ اس نے اپنے ذہن میں لائحہ عمل تیار کرنا شروع کردیا کہ ووہان میں اس نے اپنے کام کی ابتدا کہاں سے کرنی تھی۔ اچانک اس کے ساتھی نے اس کے کان میں سرگوشی کی:
“میں چین کی wet markets میں ضرور جاکر تازہ مچھلی اور lobsters خریدوں گا۔ سنا ہے کہ ان کی مچھلی اور lobsters بہت تازہ اور عمدہ ہوتے ہیں ۔”
اس کے باریک ہونٹوں پر ایک سفاک سی مسکراہٹ آگئی۔ اس نے اپنے ساتھی کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا:
“فکر مت کرو۔ہم اکٹھے ہی جائیں گے ۔میں تمھارا گائیڈ بن کر جاوں گا۔ میں کئی دفعہ ووہان آیا ہوا ہوں ۔”
اس نے اپنے منصوبے پر عملدرآمد کے لئے مفصل لائحہ عمل طے کرلیا تھا ۔اب وہ خواشگوار موڈ میں سیٹی بجا رہا تھا ۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply