بائیولوجی (48)۔۔وہاراامباکر

رابرٹ ہک نے اپنا چاقو تیز کیا اور کارک کا چھوٹا سا سلائس کاٹا۔ اس کو خود بنائی ہوئی مائیکروسکوپ کے نیچے رکھا اور یوں 1664 میں وہ پہلے انسان بن گئے جنہوں نے خلیہ دیکھا۔ جاندار اشیا بھی کسی بنیادی بلڈنگ بلاک سے بنتی ہیں۔ یہ سب کے لئے ہی حیرت کا باعث تھا۔

خلیوں کو زندگی کے ایٹم سمجھا جا سکتا ہے لیکن یہ بہت زیادہ پیچیدہ اشیا ہیں اور جو شے ان کو دیکھنے والوں کے لئے مزید حیرت کا باعث رہی، وہ یہ کہ یہ خود زندہ اشیا ہیں۔ ایک خلیہ ایک زندہ متحرک فیکٹری ہے جو توانائی اور خام مال استعمال کرتا ہے اور اس سے قسم قسم کی اشیا بناتا ہے۔ زیادہ تر پروٹین، جو تقریبا ہر اہم بائیولوجیکل فنکشن کرتے ہیں۔ خلیے کو اپنا فنکشن کرنے کے لئے بہت نالج کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ان کا دماغ نہیں لیکن ان کو چیزوں کا “علم” ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ پروٹین اور دوسرے میٹیریل کیسے بنانے ہیں جس سے وہ کام کر سکیں اور بڑھ سکیں اور سب سے اہم یہ کہ اپنے جیسا اگلا پیدا کر سکیں۔

خلیے کی سب سے اہم ترین پراڈکٹ خود اپنی کاپی ہے۔ اور اس صلاحیت کا نتیجہ ہے کہ ہم انسان ایک خلیے سے آغاز کرتے ہیں اور چالیس سے زیادہ بار دگنا ہو جانے کی وجہ سے ہم تیس ٹریلین خلیوں کے قریب کے ہو جاتے ہیں۔ جتنا ستارے ہماری کہکشاں میں ہیں، اس سے سو گنا زیادہ خلیے۔ اور یہ بہت زبردست ہے کہ ہمارے خلیوں کی ان تمام ایکٹیویٹی کے ساتھ، ان بغیر سوچنے والے انفرادی زندہ یونٹس کے ذریعے ہم برآمد ہو جاتے ہیں۔ اور اس سے زیادہ دماغ گھما دینے والا تصور یہ ہے کہ ہم اس گنجلک کو کھول کر اس میں جھانک لیتے ہیں اور اس کا پتا لگا سکتے ہیں۔ یہ ویسے ہے جیسے کوئی کمپیوٹر خود سے بغیر کسی بھی پروگرامر کی مدد سے، خود اپنا ہی تجزیہ کرنے لگے۔ یہ بائیولوجی کا معجزہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور یہ معجزہ اس وقت زیادہ بڑا لگنے لگتا ہے جب آپ یہ سوچیں کہ بائیولوجی کی زیادہ تر دنیا ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ اس کی کچھ وجہ خلیوں کو چھوٹا سائز ہے اور کچھ زندگی کا بہت ہی زبردست تنوع۔ اگر آپ بیکٹیریا جیسی اشیا کو چھوڑ دیں اور صرف ان جانداروں کی گنتی کریں جن کا نیوکلئیس ہے تو ایک اندازے کے مطابق لگ بھک ایک کروڑ انواع ہیں جن میں سے ہم نے جو دریافت کر کے کلاسیفائی کی ہیں، وہ ایک فیصد کے قریب ہیں۔ صرف چیونیٹیوں کی کم از کم بائیس ہزار انواع ہیں۔

ہم اپنے باغ میں رہنے والے بہت سے کیڑوں سے واقف تو ہوتے ہیں لیکن اچھی مٹی کا ایک چمچ اتنی اقسام کے جاندار رکھتا ہے کہ ہمارا گننا مشکل ہے۔ سینکڑوں کا کئی بار ہزاروں غیرفقاریہ انواع۔ ہزاروں اقسام کے خوردبینی roundworm۔ اور دسیوں ہزار اقسام کے بیکٹریا۔

زندگی کی موجودگی اتنی زیادہ ہے کہ ہم وہ جاندار عام کھاتے رہتے ہیں جو ہم شاید ہم کھانے کا انتخاب نہیں کریں گے۔ اگر آپ مونگ پھلی کا مکھن خریدنے جائیں جس میں کیڑوں کے ٹکڑے نہ ہوں، تو یہ کام آپ نہیں کر سکتے۔ ایسا کرنا عملی طور پر ممکن نہیں، اس لئے ریگولیشن کے مطابق اکتیس گرام میں کیڑوں کے دس ٹکڑوں سے زیادہ نہیں ہونے چاہییں۔ ایک بار گوبھی کھائیں تو اس میں ساٹھ کے قریب aphid یا mite ہو سکتے ہیں۔ پسی ہوئی دارچینی کے ایک جار میں کیڑوں کے چار سو ٹکڑے پائے جا سکتے ہیں۔

یہ سب سننا شاید اچھا نہ لگے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا جسم بیرونی زندگی سے خالی نہیں ہے۔ ہم سب خود میں ایک جہاں ہیں جس میں زندہ اجسام کا ایک پورا ایکوسسٹم موجود ہے۔ سائنسدان خوردبینی زندگی کے 44 جینرا (انواع کے گروپ) کی شناخت کر چکے ہیں جو آپ کے بازو پر رہتی ہیں۔ پاوٗں کی انگلیوں کے بیچ میں فنگس کی چالیس انواع کی۔ اگر سب کو جمع کرتے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم میں پائے جانے والے انسانی خلیات سے زیادہ وہ خلیات ہیں جو ہمارے اپنے نہیں۔

اور ہم میں سے ہر ایک میں یہ ایکوسسٹم منفرد ہے۔ لیکن آپ کے بازو کی زندگی کی اقسام میں مماثلت آپ کی آنتوں کے نظام سے زیادہ میرے بازو کی زندگی سے ہے۔۔ زندگی کی یہ پیچیدگی، اس کا تنوع، اس کی شکلیں اور رہنے کی جگہیں ۔۔۔ یہ حیرانی کی بات نہیں تھی کہ بائیولوجی فزکس اور کیمسٹری سے پیچھے رہی تھی۔ اس میں ارسطو کے دور سے آگے نکلنے میں زیادہ وقت لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارسطو کو بائیولوجی میں بہت زیادہ دلچسپی تھی۔ ان کا ایک چوتھائی کام اسی پر ہے۔ جس طرح ارسطو کی فزکس میں زمین کائنات کا مرکز تھی، ویسے ان کی بائیولوجی میں انسان اور خاص طور پر مرد حیات کا مرکز تھے اور اس کا اعلیٰ ترین درجہ تھے۔

ارسطو کے خیالات میں ہر شے کا مقابلہ انسان کا بلیوپرنٹ سے کیا جاتا تھا اور جو خاصیت انسانی خاصیت سے مختلف تھی، اسے اس نوع کی کمزوری کہا جاتا تھا۔ اسی طرح وہ خاتون کو ایک deform ہو جانے والا مرد کہتے تھے۔

ارسطو کی بائیولوجی آہستہ آہستہ غلط ثابت ہوتی گئی اور ان سے جدید بائیولوجی کی پیدائش کی سٹیج آئی۔ ارسطو کی بائیولوجی کے خلاف سب سے پہلے ابتدائی کامیابی spontaneous generation کے خلاف ہوئی۔ ارسطو کے خیال میں جاندار اشیا بے جان مٹی سے اگ سکتی تھیں۔

اس خیال کے غلط ثابت ہو جانے کے ساتھ ساتھ جب یہ دیکھا گیا کہ سادہ زندگی میں بھی ویسے ہی اعضاء ہیں جیسے ہمارے۔ اور تمام پودے اور جاندار خلیوں سے بنے ہیں تو مائیکروسکوپ کی اس ٹیکنالوجی نے پرانے خیالات پر شکوک کے سائے ڈالنا شروع کر دئے۔ لیکن بائیولوجی باقاعدہ سائنس کے طور پر اس وقت تک میچور نہیں ہو سکتی تھی جب تک کہ اس کی تنظیم کے اصولوں کا علم نہ ہو۔

فزکس میں حرکت کے قوانین ہیں۔ کیمسٹری میں پیریوڈک ٹیبل۔ بائیولوجی کو کامیاب ہونے کے لئے ایسے وضاحتی فریم ورک کی ضرورت تھی جو بتا سکے کہ جاندار اشیا ویسی کیوں ہیں جیسا ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔ “یہ بس ایسے ہی ہوتا ہے” سے آگے نکل کر “یہ سب ایسے ہی کیوں ہوتا ہے” کا وضاحتی فریم ورک لانے کے لئے بائیولوجی کو ویسا ہی فکری انقلاب چاہیے تھا جیسے نیوٹن فزکس میں لائے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments